مطالعہ ارض القرآن کی ضرورت اور اہمیت

مطالعہ  ارض قرآن کی ضرورت اور اہمیت
آج مسلمانوں کا وطن تمام دنیا ہے تاہم مولد اسلام ، موطن رسالت ، مہبط قرآن دنیا کا صرف ایک ہی گوشہ ہے یعنی" عرب" جس کو مادی زرخیزی کی محرومی نے گو " بن کھیتی کی زمین " (وادی غیر ذی زرع ) کا خطاب دیا ہے ۔ لیکن جس کی روحانی سیر حاصلی کی فروانی کا یہ عالم ہے کہ آج دنیا میں جہاں بھی روحانی کھیتی کا کوئی سرسبز قطعہ موجود ہے اسی کشت زاد الہی کے آخری کسان کی تخم ریزی و آب سیری کا نتیجہ ہے۔

اس مہبط وحی قرآنی اور موطن اول اسلام کی تقدیس اس بوڑھے پیغمبر (ابراہیم ؑ ) کے نام سے ہے جس نے اپنے جوان بیٹے (اسماعیل ؑ) کے خون سے اس " بن کھیتی کی زمین " کو سیراب کرنا چاہا ، جس کی سیرابی گردن کے خون سے مقدر نہ تھی ، بلکہ دل کے خون سے تھی ، جب دل کا خون اس پر برسا تو یہ شور و بے حاصل قطعہ حسب پیشین گوئی سابق لہلہا اٹھا ۔

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا (٢٨) مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الإنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (٢٩) (الفتح )

وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے ۔محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں ۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں ۔ اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے ۔(یہ ترجمہ تفیہم القرآن سے لیاگیاہے )

اس زمین کے اکثر حصہ کی مادی شوری و بے حاصلی ، حکمت الہی کا مقتضا تھی کہ سلاطین عالم کے دست حرص و ہوس سے اس ارض مقدس کی عصمت مصون رہے اور دست انسانی کے تمدن و صنعت کی سیاہی سے اس کی لوح، سادہ پاک اور فطری رہے تاکہ خود فطرۃ اللہ کا قلم صرف اپنے حروف و خطوط سے اس کی گلکاری کر سکے ، اور خدا کی فطرت کا خزانہ جو اس کھنڈر میں دفن تھا پیغمبر مذہب فطری کے وجود تک محفوظ رہے ۔

قرآن مجید میں لفظ "عرب" ملک عرب کے لیے کہیں نہیں بولا گیا ہے ، حضرت اسماعیل کی سکونت کے ذکر میں " واد غیر ذی زرع "وادی ناقابل کاشت کہا گیا ہے اکثر لوگ اس نام کو عرب کی حالت طبعی کا بیان سمجھتے ہیں ، حقیقت میں یہ لفظ" عرب" کا لفظی ترجمہ ہے چونکہ اس عہد میں اس غیر آباد ملک کا کوئی نام نہ تھا اس لیے خود لفظ غیر آباد ملک اس کا نام پڑ گیا توراۃ میں بھی اسماعیل کا مسکن "مدبار "بتایا گیا ہے جس کے معنی بیابان اور غیر آباد قطعہ کے ہیں اور جو باکل عرب کا ترجمہ اور" وادی غیر ذی زرع" کے مرادف ہے۔

سرزمین قرآن(عرب) کی تاریخ جس قدر بعد القرآن یعنی اسلام کے بعد روشن ہے اسی قدر قبل القرآن یعنی اسلام سے پہلے تاریک ہے قرآن مجید نے بر سبیل عبرت اور اظہار واقعہ ملک عرب کے متعدد اقوام و اشخاص و انبیاء کے حالات مجملا بیان کئے ہیں لیکن عرب کی قوم تصنیف و تالیف سے آشنا نہ تھی اس لئے ان اقوام، اشخاص اور اقطاع ملک کے تاریخی، سیاسی ،قومی، مذہبی اور جغرافی حالات کے بیان و تفصیل کی بنیاد مسلمان مصنفین نے صرف احتیاطا نہ زبانی روایات پر رکھی ہے لیکن اہل پورپ ان کے مقابل یونانی و رومانی سیاحوں اور جغرافیہ نویسوں کے تحریری بیانات اور عرب کے آثار قدیمہ اور نقوش و کتبات پیش کر تے ہیں جو تنہا زبانی روایات سے ظاہر ہے کہ کہیں صحیح تر ماخذ ہیں ، اس بناء پر انہوں نے عرب قبل قرآن کی تاریخ کے متعلق باکل نیا عالم پیدا کردیا ہے جو ان کی نظر سے قرآن مجید کے بیان اور عر ب کے زبانی روایات نے عرب کی جو تصویر کھینچی ہے اس سے مختلف ہے اوور اس لئے ان کو اس میدان میں اعتراضات کا بڑا جولان گاہ نظر آتا ہے ۔

