مولانا مودودیؒ کاسفرنامہ ارض القرآن ۔ ایک مطالعہ


محمد رضی الاسلام ندوی

ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ



اردو ادب میں سفرناموں کو ایک مخصوص صنف کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ سفرنامے دنیا کے تمام ممالک کااحاطہ کرتے ہیں اور ان کا اندازِ تالیف بھی مختلف ہے۔ کچھ تاثراتی ہیں تو کچھ معلوماتی، کچھ میں تاریخی معلومات پر زور دیا گیا ہے تو کچھ ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت کو نمایاں کرتے ہیں جہاں کا سفر کیا گیا تھا۔ جزیرۃالعرب کے سفرنامے زیادہ تر حج و عمرہ کے حوالے سے منظر عام پر آئے ہیں، کچھ میں دیگرمقاصد کارفرما رہے ہیں۔ ان سفرناموں میں سے کچھ کیفیاتی و تاثراتی طرز کے ہیں، مثلاً ممتاز مفتی کا سفرنامہ ’لبیک‘، شورش کاشمیری کا سفرنامہ ’شب جائے کہ من بودم‘ اور عاصی کرنالی کا سفرنامہ ’اپنی منزل کی طرف‘ وغیرہ۔ کچھ سفرناموں میں علمی اور ادبی پہلو نمایاں ہے، جیسے مولانا عبدالماجد دریابادیؒ کا سفرنامہ ’سفر حجاز‘، مولانا ماہرالقادریؒ کا سفرنامہ ’کاروانِ حجاز‘ اور مولانا غلام رسول مہرؒ کا ’سفرنامہ حجاز‘ وغیرہ، جب کہ کچھ سفرناموں میں جزیرۃالعرب کے اہم آثار و مقامات پر مستند تاریخی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔



تاریخی پہلو سے جزیرۃالعرب کے سفرناموں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں تین سفرنامے خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ ایک ہے ڈاکٹر ایچ-بی خان کا سفرنامہ بہ عنوان ’کراچی سے گنبدِ خضراء تک‘۔ یہ کتاب محض ایک سفرنامہ نہیں، بلکہ مکہ معظّمہ ، مدینہ منوّرہ اور حکومت سعودی عرب پر ایک تاریخی دستاویز ہے۔ اس میں مصنف نے تاریخ کے بہت سے بکھرے ہوئے اوراق اور مواد کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح یہ کتاب حجاج کرام اور زائرین کی رہ نمائی کے ساتھ محققین اور تاریخ کے طلبہ کے لیے بالخصوص اور عام مسلمانوں کے لیے بالعموم دل چسپی اورتاریخی معلومات کا باعث ہے۔ دوسرا ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کا سفرنامہ نجد و حجاز بہ عنوان ’دشت ِامکان‘ ہے۔ موصوفہ نے اس کتاب میں اپنے سفرہائے حج و عمرہ کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ اس سفرنامہ میں ادب اور تاریخ کا خوب صورت امتزاج پایا جاتا ہے، تاریخی واقعات کے سلسلے میں قرآن کریم کے علاوہ تاریخ کی مستند کتابوں کا بھی سہارا لیا گیا ہے۔ اس موضوع پر تیسرا اور اہم سفرنامہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ’سفرنامۂ ارض القرآن‘ ہے، جسے جناب محمد عاصم نے مرتب کیا ہے۔ یہ حج و عمرہ کا سفرنامہ نہیں، بلکہ آثار و مقاماتِ قرآنی کی تحقیق و زیارت کے لیے کیے گئے ایک سفر کی روداد ہے۔ یہ سفرنامہ علومِ قرآنی کے شائقین اور محققین کے لیے ایک گنجینہ علم ہے۔ اس میں سرزمینِ انبیاء کی تفصیل، اقوامِ قدیمہ کی سرگزشت اور ان کے مساکن کے آثار وغیرہ کا تعارف کرایا گیا ہے۔ دینی اور تاریخی لٹریچر میں یہ ایک اہم اور مفید اضافہ ہے۔


آئندہ سطور میں آثار و مقاماتِ قرآنی کی تحقیق کے پہلو سے اسی موخر الذکر سفرنامہ کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جارہا ہے۔ 


