نزول قرآن سے پہلے دنیا کے حالات پر ایک نظر

 نزول قرآن سے پہلے   دنیا  کے  مذہبی سیاسی اور سماجی حالات  کا جائزہ 

 مذاہب
چھٹی صدی عیسوی میں بد پرستی، شرک  ساری دنیا کا مذہب تھا ۔ قرآن کے الفاظ میں  " ظھر الفساد فی البر و البحر بماکسبت ایدی الناس "  کا منظر پیش کررہی تھی ۔

تمام سامی مذہب یہودیت ، عیسائیت اور ہندومذاہب اور بدھ مت  شر ک اور  نت نئی مذہبی بدعت میں  ایک دوسرے سے بازے لے جانے کی کوشش میں مصروف تھے   ایک اندازے کے مطابق صرف  ہندومذہب میں  33کروڑ دیوی اور دیوتاؤں کی پرستش ہوتی تھی۔(1)

چھٹی صدی عیسوی میں دنیا کے بڑے بڑے مذاہب اور ان کے صحیفے تحریف کا شکار ہوئے  ان کی  اصل صورت مسخ کئ گئی۔ حتی کہ  تالمود سے بھی شہادت ملتی ہے کہ بت پرستی میں یہود کو حد درجہ کشش تھی،  دیوتاوں اور بتوں کی پرستش  اسرائلی عوام کے دلوں میں   گھر کر چکی تھی ۔(2)

عیسائیت رومیوں کی بت پرستی کا شکار ہوگئی تھی ان میں عقیدہ تثلیث پوری زندگی میں سرایت کر چکا تھا  پوری مسیحی دنیا میں اس کو سرکاری عقیدہ کی حیثیت حاصل تھی  ایک سکالر عسائیت پر تبصرہ کرتے ہوئے  لکھتا ہے " تقریبا سب ہی کچھ  جو بت پرستی میں تھا ، عسائیت کے نام پر چلتا رہا  ۔۔۔انہوں نےغیر شعوری طور پر بہت آسانی سے کسی شہید کو پرانے دیوتاؤں کے اوصاف سے متصف کرکے کسی مقامی مجسمہ کو اس کا نام دے دیا۔۔۔۔۔400ء تک پہنچتے پہنچتے سورج دیوتا کے قدیم تیوہار نے مسیح کے یوم پیدائش کی شکل اختیار کرلی  " (3)
چھٹی صدی کے آغاز میں شام ،  عراق کے عیسائیوں اور مصر کے عیسائیوں کے درمیان  اس بات پر جنگ ہورہی تھی کہ حضرت مسیح کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کی تکفیر میں مشغول تھے ۔ (4)

باز نطینیوں کے سماجی زندگی میں زبر دست تضاد تھا ، ایک طرف  مذہبی رجحان   ان کے  ذہنوں میں سوار تھا ، ترک دنیا، رہبانیت ملک کے طول وعرض میں پھیلی  ہوئی تھی عام شہری بھی مذہبی مباحث میں گہری دلچسپی لیتا تھا ، ان  کے روزمرہ کی زندگی پر روحانیت اورباطنیت کی گہری چھاپ تھی لیکن یہی لوگ ہر قسم کے کھیل تماشوں کے غیر معمولی شائق بھی تھے سرکس کے میدان میں اسی ہزار تماش بینوں کے بیٹھنے کی گنجائش  تھی  ، رتھوں کے دوڑ کے مقابلے ہوا کرتے تھے عوام کو "نیلے " اور "ہرے " دو گروہوں میں بانٹ دیا گیا تھا  ان کے کھیل اکثر خونریز ہوا کرتے تھے ۔ (5)

مجوسی (ایران کے پارسی ) قدیم زمانہ عناصر اربعہ کی عبادت کرتے تھے جس میں سے سب سے پڑا عنصر آگ تھا انہوں نے جگہ جگہ آتش کدے تعمیر کی تھیں آگ اور سورج کی پرستش کے سوا ہر عقیدہ مٹ چکا تھا  اس کے لیے سخت احکام مقرر تھے جن پر ہر شہری کے لیے عمل درآمد لازمی تھا ۔ سرکاری ملازم کے لے لازم تھا کہ وہ دن میں چار بار سورج کی پوجا کریں چاند کی ، آگ کی اور پانی کی پوجا اس کے علاوہ تھی سونے جاگنے ، نہانے  کھانے پینے چھینکنے ، حجامت بنوانے ،  ناخن ترشوانے ، قضاء حاجت اور شمع جلانے غرض  ہر کام کے لیے دعائیں تھیں سرکاری حکم تھا کہ آگ کسی وقت بھی نہ بجھنے پائے اور آگ پانی ایک دوسرے سے نہ ملیں ، دھات کو زنگ نہ لگے ، اس لیے کہ معدنیات بھی ان کی نگاہ میں مقدس تھیں ۔ (6) ایران کا آخری بادشاہ یزد گرد نے عیسائیوں کو جنہوں نے عیسائیت سے توبہ کر لی تھی پابند کیا تھا کہ وہ اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے سورج کی پوجا کریں ۔  (7)

