رسالت محمدی ﷺکے فرائض ـ مولانا امین احسن اصلاحی ؒ


رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ١٢٩؀ۧ (سورہ بقرہ :129)

(اور اے ہمارے رب تو ان میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیتیں سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے، بے شک تو غالب اور حکمت والا ہے ۔)

--------------------------------
‘‘ ان میں انہی میں سے ایک رسول اٹھا، یعنی ہماری ذریت میں سے ’’۔ چونکہ اس موقع پر حضرت ابراہیم کے ساتھ صرف حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی تھے اور وہی اس وادی غیر ذی زرع میں بسائے جا رہے تھے اس وجہ سے اس دعا کا تعلق لازما انہی کی ذریت سے تھا۔ اس کا کوئی تعلق بھی حضرت اسحاق کی ذریت سے نہیں ہوسکتا۔ تورات کے الفاظ سے بھی یہی بات نکلتی ہے کہ آخری نبی کی بعثت حضرت اسماعیل کی نسل سے ہونے والی تھی۔ تثنیہ باب 18 میں حضرت موسیٰ کی جو مشہور پیشین گوئی ہے اس میں فرمایا ہے‘‘ تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا ’’ آگے چل کر ہے‘‘ میں ان کے لیے انہیں کے بھائیوں میں سے ’’۔ یہ الفاظ صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس سے مراد بنی اسماعیل ہی ہیں۔ گر بنی اسرائیل مراد ہوتے تو صحیح تعبیر‘‘ انہی کے بھائیوں میں سے ’’ کی بجائے‘‘ انہی میں سے ’’ کی ہوتی۔ اسی طرح‘‘ تیرے ہی بھائیوں میں سے ’’ کی جگہ‘‘ تمہارے ہی اندر سے ’’ کے الفاظ وارد ہوتے۔ علاوہ ازیں یہاں‘‘ میری مانند ’’ کے الفاظ بھی قابل لحاظ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نبی کی بعثت کے پیشین گوئی کی گئی تھی ایک صاحب رسالت رسول کی تھی۔

 قرآن مجید کی مذکورہ دعا میں اسی لحاظ سے رسول کا لفظ وارد ہوا ہے۔ ہم آگے کسی مناسب موقع پر رسول اور نبی کے فرق کو ظاہر کریں گے۔ یہاں جس رسول کی بعثت کے لیے دعا کی گئی ہے۔ اس کے تین مقاصد بتائے گئے۔ ایک تلاوت آیات، دوسرا تعلیم کتاب و حکمت، تیسرا تزکیہ ۔


تلاوت آیات کا مفہوم :


 آیت لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں، جس سے کسی چیز پر دلیل لائی جا سکے۔ اس پہلو سے آسمان و زمین کی ہر چیز آیت ہے۔ اس لیے کہ ان میں سے ہر چیز خدا کی قدرت و حکمت اور اس کی مختلف صفات خلق و تدبیر پر ایک دلیل ہے۔ اسی طرح وہ معجزات بھی آیت ہیں جو انبیاء علیہم السلام سے ظاہر ہوئے اس لیے کہ وہ بھی اپنے پیش کرنے والوں کی سچائی پر دلیل تھے۔ علی ہذا القیاس قرآن مجید کے الگ الگ جملوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس لیے کہ فی الحقیقت ان میں سے ہر آیت کی حیثیت ایک دلیل و برہان کی ہے جس سے خدا کی صفات اور ان کے احکام و قوانین اور اس کی مرضیات کا علم ہوتا ہے ۔‘‘يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ ’’ کے الفاظ سے اس زور اور اختیار کا اظہار ہورہا ہے، جس سے مسلح ہو کر خدا کا ایک رسول اس دنیا میں آت ہے۔ یہ واضح رہے کہ رسول محض ایک خوش الحان قاری کی طرح لوگوں کو قرآن سنانے نہیں آتا، بلکہ وہ خدا کے سفیر کی حیثیت سے لوگوں کو آسمان و زمین کے خالق و مالک کے احکام و فرامین اور اس کے دلائل و براہین سے آگاہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں وحی الٰہی کے لیے آیات کے لفظ سے اس حقیقت کا بھی اظہار ہورہا ہے کہ خدا کا دین تحکم اور جبر پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ تمام تر دلائل و براہین پر مبنی ہے اور اس کے ہر ٹکڑے کے اندر اس کی دلیل ہے۔ 