جرمن ، فرنچ ، اٹالین اور انگلش مستشرقین نے" تاریخ عرب قبل اسلام " پر محققانہ کتابیں لکھیں ، یونانی و رومانی تصنیفات سے جو عرب قبل اسلام کے حالات سے پر ہیں ، انتخاب و خلاصہ کیا ، قرآن مجید نے جن اقوام و بلاد کا ذکر کیا ہے ، ان کھنڈروں کا مشاہدہ کیا ان کے کتبات کو حل کیا ، اور ان سے عجیب و غریب نتائج مستنبط کئے ۔

تاہم وہ مسلمان نہیں یہودی یا عیسائی ہیں ، انہوں نے نہایت بے دردی سے قرآن کے فوائد کو پامال کیا ہے بعض متعصب مستشرقین نے ان معلومات کو غلط طور سے قرآن کی مخالفت میں استعمال کیا ہے ۔ اٹھارھویں صدی کے وسط میں ریونڈ فارسڑر (FORSTER) نے عرب کا تاریخی جغرافیہ (HISTORICAL GEGRAPHY OF ARAB) لکھا جس میں اس نے اپنی جہالت کے عجیب و غریب نمونے پیش کئے جن کو پڑھ کر کبھی ہنسی اور کبھی رونا آتا ہے لیکن کیا کیجئے کہ ہماری غفلت سے وہ قرآن کی صداقت تاریخی کا معیار ہے بعض پادری قرآن کے تاریخی اغلاط کو پیش کر تے ہیں لیکن ان کو پیش کر تے وقت افسوس ہے کہ تورات جس کو وہ معیار صحت سمجھتے ہیں بھول جا تے ہیں ۔

نولدیکی(NOLDEKE) نے عمالقا و عاد کی تحقیق میں ایک رسالہ لکھاہے جس میں ثابت کیا ہے کہ یہ غیر تاریخی قومیں ہیں ۔ و لکن (A.WLKEN) اور روبرٹس اسمتھ (ROBERTS,SMITH) عر ب کےادعا ئے نسب کا انکار کر تے ہیں ، عرب کےبعضااثری اکتشافات کی بناپر یورپ کےبعض سبک مغز مصنفین جرات کےساتھ کہتے ہیں کہ " قرآن کے پہلے کا عرب قرآن کے بعد کے عرب سے ہزار درجہ بہتر تھا"۔ لیکن سینٹ ہیپلیر ایک فرنچ مستشرق نے نہایت خوب جواب دیا ہے " کہ اگریہ صحیح ہوتا تو قرآن تمدن و تہذیب کے عام ابتدائی تعلیمات اور کم از کم محرمات نکاح کے بیان کی تکلیف گوارا نہ کرتا "

ان آثار قدیمہ کےاکتشافات نے ادیان عرب قبل اسلام کے معلومات میں نہایت سخت انقلاب پیدا کر دیا ہے ،جن سےاسلام کے مناقب و فضائل کا ایک نیاباب پیدا ہوگیا ہے۔

عہد قدیم میں مخالفین کے اعتراضات کانشانہ اعتقادات تھے لیکن اس عصرجدید میں جب ہمارے مخالفین عقائد اسلام کی مضبوطی کاامتحان کرچکے ہیں انہوں نے یہاں سے ہٹ کر تاریخ و تمدن کے میدان میں مورچے قائم کئے ہیں ۔ جس طرح ایرانی ویہودی مورخین کےمقابلہ میں ابن حنفیہ دینوری ؒ المتوفی 281ھ ،ابن قتیبہ ؒ المتوفی 276ھ اور ابن جریر طبری ؒ المتوفی 310ھ نےاسلام اور قرآن کی تاریخ کی تحقیق و تطبیق میں کوشش کی ، اس زمانہ میں جدید یورپین تاریخ کی اسلام و قرآن سے تطبیق دی جائے۔ اورپورپین تاریخی تحقیقات و اکتشافات کی غلطی کاپردہ چاک کیاجائے اورخود ان ہی کےکارخانوں کے بنے ہوئے ہتھیاروں سے ان کے حملوں کاجواب دیا جائے ۔ (یہ مضمون اختصار کےساتھ علامہ سیدسلیمان ندیؒ کی تاریخ ارض القرآن جلد اول ص 11۔17 سےماخوذ ہے )

