حضرت نوح ؑ کی سرگزشت

حضرت نوح علیہ السلام کی سرگزشت
 (سورہ نوح کی روشنی میں )

  اس سورہ  میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کے مراحل، ان کے طویل صبر و انتظار اور بالآخر ان کی قوم کے مبتلائے عذاب ہونے کی سرگزشت نہایت  جامعیت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ اور مقصود اس سے انسانوں کے سامنے ایک ایسا آئینہ رکھ دینا ہے جس میں وہ دیکھ سکیں  کہ اللہ کے رسول کو اپنی آخری منزل تک پہنچنے کے لیے صبر و انتظارکے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، ساتھ ہی یہ بھی دیکھ لیں کہ اللہ تعالی  اگرچہ ایک طویل مدت تک مہلت دیتا ہے لیکن بالآخر پکڑتا ہے اور جب پکڑتا ہے تو اس طرح پکڑتا ہے کہ کوئی ان کو چھڑانے والا نہیں بنتا ۔ اس سورت میں شروع سے لے کر آخر تک صرف حضرت نوح  (علیہ السلام) کی دعوت کے مراحل بیان ہوئے ہیں۔ صرف بعض آیات بیچ میں موقع کی مناسبت سے ضمنا  آئی ہیں۔

 قوموں کے معاملہ میں سنت الٰہی جس کی وضاحت قرآن مجید میں جگہ جگہ ہوئی یہ  ہے کہ جب بھی  کسی قوم کا اخلاقی فساد اس حد کو پہنچ جا ئے  کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کن عذاب کی مستحق بن جا ئے  تو عذاب بھیجنے سے پہلے اللہ تعالیٰ ایک رسول بھیج کر اس پر اپنی حجت تمام کر دیتا  ہے تاکہ کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ اسی سنت کے مطابق اس نے قوم نوح پر عذاب بھیجنے سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی قوم کو آگاہ کیا۔ ارشاد فرمایا :
"اے میری قوم !  اللہ نے مجھے تمہاری طرف اس لیے بھیجا ہے کہ میں تمہیں اس عذاب سے ہوشیار کر دوں جو تمہارے سروں پر منڈلا رہا ہے ۔کہ اللہ کی بندگی کرو، اس کے مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی سے بچو اور میری اطاعت کرو ۔اللہ تمہارے ( پچھلے گناہ) معاف کر دے گا اور تم کو مہلت دے گا ایک معین مدت تک۔ بے شک اللہ کی مقرر کی ہوئی مدت جب آجائے گی تو وہ ٹالے نہیں ٹلے گی۔ کاش کہ تم اسے سمجھتے !"
      اس کے بعد حضرت نوح ( علیہ السلام) کی دعوت کے دوسرےمرحلہ کا بیان ہے ۔ جب آپ نے اپنے رب سے استغاثہ کیا ہے کہ دعوت کی راہ میں  ان کی شب و روز کی ساری تگ و دو قوم پر بالکل بے اثر رہی۔قرآن سے یہ بات واضح ہے کہ جتنی طویل مدت تک حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دعوت دی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ قرآن میں تصریح ہے کہ وہ اپنی قوم کے اندر پچاس سال کم ایک ہزار سال رہا۔ لیکن اس کے باوجود اس کا جو حاصل رہا وہ خود حضرت نوح علیہ السلام  ہی کے الفاظ میں یہ ہے کہ
 "جتنا ہی زیادہ میں نے ان کو پکارا وہ اتنا ہی زیادہ مجھ سے بھاگے"
ان کی دعوت کی معقولیت ہر شخص پر واضح تھی ان کی دعوت چونکہ نفس کی خواہشات کے خلاف تھی اس وجہ سے حضرت نوح (علیہ السلام) نے جتنا ہی ان کا تعاقب کیا اتنا ہی وہ بھاگے۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) کی باتوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور اپنی زندگی کو بدلنا ان کے لیے ناممکن ہے تو سلامتی گریز و فرار ہی میں ہے تاکہ اپنے مجرم ضمیر کو احساس جرم کی اذیت سے بچا سکیں۔حقیقت سے فرار اختیار کرنے والوں کے پاس اس کے سوا کوئی دوسر ی تدبیر اور کیا ہو سکتی ہے !