تعلیم کتاب و حکمت کا مفہوم :

 اب آئیے تعلیم کتاب و حکمت کے الفاظ پر غور فرمائیے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ تعلیم، تلاوت سے ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ تلاوت آیات تو یہ ہے کہ رسول نے لوگوں کو آگاہ کردیا کہ خدا نے اس کے اوپر یہ وحی نازل کی ہے۔ تعلیم یہ ہے کہ نہایت شفقت و توجہ کے ساتھ ہر استعداد کے لوگوں کے لیے اس کی مشکللات کی وضاحت کی جائے، اس کے اجمالات کی تشریح کی جائے، اس کے مقدرات کھولے جائیں اور اس کے مضمرات بیان کیے جائیں اور اس توضیح و بیان کے بعد بھی اگر لوگوں کے ذہن میں سوالات پیدا ہوں تو ان کے سوالوں کے جوب دیے جائیں۔ مزید برآں لوگوں کی ذہنی تربیت کے لیے خود ان کے سامنے سوالات رکھے جائیں اور ان کے جوابات معلوم کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ لوگوں کے اندر فکر و تدبر کی صلاحیت اور کتاب الٰہی پر غور کرنے کی استعداد پوری طرح بیدار کرنے کی استعداد پوری طرح بیدار ہوجائے۔ یہ ساری باتیں تعلیم کے ضروری اجزا میں سے ہیں اور ہر شخص جس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا ہے اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ آپ نے اپنے صحابہ کے لیے تعلیم کتاب کے یہ تمام طریقے اختیار فرمائے۔ تعلیم کے ساتھ یہاں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک کتاب کا، دوسری حکمت کا۔ کتاب سے مراد تو ظاہر ہے کہ قرآن مجید ہے۔ اس لفظ کی تحقیق ہم اس سورۃ کی آیت 2 کی تفسیر کے ذیل میں بیان کر آئے ہیں۔ لفظ حکمت کی تحقیق مولانا فراہی نے اپنی کتاب مفردات القرآن میں جو بیان فرمائی ہے اس کا ضروری حصہ ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ۔‘‘ رہی حکمت تو وہ تعبیر ہے اس قوت و صلاحیت کی جس سے انسام معاملات کا فیصلہ حق کے مطابق کرتا ہے۔ حضرت داود کی تعریف میں ارشاد ہوا ہے‘‘ واتیناہ الحکمۃ وفصل الخطاب۔ ہم نے اس کو حکمت عطا کی اور فیصلہ معاملات کی صلاحیت ’’۔ یہاں فصل الخطاب کے لفظ سے اس اثر کو بیان کیا ہے جو حکمت کا ثمرہ ہے۔ جس طرح فیصلہ معاملات کی صلاحیت حکمت کے ثمرات میں سے ہے۔ اسی طرح اخلاق کی پاکیزگی اور تہذیب بھی اس کے ثمرات میں سے ہے۔ اسی وجہ سے اہل عرب حکمت کا لفظ انسان کی اس قوت وصلاحیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں جو عقل و رائے کی پختگی اور شرافت اخلاق کی جامع ہوتی ہے۔ چنانچہ دانش مند اور مہذب آدمی کو حکم کہا جاتا ہے اور جو بات عقل اور دل دونوں کے نزدیک بالکل واضح ہو اس کو حکمت سے تعبیر کرتے ہیں ’’۔ حکمت کا ذکر یہاں کتاب کے ساتھ اس بات پر دلیل ہے کہ تعلیم حکمت تعلیم کتاب سے ایک زائد شے ہے، اگرچہ یہ حکمت سر تا سر قرآن حکیم ہی سے ماخوذ و مستنبط ہو۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک جو لوگ حکمت سے حدیث مراد لیتے ہیں، ان کی بات میں بڑا وزن ہے۔ یہاں یہ امر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ حکمت چونکہ حکیمانہ بات کو بھی کہتے ہیں اور حکیمانہ بات کہنے کی صلاحیت کو بھی، اس وجہ سے تعلیم حکمت کے معنی جس طرح کسی کو کوئی حکیمانہ بات بتا دینے کے ہیں اسی طرح اس کے معنی لوگوں کے اندر حکمت کی صفت و صلاحیت پیدا کرنے کے بھی ہیں۔