ایران میں مذہب زرتشت ساتویں صدی قبل مسیح میں ظاہر ہوا  اس کے پیرو کار  دو خداؤں کے قائل تھے ایک روشنی یا خیر کا خدا جس کو وہ آہورمزدایا یرزداں کہتے تھے دوسرا ظلمت یا شر کا خدا جس کا نام اہرمن تھا ، ان دونون خداؤں میں ہمیشہ کش مکش جاررہتی ۔ (8)
چھٹی صدی عیسوی میں بودھ مذہب صرف ہندوستان نہیں بلکہ پورے وسط ایشیاء میں پھیلاہواتھا  جہاں اس کے قافلہ کا پڑاؤ ہوتا وہاں  بدھ کی مورتی نصب کی جاتی اور ساتھ ہی ایک معبد تیار ہو جاتا  ۔ یہ مذہب انکار خدا سے شروع ہوا تھا لیکن اس کے پیروکاروں نے  بدھ کو ہی سب سے بڑا خدا بنا لیا ، حتی کہ  بدھ خود  بد پرستی کا  ہم نام ہوگیا۔ (9)

عرب بھی ان سے کم نہ تھے یہ عہد قدیم میں دین ابراہم کے پیروکا ر تھے جو دین توحید تھا ، بعد میں توحید کی  جگہ شرک نے لے  لی ۔ ہر قبیلہ اور علاقہ کا الگ الگ خدا تھا بلکہ ہر گھر صنم خانہ تھا۔ (10)   بیت اللہ (کعبہ ) کے اندر اور اس کے صحن میں تین سو ساٹھ بت تھے(11) اس کے علاوہ ارواح پرستی جیسے ان کے عقیدہ کے مطابق فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں ، جن بھی خدا کے شریک ہیں ، ان کی عبادت کرنا ضروری سمجھتے تھے ۔ (12)
عرب اختلاف عقائد اور کثرت مذاہب کی بنا پر گویا کائنات مذہبی کا عالم اصغر تھا اور تعجب نہیں  کہ قرآن کے نزول کے لئے عرب کی سرزمین کا انتخاب منجملہ اور وجوہ کے ایک اس بناء پر بھی ہو کہ یہاں بحث و مناظرہ کے لئے اس کو ہر قسم کے مخاطب اور ہر مذہب کے وکیل مل جائیں گے ۔  نزول قرآن کے وقت عرب میں جو مستند مذاہب رائج تھے و ہ حسب ذیل تھے ، یہودیت ، نصرانیت ، مجوسیت(یہ ایران کاقدیم مذہب ہے جس کا بانی زرتشت بتا یا جا تا  ہے ) ، صائبیت  (محققین کا خیال ہے کہ  یہ بابل کا قدیم مذہب  ہے ارواح پرستی اور ستارہ پرستی کا اس میں رواج تھا  حضرت ابراہیم کی بعثت اس مذہب کی اصلاح کے لے ہوئی تھی )، حنفیت (قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ حنفیت حضرت ابراہیم ؑ کے مذہب کا نام  تھا ) (تفصیل دیکھیں : علامہ سید سلیمان ندوی ؒ  کی  کتاب تاریخ ارض القرآن ص 447۔527)