بر سبیل مثال مستشرق آرتھر جیفری کی علمی خیانت کا ذکر کیا جانا ضروری ہے اس نے نہایت بے دردی سے قرآن کی حقانیت کو پامال کیا ہے ۔

آرتھر جیفری (انگریزی: Arthur Jeffery) 18 اکتوبر 1892ء کو آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں پیدا ہوا۔ اس کی وفات 2 اگست 1959ء میں کینیڈا میں ہوئی۔ وہ ایک متعصب پروٹسٹنٹ عیسائی تھا۔ شروع میں قاہرہ میں مشرقی علوم کے اسکول میں سامی زبانوں کے استاذ کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ بعد ازاں 1938ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے منسلک ہو گیا ۔

آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد کی کتاب، المصاحف کو اپنی تحقیق سے شائع کیا اور قرآن پر کئی کتابیں لکھیں، جن میں قرآن کے متن و جمع قرآن پر مباحث ہیں۔ اہل علم نے آرتھر کی تحقیق پر کئی اعتراضات کیے ہیں۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ نے اپنی تحقیق میں نشاندہی کی ہے کہ کیسے آرتھر جیفری اپنی طرف سے اصل کتاب میں ابواب کے نام رکھتا ہے اور بعص جگہ الفاط تک شامل کیے ہیں۔

”آرتھر جیفری نے کتاب المصاحف کی تحقیق میں’ نسخہ ظاہریہ‘ کو بنیاد بنایا اور اس کا تقابل ’نسخۃ دار الکتب المصریۃ‘ سے کیاہے۔ آرتھر جیفری کا دعویٰ ہے کہ’نسخۃ دار الکتب المصریۃ‘ کا نسخہ ایک دوسرا نسخہ ہے حالانکہ وہ ’نسخہ ظاہریہ‘ ہی کی ایک نقل ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ دونوں نسخوں میں پہلا صفحہ موجود نہیں ہے۔“

آرتھر جیفری کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں قرآن تحریری شکل میں موجود نہیں تھا۔ اس کا کہنا یہ بھی ہے کہ مستشرقین کی تحقیق کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ آرتھر جیفری نے لکھا ہے کہ اہل مغرب کی تحقیق کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم مسلمانوں کے لیے اپنی زندگی کے آخری حصے میں ایک کتاب (یعنی قرآن) مرتب کر رہے تھے۔ ابوبکر صدیق کے زمانے میں جمع قرآن کے کام کے بارے اس کا خیال یہ ہے کہ یہ ایک ذاتی جمع تھی نہ کہ سرکاری۔ اس کے گمان میں سرکاری سطح پر قرآن کی جمع کا کام عثمان بن عفان کے دور میں شروع ہوا۔ آرتھر جیفری نے اس خیال کا بھی اظہار کیا ہے کہ بعض اسکالرز کی تحقیق کے مطابق زید بن ثابت نے جمع قرآن کا کام صرف عثمان بن عفان کے لیے کیا تھا لیکن چونکہ عثمان کی شخصیت متنازع تھی لہٰذا بعض اصحاب نے جمع قرآن کے کام کی نسبت ابو بکر کی طرف کرنے کے لیے کچھ ایسی روایات وضع کر لیں جن کے مطابق زید بن ثابت کو ابو بکر کے زمانے میں جمع قرآن پر مامور کیا گیا تھا۔