تزکیہ کا مفہوم :


 رسول کا تیسرا مقصد تزکیہ بتایا گیا ہے۔ لفظ تزکیہ دو مفہوموں پر مشتمل ہے۔ ایک پاک و صاف کرنے پر، دوسرے نشوونما دینے پر، ہمارے نزدیک یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جو چیز مخالف و مزاحم رواید و مفاسد سے پاک ہوگی وہ لازماً اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق پروان بھی چڑھے گی۔ انبیاء علیہم السلام نفوس انسانی کا جو تزکیہ کرتے ہیں اس میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ وہ لوگوں کے دلوں اور ان کے اعمال و اخلاق کو غلط چیزوں سے پاک صاف بھی کرتے ہیں اور ان کے اعمال و اخلاق کو نشوونما دے کر ان میں مفاسد اور مخالف و مزاحم چیزوں کے بالمقابل استقلال کے ساتھ سینہ سپر رہنے اور استقامت دکھانے کی قوت بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کتاب کے مقابلہ میں فوس کا تزکیہ کہیں زیادہ دیدہ ریزی، مشقت اور صبر وریاض کا طالب ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کا ذکر تمام دین و شریعت کے غایت و مقصد کی حیثیت سے ہوا ہے۔ اس حقیقت کی وضاحت ہم انشاء اللہ آگے کسی موزوں مقام پر کریں گے۔ عزیز اور حکیم کا مفہوم : آیت کے خاتمہ پر خدا کی دو صفتوں۔ عزیز و حکیم۔ کا حوالہ ہے۔ عزیز کے معنی غالب عزت و قوت والے کے ہیں۔ یعنی وہ ذات جو پوری قوت وصولت اور پورے اختیار و اقتدار کے ساتھ اس کائنات پر فرمانروائی کر رہی ہے۔ حکیم کے معنی ہیں جس کے ہر کام میں حکمت، مصلحت اور مقصد و غایت ہو۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفتوں کا حوالہ بالعموم ایک ساتھ آتا ہے۔ اس سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفتوں کا حوالہ بالعموم ایک ساتھ آتا ہے۔ اس سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ ت عالیٰ اس کائنات پر پوری قوت اور پورے غلبہ کے ساتھ حاوی اور متصرف ہے لیکن اس کے غلبہ و اقتدار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس کے زور میں جو چاہے کر ڈالے، بلکہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے حکمت و مصلحت کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کا کوئی کام بھی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ یہاں ان دونوں صفتوں کا حوالہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ جو عزیز و حکیم ہے، اس کی عزت وحکمت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی پیدا کی ہوئی اس مملکت میں اپنا سفیر اور پیغمبر بھیجے جو اس کی رعیت کو اس کے احکام وقوانین سے آگاہ کرے اور ان کو شریعت اور حکمت کی تعلیم دے ۔


نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی :

 منکرین سنت کا دعوی یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اصلی ذمہ داری بحیثیت پیغمبر کے صرف یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ پر جو وحی نازل فرمائے آپ وہ لوگوں تک پہنچا دیں۔ اس کے بعد بحیثیت رسول کے آپ کا فرض ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد نہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر کوئی ذمہ داری ہی ہے اور نہ وحی الٰہی یا بالفاظ دیگر قرآن، کے سوا آپ کے کسی قول یا فعل کی کوئی مستقل شرعی اہمیت ہی ہے۔ ہمارے نزدیک منکرین سنت کے اس دعوے کی تردید کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت ہی کافی ہے۔

 اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی کی جو تفصیل کی گئی ہے۔ اس میں صرف لوگوں کو قرآن سنا دینے ہی کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ متعدد دوسری چیزوں کا بھی ذکر ہے اور اس آیت سے واضح ہے کہ ان چیزوں کا ذکر بھی آپ کے فرائض نبوت ہی کی حیثیت سے ہوا ہے۔ آیت پر ایک نظر پھر ڈال لیجیے۔ فرمایا ہے‘‘ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ’’ اے ہمارے رب، ان میں بھیجیو ایک رسول انہی میں سے جو ان کو پڑھ کر سنائے تیری آیتی اور ان کو تعلیم دے کتاب اور حکمت کی اور ان کا تزکیہ کرے۔ بے شک تو غالب اور حکمت والا ہے ۔