بازنطینی سلطنت :
مشرق کے رومن شہنشاہی میں جس کا آغاز 395ء میں ہوا اور اختتام 1453ء  میں جب قسطنطنیہ پر عثمانی ترکوں کا قبضہ ہوگیا ۔ اس کا ذکر تاریخ میں  بازنطینی سلطنت کے نام سے آتاہے  عرب اس کو روم کہتے تھے ، چھٹی صدی عیسوی میں اس کے ماتحت یونان ، بلقان ، ایشیائے کوچک ، سیریا اور فلسطین ، پورا بحر روم کا علاقہ اور کل شمالی افریقہ  کے ممالک  شامل  تھے  ۔ اس کا پایۂ تخت قسطنطنیہ تھا ۔
  عوام پر  ظلم و ستم اور ٹیکسوں کے بھر مار کے خلاف 533ء کے ایک فساد میں قسطنطنیہ کے تیس ہزار آدمی قتل کئے گئے ۔  ان کا سب سے بڑا مشغلہ کسی نہ کسی ذریعہ سے مال حاصل کرنا پھر عیش و عشرت میں اس کو خرچ کرنا تھا ۔ دوسری طرف سماج میں عوام کی ایک بڑی تعداد کی  زندگی پر  رہبانیت اور ترک دنیا  کی چھاپ لگی ہوئی  تھی ۔  عوام میں افلاس کا یہ حال تھا کہ شامی اپنا قرض ادا کرنے کیے لیے اپنے بچوں کو فروخت کر دیتے ۔ (13)

ساسانی سلطنت :
اس کی بنیاد 224ء  میں ایران کا بادشاہ  ارد شیر نے  رکھی اس کی قلم رو میں اسیریہ، خوزستان، میڈیا ، فارس ، آذربائیجان ، طبرستان ، سرخس ، مرجا ن ، کرمان، مرو، بلخ ، سغد، سیستان ، ہرات ، خراسان ، خوارزم ، عراق اور یمن سب شامل تھے۔  المدائن اس کا پایہ تخت تھا یہ پانچویں صدی  اور اس کے بعد کے زمانے میں  اپنے تمدن و ثقافت ترقی، تعیش، اسراف و تبذیر کے آخری نقطہ پر تھا ۔ (14)

عوام سخت مفلوک الحال اور مصیبت زدہ تھے مختلف قسم  کے ٹیکسوں نے ان کی زندگی کو بوجھل کردیا تھا ، وہ زندگی سے تنگ آکر خانقاہوں اور معبدوں میں پناہ لے تھے یا  مختلف جنگوں میں حقیر ایندھن کی طرح کام آتے ۔
 اس کا اندازہ اس  واقعہ سے ہوگا جب مسلمانوں نے  ایران کا آخری بادشاہ یزد گرد کو شکست دی تو  اپنے دارالحکومت  مدائن سے   فرار ہوا۔   اس کے ساتھ ایک ہزار باورچی ایک ہزار مغنی ، ایک ہزار چیتوں کے منتظم اور ایک ہزار شکروں کی دیکھ کرنے والے موجود تھے۔(15)
 ملک کی تمام دولت اور وسائل بادشاہوں اور ان  کے تعلق داروں کی ملکیت سمجھے جاتے تھے ، بادشاہ اپنے کو عام انسانوں سے بالا تر سمجھتے تھے اور خود کو  آسمانی خداؤں کی نسل میں شامل کرتے تھے  ۔خس-+رو دوم پرویز اپنے نام کے ساتھ درج ذیل القاب لکھتا تھا :
" خداؤں میں انسان فانی اور انسانوں میں خدائے لاثانی ، اس کے نام کا بول بالا، آفتاب کے ساتھ طلوع کرنے والا ، شب کی آنکھوں کا اجالا" (16)

ایرانی سلاطین خود کو مافوق البشر سمجھے جاتے تھے اگر ایرانی باشاہ فصد کھلواتا یا کوئی دوا استعمال کر تا تو دارالسلطنت میں اعلان کر دیا جاتا کہ آج بادشاہ سلامت نے فصد کھلوائی ہے یا دوا استعمال کی ہے ، اس اعلان کے بعد شہر میں نہ کوئی پیشہ ور اپنے کام میں  مشغول ہوتا اور نہ کوئی سرکاری دربار ی آدمی کوئی کام کر سکتا  ۔۔۔۔۔اگر اس کوچھینک آتی تو کسی کو دعائیہ کلمات کہنے کا حق نہ تھا ، وہ خود اگر دعا کر تا  تو  کوئی آمین بھی نہیں کہہ سکتا تھا ، اگر وہ اپنے کسی وزیر یا امیر کے گھر مہمان  ہوتا تو  اس دن سے  اس خاندان  کی ایک  نئی  زندگی اور  نئی جنتری شروع ہوتی   اور خطوط میں نئی تاریخ ڈالی جاتی،  ایک معینہ مد ت کے لئے ٹیکس معاف کر دئیے جا تے  اس کو  مختلف قسم کے اعزازات معافیوں او ر ترقیوں سے نواز ا جا تا صرف اس بناپر کہ بادشاہ سلامت نے اپنی تشریف آوری سے اس کو سرفراز کیا ۔
ایران میں پانچویں صدی کے آغاز میں "مزدک" ظاہر ہوا اس نے مال دولت اور عورت میں مکمل مساوات کی دعوت دی اس دعوت عام کے نتیجے میں ایرانی سماج کی حالت یہ ہوگئی کہ لوگ جس کے گھر میں چاہتے  گھس جاتے اور اس کے مال اور عورتوں پر تصرف کرتا۔(17)