دراصل جیفری قرآن کے تنقیدی نسخے کو اس طرح مرتب کرنا چاہتا تھا کہ ایک صفحے پرکوفی خط میں متن قرآن ہو اس کے سامنے دوسرے صفحے پر تصحیح و تنقیح شدہ حفص روایت ہو اور حواشی (Footnotes) میں قرآن حکیم کی تمام معلوم مختلف قراء توں کو بیان کردیا جائے۔ جیفری اپنی اس خواہش کے مطابق مکمل قرآنی نسخہ لانے میں تو کامیاب نہ ہوسکا مگر مصحف عثمانی کے مقابلm (Rival) دیگر نسخہ جات کو ڈھونڈ نکالنے میں اس نے بڑی عرق ریزی سے کام لیا۔ اور اسلامی علوم کے ورثہ میں سے مختلف قراء توں کی بنا پر ۱۵’بنیادی‘ اور ۱۳ ’ثانوی نسخہ جات کو پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس نے ۱۵ ’بنیادی نسخہ جات‘ کو حضرت عبداللہ بن مسعود،  حضرت ابی بن کعب، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابوموسیٰ اشعری،حضرت انس بن مالک ،حضرت حفصہ، حضرت عمر بن خطاب، حضرت زید بن ثابت،حضرت عبداللہ بن زبیر،حضرت عبد اللہ ابن عمر، حضرت عائشہ،حضرت سالم،حضرت اُم سلمہ، حضرت عبید بن عمیررضی اللہ عنہم کی جانب منسوب کیا ۔

آرتھر جیفری مستشرقین کے اس طبقہ ثانی سے تعلق رکھتا ہے جنہوں نے نوآبادیاتی دور کے بعد زبان و بیان کے اسرار و رموز اور لسانیاتی مباحث کو اپنا موضوع تحقیق بنایا اور انہیں اپنے پیشرو مستشرقین کی طرح افریقہ اور ایشیاء کے مسلم علاقوں میں نو آبادیاتی آقاؤں کے مشیر بننے کا موقع نہ مل سکا۔ اب ایک جست اور آگے لگاتے ہوئے دورِ جدید کے مستشرقین مثلاً برنارڈ لومیس(Bernard Lemis) اور جان ۔او۔ وال(John. O.Voll) علاقائی اور اسلامی ثقافت کے مطالعہ کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ قرآن حکیم کومطالعہ کا میدان بناتے ہوئے جیفری کو اچھی طرح معلوم تھاکہ مسلمانوں کے نزدیک قرآن حکیم کاحقیقی مقام و مرتبہ کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے۔

’’عیسائیت بائبل کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے۔مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام قرآن کے بغیرقطعی طور پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ غالباً اسلامی نظام حیات کے لیے قرآن حکیم کی اسی اہمیت نے جیفری کو اپنی زندگی اس کے مطالعہ و تحقیق میں کھپانے پر آمادہ کیا۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ’’قرآن نبیﷺ کی تصنیف ہے اور اس کے حرف آغاز سے حرف آخر تک قرآن پر محمدﷺ کی مہرصاف طور پر جھلکتی ہے۔‘‘ جیفری نے منتخب قرآنی سورتوں کا خود ساختہ نئی ترتیب نزولی کے مطابق ترجمہ کیا اور اس نے تقریباً چھ ہزار ایسے مقامات کی نشاندہی کی جو کہ مصحف عثمانی سے مختلف تھے۔ اس نے قراء ات کے یہ سارے اختلاف تفسیر، لغت، ادب اور قراء ت کی کتابوں میں سے جمع کئے۔ اس کام کے لیے ابن ابوداؤد کی کتاب’کتاب المصاحف‘ اس کا بنیادی ماخذ رہی۔

جیفری ایڈن برگ کے بل (Bell)اور ییل(Yale) کے ٹوری (Torry) کے آزادانہ مطالعہ و تحقیق کا بڑا مداح اور مؤید ہے اور وہ ان دونوں کے انتقاد اعلیٰ(Higher Criticism) کے اُصولوں کا قرآن پر اطلاق اور ان کے اس نتیجے پر پہنچنے پر بھی رطب اللسان ہے کہ

’’محمدﷺ تحریری مواد جمع کرتے رہے۔ اس کی چھان پھٹک کرتے رہے اور اسے ایک مرتبہ کتاب کی شکل دینے کے لیے اس پرنظرثانی کرتے رہے تاکہ وہ اسے اپنی کتاب کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں(مگر) پیغمبرﷺ اس کتاب کو مرتب اور مکمل شکل میں پیش کرنے سے قبل ہی وفات پاگئے ۔