یہ اس دعا کے الفاظ ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے لیے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے فرمائی تھی۔ اسی دعا کے مطابق جب آنحضرت کی بعثت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اہل عرب پر اپنے اس احسان عظیم کا اظہار یوں فرمایا هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأمِّيِّينَ رَسُولا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ، وہی خدا ہے جس نے بھیجا امیوں (بنی اسماعیل) میں ایک رسول انہی میں سے جو ان کو پڑھ کر سناتا ہے اس کی آیتیں اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ بے شک یہ لوگ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ 


ان دونوں آیتوں پر غور کیجیے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جن صفات کے پیغمبر کے لیے دعا کی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسل بعینہ انہیں صفات کے ساتھ مبعوث ہوئے اور آپ نے امیوں کے اندر عملاً وہ سارے کام انجام دیے بھی جن کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا فرمائی تھی۔ ان دونوں ہی مقامات میں جہاں تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض کا تعلق ہے ان کے بیان میں کوئی اختلاف نہیں۔ اگر کوئی اختلاف ہے تو صرف یہ کہ پہلی آیت میں تزکیہ کا ذکر سب کے آخر میں ہے اور دوسری آیت میں تعلیم کتاب و حکمت سے پہلے لیکن تلاوت آیات کے بعد۔ یہ فرق کوئی خاص اہمیت رکھنے والا فرق نہیں۔

 تزکیہ کے مقدم و موخر ہونے کی وجہ ایک دوسرے مقام میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ تزکیہ تمام دین و شریعت کی غایت اور بعثت انبیاء کا اصل مقصود ہے اور جو چیز کسی کام میں غایت و مقصود کی حیثیت رکھتی ہے وہ عمل میں اگرچہ موخر ہوتی ہے لیکن ارادہ میں مقدم ہوتی ہے اس وجہ سے اصل اسکیم میں اس کا ذکر مقدم بھی ہوسکتا ہے اور موخر بھی۔

 چنانچہ اسی اعتبار سے تزکیہ کا ذکر ایک آیت میں مقدم ہوا ہے دوسری میں موخر۔ اس ترتیب کے فرق کے علاوہ دوسری ساری باتیں دونوں آیتوں میں بالکل مشترک ہیں اور ان میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مندرجہ ذیل فرائض بتائے گئے ہیں۔ 1۔ تلاوت آیات۔ 2۔ تعلیم کتاب و حکمت۔ 3۔ تزکیہ۔ 


ان میں سے جہاں تک پہلی چیز۔ تلاوت آیات۔ کا تعلق ہے، ہم بلا کسی بحث و نزع کے تسلیم کیے لیتے ہیں کہ اس سے مراد لوگوں کو قرآن مجید سنانا ہی ہے۔ دین و دانش دونوں ہی سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ خدا کے ایک رسول کا اولین فریضہ یہی ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کے بندوں تک اس کی وحی کو پہنچائے لیکن اس تلاوت کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اس طرح نہیں ہوئی ہے کہ لوگوں کو پوری کتاب بیک دفعہ سنادی گئی ہو بلکہ یہ 23 سال کی وسیع و طویل مدت میں تھوڑی تھوری کر کے اتاری گئی اور اسی تدریج کے ساتھ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو سبقاً سبقاً اس کی تعلیم دی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتاب کوئی سہل اور سپاٹ کتاب نہیں ہے بلکہ یہ نہایت گہرے علوم و معارف اور اعلی اسرار و حقائق کی کتاب ہے۔