ایران میں مانی کی تعلیمات کا اثر اب بھی باقی تھا ، مانی دنیا سے شر و فساد کا مادہ ختم کرنے کے لیے تجرد کی زندگی کا داعی تھا یہ مذہب زر تشتی کے ریفارمر کی حیثیت سے سامنے آیا تھا  اس کی رائی  ہے کہ  نور و ظلمت کا امتزاج بجائے خود ایک برائی ہے اس سے انسان کو چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے اس نے فنائیت سے ہم آغوش ہونے اور ظلمت پر غلبہ حاصل کرنے لیے نسل انسانی کے سلسلہ کو ختم کرنے  کے لے ازدواجی زندگی سے کنارہ کشی  کی دعوت دی۔ (18)

ہندوستان کی سیاسی حالت :
مورخین کی رائی ہے کہ ہندوستان کا  مذہبی اخلاقی اور معاشرتی طورپر سب سے تاریک دورچھٹی صدی عیسوی ہے مندروں میں بے حیائی کو عبادت کا رنگ دے دیا گیا تھا ستی جیسی انسانی تاریخ کی  بدترین رسم انگریزی اقتدار کے بعد ہی ختم ہوئی ۔(19)
ایک ظالمانہ طبقاتی نظام  نے ہندوستان  کے باشندوں کو چار طبقوں میں تقسیم کر دیا تھا :
1۔ مذہب کے اجارہ دار اور پروہت جن کو برہمن کہا جاتاتھا ۔
2۔ چھتری یعنی سپاہی اور فوج میں بھر تی ہونے والے افراد ۔
3۔ زراعت پیشہ اور تجارت کرنے والے یعنی ویش ۔
4۔ نوکر چاکر اور خدمت گار جن کو  اچھوت کہا جاتا تھا ۔
 یہی طبقہ آخری طبقہ   ہندو سماج  میں  سب بڑی تعداد میں   ہونے کے باوجود  سب سے زیادہ  پستی  میں  تھا ۔ اس  کے متعلق یہ تصور تھا کہ وہ خالق کائنات کے پاؤں سے پیدا  ہوا ہے ۔ اس لے اس کا کام باقی تینوں طبقوں کی خدمت کرنا  ہے ۔
ہندو سماج میں  سارے حقوق برہمنوں کے لیے تھے  ان کے سارے گنا ہ معاف تھے ، ان پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا تھا ، کوئی سزائے موت نہیں دی جاسکتی تھی  دوسری طرف  اچھوت نہ کما سکتے تھے نہ مال دولت جمع کرسکتے تھے نہ کسی برہمن کےقریب بیٹھ سکتے تھے نہ اس کے بدن کو چھو سکتے تھے ، مقدس کتابوں کا پڑھنا سننا  ان پر حرام تھا ۔(20)
اہل حرفہ و صنعت  جن کو وہ چنڈال کہتے تھے شہر سے باہر رہتے تھے غروب آفتاب کے بعد  ان کا شہر میں رہنا  جرم تھا طلوع آفتاب کے بعد وہ شہر میں داخل ہو سکتے تھے ۔ یہ  جابرانہ نظام قطب الدین ایبک (1206ء۔ 1210ء ) کے عہد میں ختم ہو ا  ان کے دور میں شہروں میں امراء کے محلات اور فقراء کے جھوپڑے ایک ساتھ تھے ۔