بل اور ٹوری کی پیروی میں جیفری بزعم خود ان کے انتقاد اعلیٰ کے اُصولوں کا نصوص قرآن پر اطلاق کادعویٰ کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کی نامزد کمیٹی نے سرکاری نسخہ میں قرآن کے نام سے جومواد جمع کیا وہ یقیناً محمدﷺ سے درست طور پر منسوب ہے ماسوائے چند آیات کے جن کی اسناد مشکوک ہیں۔ تاہم کمیٹی نے ایک بہت بڑا مواد جو اس وقت کے اہم علمی مراکز میں پائے جانے والے قرآنی نسخہ جات میں موجود تھا، کو نظر انداز کردیا اور ایسا بہت سارا مواد قرآن میں شامل کردیا اگر محمدﷺکو کتاب کے حتمی شکل دینے کا موقع ملتا تو وہ اس مواد کوشامل نہ کرتے۔

یہ امر دلچسپی سے سے خالی نہیں کہ جیفری مصحف عثمانی میں جس مواد کے شامل کئے یا نہ کئے جانے کا خیال بڑی معصومیت کے ساتھ پیش کرتا ہے اس کی کوئی ایک مثال بھی صحیح اسناد کے ساتھ پیش نہیں کرسکا۔ اختلاف قراء ات پرمبنی روایات کاجو ذخیرہ اس نے (Materials) میں پیش کیا ہے ان روایات کی اسناد خود جیفری کے اعتراف کے مطابق مکمل ہیں اور نہ مستندi جیفری قرآن حکیم کو نبی اکرمﷺ کا کلام ثابت کرتے ہوئے قرآن کے پیرایہ اظہار کو غیر واضح اور غیر معیاری کہتا ہے مگر اس بارے میں وہ اپنے دعویٰ کی صداقت کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کرتا۔


جیفری نے کئی سالوں تک قرآن حکیم کی متعدد قراء توں کے بارے میں مواد اکٹھا کیا۔ پھر قرآن حکیم کا تنقیدی نسخہ تیارکرنے کے لیے ۱۹۲۶ء میں پروفیسر برجسٹراسر (Bergstrasser) جس نے میونخ میں قرآن محل(Quranic Archive) بنایاہوا تھا، کے ساتھ اشتراک کیا۔ برجسٹراسر ۱۹۳۳ء میں راہی ملک عدم ہوا تو جیفری نے قرآن محل کے نئے ڈائریکٹر اور پروفیسر برجسٹراسر کے جانشین ڈاکٹر اوٹو پریکشل(Oto Pretzl) کے ساتھ اشتراک عمل جاری رکھا ’بدقسمتی‘ سے پریکشل دوسری جنگ عظیم کے دوران سباسٹوپل(Sebastopal) کے باہر ہلاک ہوگیا۔ اور اتحادی فوجوں کی بمباری سے سارا قرآن محل جل کر خاکستر ہوگیااور عمارت بھی تباہ و برباد ہوگئی۔ اسی طرح قرآن حکیم کے تنقیدی ایڈیشن کو روبہ عمل لانے کا عظیم منصوبہ شرمندہ تکمیل نہ ہوسکا۔ اس ناکامی پر جیفری اپنی تکلیف اور ذہنی اذیت ان الفاظ میں بیان کرتاہے۔

’’اب یہ امر تقریباً ناممکن ہے کہ ہماری نسل قرآنی متن کاحقیقی تنقیدی نسخہ دیکھ سکے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(حوالہ : اِختلاف قراء ات قرآنیہ اور مستشرقین(آرتھر جیفری کا خصوصی مطالعہ) تحریر :ڈاکٹر محمد اکرم چودھری,مترجم: علی اصغر سلیمی​ )

آرتھر جیفری کی کتابیں:

1-قرآن کریم کی متنی سرگذشت (The Textual History of the Qur'an)
2-قرآن پاک کے صوفیانہ حروف (The Mystic Letters of the Koran)
3-فاتحہ کے مختلف متن (A Variant Text of the Fatiha)
4-سمرقند نسخے کا املا (The Orthography of the Samarqand Codex)
5-قرآن کریم کی متنی سرگذشت کا مواد (Materials for the History of the Text of the Qur'an)
6-قرآن کی غیر ملکی فرہنگ (The Foreign Vocabulary of the Qur'an)
7-اسلام پر ایک ریڈر (A Reader on Islam)

حوالہ جات:

کتاب المصاحف مع تحقیق ڈاکٹر محب الدین واعظ : 463،464

The Textual History of the Qur’an by Arthur Jeffery, 1946
Jeffery's