        حضرت نوح علیہ السلام  نے  قوم کے فرارکی تصویر کشی کی ہے فرمایا :
" میں نے جب جب ان کو پکارا کہ وہ توبہ و استغفارکریں تاکہ تو ان کی مغفرت فرمائے  تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں، اپنے اوپر اپنی چادریں لپیٹ لیں، اپنی بات پر اڑ گئے اور نہایت گھمنڈ کا اظہار کیا ۔"
        پھر نہایت بلیغ الفاظ میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کے تیسرے مرحلہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے  جب قوم نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں اور اپنے اوپر اپنی چادریں بھی لپیٹ لی ہیں۔
" تو پھر میں نے ان کو ڈنکے کی چوٹ پکارا ۔پھر میں نے ان کو کھلم کھلا بھی سمجھایا اور چپکے چپکے بھی ۔"
        یعنی انہوں  نے  بھی اپنی دعوت کے لب و لہجہ کو تیز سے تیز تر اور بلند سے بلند تر کردیا۔جہاں ڈنکے کی چوٹ بات کہنے کی ضرورت ہوئی وہاں بے دریغ ڈنکے کی چوٹ اپنی بات سنائی اور جہاں دیکھا کہ ان کے اندر گھس کر کچھ سنانے سمجھانے کا موقع ہے تو  وہ طریقہ بھی آزمایا۔غرض انہوں نے نرم و گرم اور پوشیدہ و علانیہ ہر پہلو سے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے تاکہ فرض بلاغ میں کوئی کوتاہی نہ رہ جائے۔  ع         "حدی را تیز ترمی خواں چو محمل را گراں بینی !"
        حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا طریق دعوت یہی رہا ہے کہ ان کی قوم کی بیزاری دعوت سے جتنی ہی بڑھتی گئی ہے اتنا ہی ان کا جوش دعوت  میں اضافہ ، ان کا لب و لہجہ بلند، جھنجھوڑنے والا اور پر جوش ہوتا گیا ہے۔ حق اور اہل حق کی فطرت یہی ہے، مزاحمت کی شدت حق کی سطوت کو نمایاں کرتی اور اہل حق کے ولولہ کو دبانے کے بجائے ابھارتی ہے۔ ع
        "رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور۔۔۔۔"

        اس موقع پر  حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی اس دعوت کی وضاحت فرمائی ہے جو نہایت دل سوزی اور محبت سے انہوں نے اپنی قوم کو دی۔ فرمایا:
 " میں نے کہاکہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو، بے شک وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے ۔وہ تم پر اپنے  ابر رحمت کے دو نگڑے برسائے گا اور مال و اولاد سے تمہیں فروغ بخشے گا اور تمہارے واسطے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا"
 یعنی  ان کو سمجھایا کہ لوگو، اپنے رب سے اپنے گناہوں کی مغفرت مانگو، ہر چند تمہارے گناہ بہت ہیں لیکن اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ وہ بڑا ہی مغفرت فرمانے والا ہے۔ صرف مغفرت ہی  نہیں بلکہ تمہاری  اولاد ،  تمہارے مال  اور باغ   میں بھی برکت عطافرمائے گا ۔
        آخر میں  حضر ت نوح ؑ نے قوم کے ہٹ دھرموں کی بلاوت پر اظہار تعجب  کرتے ہوئے  فرمایا :
" تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی عظمت کے ظہور کے متوقع نہیں ہو ! حالانکہ اس نے تمہاری خلقت کو مختلف مراحل سے گزارا ! کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کس طرح اس نے بنائے تہ بہ تہ سات آسمان اور چاند کو ان کے اندر روشنی بنایا اور سورج کو چراغ اور اللہ ہی نے تم کو زمین سے اگایا خاص اہتمام سے ۔ پھرو ہ تم کو اسی میں لوٹاناہے اور اسی سے تم کو نکالے گا، بے روک اور اللہ ہی نے تمہارے لیے زمین کو ہموار بنایا کہ تم اس کی کھلی راہوں میں چلو ۔"