 جزیرۃ العرب  
قرآن مجید ، کتب حدیث اور اشعار عرب   کے مطابق عرب کے بعض لوگ حد درجہ بد اخلاق ہو چکے تھے شراب جوئے کے دیوانےتھے  ، قافلوں کو لوٹنا ، بے گناہوں کو تہ تیغ کر نا  عام با ت تھی ، بعض شقی  القلب لوگ غیرت کے نام سے  اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے اور کچھ  لوگ اپنی  اولاد کو افلاس کے ڈر سے قتل کر ڈالتے تھے ۔ عورتیں سامان کی طرح ورثہ  میں تقسیم ہوتی ، کوئی مرد  جتنی عورتوں سے چاہتا شادی کر سکتا تھا۔ قبائلی ،خاندانی اور نسلی عصبیت کی بنا پر اکثر باہم جنگ جاری رہتی معمولی واقعہ پر طویل جنگوں کا سلسلہ چلتا جو چالیس چالیس سال تک جاری رہتی ۔

یورپ  
مشہور مورخ رابرٹ بریفالٹ لکھتے ہیں کہ  پانچویں صدی سے لے کر دسویں صدی تک یورپ پر گہری تاریکی چھائی  ہوئی تھی ۔۔۔اس دور کی وحشیت و بر بریت زمانہ قدیم سے کئی درجہ بڑھی ہوئی تھی ۔اس کی مثال سڑ ی ہوئی لاش کی مانند تھی ۔۔۔ اٹلی ، فرانس جیسے ملکوں میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا  ۔ (21)
جہالت، ناخواندگی ، جسمانی گندگی،  اوہام و خرافات کی وجہ سے ان کی زندگی  وحشیوں  کی طرح  تھی،   ان کے پادری اور مذہبی لوگ جسم کو اذیت پہونچاتے ،  انسانی معاشرہ سے  فرار ہوکر جنگلوں اور بیابان میں  جنوروں کے ساتھ رہنا پسند کرتے ۔اور مذہبی لوگوں میں  یہ بحث جاری تھی کہ عورت انسان ہے یا حیوان ؟ اس کے اندر ابدی روح ہے یا نہیں ؟ اس کو ملکیت اور خرید و فروخت کا حق حاصل ہے یا نہیں ؟

--------------------------------------

(1)  (آر۔ سی دت کی کتاب ANCENT INDIA ج 3 ص 276 ،  نیز دیکھئے : L.S.S, O'MALLEY POPULAR HINDUISM THE RELIGION OF THE MASSES,(CAMBRIDGE, 1935, P 6.P)
(2)      (جیویش انسائیکلو پیڈیا ، جلد 12 ص 568، 569)
(3)     (the history of christianity in the light of modern knowleedge :p 407)
(4)     (ALFRED J. BUTLER کی کتاب " ARABS"  ONQUEST OF EGYPT AND THE LAST TEHIRTY YEARS OF ROMAN DOMINION" (OXFORD 1902) P . 44-45)
(5)     (T.WALTER WALL BANK AND ALASTAIR.M. TAYLOR . CIVILAZATION PAST AND PRESENT , 1954, P. 261)
(6)       (آرتھر کرسٹین سین : "ایران بعہد ساسانیان" ص اردو ترجمہ پروفیسر محمد اقبال اورنٹیل کالج لاہور 155)
(7)      ("یران بعہد ساسانیان " ص 186)
(8)      (ایران بعہد ساسانیان ص 183)
(9)      (ہندوستانی تمدن اردو ، ایشور اٹوپا ص 209 اور DSCOVERY OF INDIA  پنڈت جوہر لال نہرو ص 201-202)
نیز دیکھئے بودھ مذہب پر مقالہ " انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا"
(10)     (تفصیل دیکھیں : کتاب الاصنام ، ابن الکلبی ص 33)
(11)    (صحیح بخاری : کتاب المغازی ، باب فتح مکہ )
(12)    (کتاب الاصنام ص 44)
(13)    ( انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ، مقالہ : " JUSTINIAN)
(14)    ( تفصیل دیکھیں :  پروفیسر آر تھر کرسٹن سین کی کتاب " ایران بعہد ساسانیان  " )
(15)    (تاریخ ایران ،  شاہین مکاریوس عربی طبع ص 98)
(16)    ("ایران بعہد ساسان " ص 339)
(17)    (ایران بعہد ساسانیان ص 535۔536، مزید 543))
(18)    ( تفصیل دیکھیں : ایران بعہد ساسانیان ص 233- 269)
(19)    ( آر ، سی ، دت : ( ANCENT INDIA )ج 3  نیز  ستیارتھ پر کاش ، ص 344، دیانندسر سوتی )
(20)    ( اس ظالمانہ قانون کی تفصیل دیکھیں  : منوشاستر کے باب : 1۔2۔8۔9۔10۔11)
(21)    THE MAKING OF HUMANITY P 1164