 اس وجہ سے اس کے لیے یہ ضروری ہوا کہ یہ سبق سبق کر کے پڑھائی جائے تاکہ لوگوں کی اس کے خزانوں تک رسائی ہوسکے۔ اس حقیقت کو قرآن نے یوں واضح کیا ہے وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ (اسراء :106) اور ہم نے اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا تاکہ تو لوگوں کو اس کو وقفہ وقفہ کے ساتھ سنائے۔ قرآن حکیم کی مذکورہ بالا خصوصیت اس بات کی مقتضی ہوئی کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو ایک قاری کی طرح صرف سناد ینے ہی پر اکتفا نہ فرمائیں بلکہ ایک معلم کی طرح پوری دلسوزی اور پوری شفقت کے ساتھ لوگوں کو اس کی تعلیم بھی دیں۔

 چنانچہ اسی بنا پر تلاوت کے ساتھ ساتھ آپ کا دوسرا فرض تعلیم کتاب بتایا گیا۔ یہ تعلیم کتاب کا فریضہ آپ کے فرائض نبوت ہی کا ایک جز اور آپ کا معلم ہونا آپ کے منصب رسالت ہی کا ایک پہلو ہے۔

اس وجہ سے اپنی اس حیثیت میں آپ نے جو کچھ لوگوں کو سکھایا اور بتایا اس کو آپ کے فرائض نبوت سے نہ تو خارج کیا جا سکتا اور نہ اس کا درجہ اصل کتاب کے مقابل میں گرایا ہی جاسکتا۔

 اب غور فرمائے کہ اس تعلیم کے تقاضے کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک بالکل ابتدائی تقاضا تو یہ ہے کہ قرآن میں جو شرعی اصطلاحات مثلاً زکوۃ صلوۃ، زکوۃ، حج، صیام، طواف، عمرہ، نکاح، طلاق وغیرہ استعمال ہوئی ہیں لیکن ان کی عملی شکلیں واضح نہیں کی گئی ہیں ان کو آپ اچھی طرح لوگوں پر واضح کردیں تاکہ لوگ عملی زندگی میں ان کو اختیار کرسکیں اور ان کے مختلف اجزاء کا دین میں جو مقام ہے اس کو متعین کرسکیں۔

دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن میں فکر و عمل کی تصحیح کے جو اصول دیے گئے ہیں ان کے لوازم و تضمنات کے ضروری گوشے واضح کردیے جائیں تاکہ ان ابواب میں مزید رہنمائی حاصل کرنے کے لیے وہ روشنی کے میناروں کا کام دیں۔

 اسی طرح ایک چیز یہ بھی ہے کہ قرآن میں جو احکام شریعت دیے گئے ہیں ان کی حیثیت صرف اصولی احکام کی ہے۔ ان میں سے ہر باب کے تحت بے شمار صورتیں ایسی آتی ہیں جن میں احکام کا تعین معلم کی رہنمائی اور اجتہاد پر چھور دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اجتہاد کے لیے امت کو بہترین رہنمائی ان مثالوں ہی سے مل سکتی تھی جو اس کتاب کے معصوم معلم نے اپنے اجتہاد سے قائم کیں۔

چوتھی چیز یہ ہے کہ قرآن اجتماعی زندگی کا ایک نظام بھی پیش کرتا ہے لیکن اس کے صرف چاروں گوشے متعین کردینے والے اصول دے کر اس کی جزئیات و تفصیلات اور اس کے عملی ڈھانچہ کے معاملہ کو معلم کی ذمہ داری پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس چیز کو بھی لوگوں نے حضور ہی کی تعلیم سے سیکھا۔

 ان کے علاوہ ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ زیر بحث آیت میں صرف تعلیم کتاب ہی کا ذکر نہیں ہے بلکہ تعلیم حکمت کا بھی ذکر ہے۔ تعلیم حکمت تعلیم شریعت سے بہت وسیع چیز ہے۔ اس سے مراد، جیسا کہ اس لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے ہم بیان کرچکے ہیں، وہ دانش و بینش اور بصیرت و معرفت ہے جو زندگی کے ان بعید گوشوں میں بھی انسان کی رہنمائی کرتی ہے جہاں رہنمائی کرنے والی اس کے سامنے کوئی اور روشنی نہیں ہوتی۔