        یہاں سے کلام پھر حضرت نوح ( علیہ السلام) کی دعاسے مربوط ہوگیا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے  ( قَالَ نُوح رَبّ) فرماکر یہ واضح کردیا گیا کہ اب حضرت نوح ( علیہ السلام) کی دعا پھر آ رہی ہے ۔حضرت نوح ( علیہ السلام) یہاں  اس ردعمل کا ذکر فرما رہے ہیں جس کا آپ کی قوم کی طرف سے دعوت کے تیسرے مرحلہ جو اتمام حجت کا آخری مرحلہ تھا، اظہار ہوا۔ جب انہوں  نے سارے جتن کر ڈالے لیکن ان سنگ دلوں نے  ان  کوئی بات بھی نہیں سنی بلکہ اپنے انہی لیڈروں کی پیروی کی جن کے مال و اولاد کی کثرت نے ان کے خسارے ہی میں اضافہ کیا ہے۔ یعنی مال و اولاد نے شکر گزاری کے بجائے ان کے استکبار کو بڑھایا ہے جس کے سبب سے وہ اپنی روش پر اڑ گئے اور ان کی کوئی بات سننی ان کو گوارا نہیں۔ اس گھمنڈ میں  ان کی  دعوت کو  شکست دینے، اپنے عوام کو  ان  سے برگشتہ کرنے اور  ان کے  خلاف بھڑکانے کے لیے انہوں نے بڑی بڑی چالیں چلیں۔
" نوح  ؑنے دعا کی، اے میرے رب ! انہوں نے میری نافرمانی کی اور ان لوگوں کی پیروی کی جن کے مال اور جن کی اولاد نے ان کے خسارے ہی میں اضافہ کیا، اور انہوں نے بڑی بڑی چالیں چلیں اور(  چال بازی کرنےوالوں نے ) کہا کہ ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو اور ہرگز نہ چھوڑ"دُوّ" کو اور نہ "سُواع "کو اور نہ" یغوث،" "یعوق" اور "نسر" کو"
        یہ ان کے خاص خاص بڑے بتوں کے نام ہیں۔ ان کی خدائی کا سکّہ ان کے عوام کے دلوں پر جما ہوا تھا اس وجہ سے ان کے نام لے کر انہوں نے عوام کو للکارا کہ اپنے ان بزرگ دیوتائوں پر مضبوطی سے جمے رہو۔ اگر تم ذرا کمزور پڑے تو تمہارا دین آبائی خطرے میں پڑجائے گا ۔
        ان بتوں کے ناموں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ عربی نام ہیں۔ قوم نوح ؑ کا مسکن شمالی حجاز تھا اس وجہ سے اس کی زبان کا عربی ہونا بعید نہیں۔ ان بتوں کی سخت جانی قابل واد ہے کہ طوفان نے قوم نوح کے ایک ایک نقش کو مٹا دیا لیکن ان بتوں کی خدائی پھر بھی باقی رہی۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں مختلف قبائل عرب میں ان بتوں کی پرستش پھر رائج ہوگئی چنانچہ "وُد ّ"قبیلہ قضاعہ کی شاخ بنی کلب کا بت تھا۔ "سُوَاع "کی پرستش قبیلہ ہذیل کرتا تھا۔ "یغُوث" قبیلہ طے کی بعض شاخوں کا بت تھا۔ "یعوق" قبیلہ ہمدان کی ایک شاخ کا دیوتا تھا۔ "نسر " قبیلہ حمیر کی ایک شاخ میں بچتا تھا۔ یہاں ان بتوں کا ذکر جس ترتیب سے آیا ہے اس سے گمان ہوتا ہے کہ قوم نوح میں ان کے مراتب کی ترتیب یہی تھی۔ یعنی" ود "اور "سواع "کا مرتبہ سب سے اونچا تھا اور "یغوث"، "یعوق "اور "نسر "مرتبہ میں ان سے نیچے تھے ۔
         یہاں  حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے لیڈروں کی روش پر غم و زند وہ کا اظہار فرمایا ہے اور ساتھ ہی ان کی زبان سے بے ساختہ  بد دعا بھی نکلی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کے تیسرے مرحلے میں پہنچ کر دیکھ لیا کہ اس قوم میں جتنا جوہر تھا وہ نکل آیا ہے۔ اب جو باقی ہے اس کی کوئی افادیت نہیں اس کے مٹ جانے ہی میں خیر ہے۔فرمایا :