 اب غور کیجیے کہ یہ ساری باتیں تعلیم کے تقاضوں میں سے ہیں یا نہیں ؟ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ساری چیزوں کی تعلیم کے لیے بحیثیت ایک خدائی معلم کے مامور تھے یا نہیں ؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے اور ظاہر ہے کہ ان کا جواب اثبات ہی کی صورت میں ہوسکتا ہے تو غور کیجیے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اس حیثیت میں جو کچھ کہا اور کیا ہے اس کو آپ کے فرائض نبوت کے دائرے سے الگ کس طرح کیا جا سکتا ہے اور اس کی اہمیت کو گھٹا یا کس طرح جا سکتا ہے ؟ اور پھر اس بات پر غور کیجیے کہ احادیث میں ان چیزوں کے سوا کیا ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحیثیت معلم کتاب و حکمت ہونے کے بتائی ہیں یا ان پر عمل کرکے دکھایا ہے ؟

اسی طرح اب تزکیہ پر غور کیجیے۔ تزکیہ کا عمل ظاہر ہے کہ تعلیم سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور سیع الاطراف ہے۔ اوپر ہم واضح کر آئے ہیں کہ اس لفظ میں پاک صاف کرنے اور نشوونما دینے، دونوں کا مفہوم شامل ہے یہ بہ یک وقت علمی بھی ہے اور عمی بھی، ظاہری بھی باطنی بھی، مادی اور جسمانی بھی ہے اور عقلی و روحانی بھی، نیز یہ انفرادی بھی ہے اور سماجی واجتماعی بھی۔ مختصراً چند بنیادی تقاضے اس کے بھی سامنے رکھ لیجیے۔ اس کا ایک ضروری تقاضا تو یہ ہے کہ لوگوں کے اذہان، اعمال اور اخلاق پر خورد بینی نگاہ ڈال کر ان جراثیم سے ان کو پاک کیا جائے جو روحانی اور اخلاقی بیماریوں کے سبب بنتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے اندر نیکیوں کی تخم ریزی کی جائے جو انسان کے ظاہرو باطن کو سنوارتی اور اس کے عادات و خصائل کو مہذب بناتی ہیں۔

اس کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ لوگوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ ہر خوبی ان کے اندر جڑ پکڑ جائے اور ہر برائی کے خلاف طبیعتوں میں نفرت بیٹھ جائے۔ اس کا تیسرا تقاضا یہ ہے کہ اس تعلیم و تربیت سے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا جائے جو تزکیہ نفوس کے لیے ایک وسیع تربیت گاہ کا کام دینے لگ جائے، جو شخص بھی اس میں اٹھے اسی ماحول کے اثرات لیے ہوئے اٹھے اور جو شخص بھی اس کے اندر داخل ہوجائے اس پر اسی کا رنگ چڑھ جائے۔

اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ یہ خیال بڑا مغالطہ انگیز ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فریضہ منصبی بحیثیت رسول کے صرف یہ تھا کہ آپ لوگوں کو قرآن پہنچا دیں۔ قرآن کا پہنچا دینا آپ کے فرائض منصبی کا صرف ایک جزو تھا۔ اس کے علاوہ آپ کی یہ ذمہ داری بھی تھی کہ آپ ایک معلم کی طرح لوگوں کو اس قرآن کی تعلیم دیں، اس کے مضمرات و تضمنات، اس کے اجمالات و اشارات اور اس کے اسرار و حقائق لوگوں پر واضح کردیں، اس کے عجائب حکمت کی روشنی میں افراد اور معاشرہ کی تربیت کے اصول و فروع بھی متعین فرمائیں اور ان اصولوں کے مطابق لوگوں کا تزکیہ بھی کریں۔ یہ سارے کام آپ کے فرائض نبوت میں شامل تھے۔

اس وجہ سے ان مقاصد کے تحت آپ نے جو کچھ بتایا یا جو کچھ کیا اس سب کو امت نے اسی طرح واجب التعمیل سمجھا جس طرح قرآن کو سمجھا اور اسی اہمیت کے ساتھ اس کی حفاظت اور اس کے نقل و روایت کا اہتمام کیا۔ اس کے کسی جزو کے متعلق یہ سوال تو اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس کا انتساب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پوری صحت کے ساتھ ثابت ہے یا نہیں لیکن اس کو دین و شریعت سمجھنے سے انکار کرنا خود قرٓن مجید کے انکار کے ہم معنی ہے ۔ (1)

--------------------------------------