 "اور انہوں نے ایک خلق کثیر کو گمراہ کر ڈالا۔ اور اب تو ان گمراہی میں ہی اضافہ کر ۔"
         اسی مرحلے میں جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی قوم فرعون کے لیے بد دعا کی تھی  جو سورہ یونس میں مذکور ہیں ۔" اے ہمارے رب ! ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں پر پٹیاں باندھ دے کہ اب وہ درد ناک عذاب دیکھ ہی کر ایمان لائیں۔"
       حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا بالکل صحیح وقت پر، ایک صحیح مقصد کے لیے تھی اس وجہ سے پہلا فقرہ زبان سے نکلتے ہی پوری دعا قبول ہوگئی۔ اس وجہ سے اس کو دعا کے پہلے ہی فقرے کے بعد رکھ دیا۔ اس قسم کی تضمین کی متعدد مثالیں قرآن مجید میں  ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ ان کو پانی اور آگ دونوں کے عذاب سے سابقہ پیش آیا۔ اس دنیا میں وہ پانی میں ڈوبے اور آخرت میں دوزخ کی آگ میں پڑیں گے۔جب ان کو عذاب سے ڈرایا جاتا تو وہ اپنی قوت و جمعیت اور اپنے مزعومہ دیوتائوں کے بل پر اکڑتے لیکن جب اللہ کا عذاب آدھمکا تو اس کے مقابل میں کوئی بھی ان کی مدد کرنے والا نہ تھا ۔
        ارشاد فرمایا :
" وہ اپنے گناہوں کی پاداش ہی میں غرق کیے گئے پانی میں، پھر داخل کیے گئے آگ میں، پس اللہ کے مقابل میں انہوں نے کسی کو اپنا مدد گار نہیں پایا"
        قبولیت دعا  کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا پھر شروع ہوگئی۔ چنانچہ (قال نوح رب) کے الفاظ نے اس کو تضمین سے ممتاز کردیا۔التباس سے بچنے کے لیے ان کا اعادہ ضروری ہوا ۔
   "اور نوح ؑ نے دعا کی، اے میرے رب ! تو زمین پر ان کافروں میں سے ایک متنفس کو بھی نہ چھوڑ ۔اگر تو ان کو چھوڑے رکھے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ناکاروں اور کافروں ہی کو جنم دیں گے ۔"
        یہ امر یہاں واضح رہے کہ اگرچہ ہر بچہ فطرۃ اللہ پر ہوتا ہے لیکن اس کے بنائو یابگاڑ میں سب سے زیادہ دخل والدین کی تربیت اور معاشرہ و ماحول کے اثرات کا ہوتا ہے۔ ماحول اچھا ہوگا تو امید ہے کہ بچہ ایمان و اسلام پر پروان چڑھے گا اور اگر ماحول کا فرانہ ہوا تو جیسا کہ ( ابواہ یھودانہ وینصرانہ) والی حدیث سے واضح ہے بچہ بھی ماحول ے رنگ ہی میں رنگ جائے گا۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) نے اپنے معاشرہ کو اچھی طرح پھٹک کے دیکھ لیا تھا کہ اس میں ایمان اور نیکی کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے اس وجہ سے انہوں نے فرمایا کہ یہ لوگ اب صرف ناکاروں اور کافروں ہی کو جہنم دیں گے۔ ان کی کو کھ سے اب کوئی مومن و مسلم جنم لینے والا نہیں ہے ۔
       آخر میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے لیے اپنے والدین کے لیے اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان کے ساتھ  ان کے گھر میں پناہ گیرہوئیے اور تمام مومنین و مومنات کے لیے مغفرت کی دعا مانگی اور ان لوگوں کی تباہی پر یہ دعا ختم کی جنہوں نے شرک و کفر پر اصرار  کرکے اپنے لیے اس تباہی کی دعوت دی۔فرمایا :

"اے میرے رب ! میری مغفرت فرما، میرے ماں باپ کی مغفرت فرما اور جو میرے گھر میں مومن ہو کر داخل ہوں ان کی مغفرت فرما اور تمام مومنین و مومنات کی مغفرت فرما اور کافروں کی ہلاکت ہی میں اضافہ کر !"