سفرنامۂ ارض القرآن – اجمالی تعارف 


مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳-۱۹۷۹ئ) کا شمار بیسویں صدی عیسوی کے عظیم مفکرین میں ہوتا ہے۔ فکر اسلامی کے احیاء کا جو غیر معمولی کارنامہ انھوں نے انجام دیا ہے اس کے نمایاں اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے گئے ہیں۔ ان کا علمی کام اسلامی علوم کے تمام میدانوں کو محیط ہے۔ خاص طور سے ان کی تفسیر ’تفہیم القرآن‘ قرآنیات کے میدان میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ بہ قول مولانا صدرالدین اصلاحیؒ (م۱۹۹۸ئ) ’’یہ تفسیر موجودہ دور کے ذہن کو قرآن حکیم اور اس کے بیان کردہ حقائق اور تعلیمات کے بارے میں جس طرح یقین و اطمینان کی ٹھنڈک سے بہرہ ور کرتی ہے وہ اسی کا حصہ ہے۔ یہ پڑھنے والے کے اندر صرف قرآن کا فہم ہی نہیں پیدا کرتی ہے، بلکہ طالبانِ حق کو ایمان کی تازگی اورعمل کی سرگرمی بھی عطا کرتی ہے اور ان کے اندر داعیانہ جذبات کو حرکت میں لاتی ہے‘‘۔ (تلخیص تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ص۳) 


تفہیم القرآن کی تالیف کا آغاز مولانا مودودی ؒنے محرم ۱۳۶۱ھ/ فروری ۱۹۴۲ء سے کیا اور یہ کام تیس سال کے بعد ربیع الثانی ۱۳۹۲ھ/ جون ۱۹۷۲ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ دورانِ تالیف انھوں نے محسوس کیا کہ جن مقامات و آثار کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے یا رسول اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے ان کا تعلق ہے انھیں بہ چشم خود دیکھ لینا بہتر ہوگا۔ اس کے لیے انھوں نے ۱۹۵۹ء کے اواخر اور ۱۹۶۰ء کے اوائل میں یہ سفر کیا تھا۔ دورانِ سفر مولانا نے اپنے اس مقصد کا تذکرہ بار بار کیا۔ سعودی عرب میں ڈاکٹر عبداللہ عباس ندویؒ نے ،جو اس وقت سعودی ریڈیو جدّہ میں اردو پروگرام کے ذمہ دار تھے، ان سے ایک انٹرویو میں مقصدِ سفر سے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: 


’’میرے اس سفر کی غایت عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ یہ ہے کہ ان مقامات اور علاقوں کا بہ چشم خود مشاہدہ کروں جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے، یا جن سے قرآن مجید کے نزول یا سیرت نبویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا خاص تعلق ہے۔ اس سلسلے میں مکۂ معظمہ اور طائف کے بعد اب میں بدر، مدینہ منورہ، خیبر، مدائن صالح، تبوک اور مدین کا قصد رکھتا ہوں۔ پھر اردن میں خاص خاص مقامات کو دیکھتا ہوا دمشق جاؤںگا اور وہاں سے مصر اور جزیرۂ سینا کا رخ کروں گا‘‘۔ 


(سفرنامہ ارض القرآن ، ص۱۷۳) 


بعد میں اردو میں عمّان ریڈیو کے نمائندہ کے ایک سوال کے جواب میں بھی مولانا نے یہی وضاحت کی ۔ انھوں نے فرمایا: 


’’اس سفر سے میرا مقصد انبیاء علیہم السلام کے آثار اور ان تاریخی مقامات کو دیکھنا اور سمجھنا ہے جن کا ذکر قرآن پاک یا سیرت کی کتابوں میں ہوا ہے۔ میں ان دنوں تفہیم القرآن کے نام سے قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھ رہا ہوں۔ اس تفسیر کی تیاری کے دوران میں نے یہ محسوس کیا کہ قرآن کے بہت سے مقامات کو آدمی اس وقت تک اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک ان علاقوں اور مقامات کو دیکھ نہ لے جن کا قرآن پاک میں ذکر ہوا ہے۔ اس وجہ سے میں نے یہ سفر کیا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص۲۵۷) 


اس سفر میں جماعت اسلامی پاکستان کی دو شخصیات نے مولانا مودودی کی مصاحبت کی تھی۔ ایک چودھری غلام محمد (۱۹۱۶-۱۹۷۰ئ) اور دوسرے جناب محمد عاصم (م۱۹۸۹ئ) ۔ چودھری صاحب تقسیم ہند سے قبل جماعت اسلامی کے رکن بنے تھے۔ تشکیل پاکستان کے بعد عرصہ تک کراچی کے امیر رہے۔ ۱۹۵۷ء میں دوماہ کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر بھی مقرر ہوئے۔ انھوں نے جماعت کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا مودودی کے ذاتی نمائندے کی حیثیت سے متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ وہ جماعت کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے (ان کے حالات کے لیے دیکھیے چودھری غلام محمد- ایک شخص، ایک تحریک، ازمحمد موسیٰ بھٹو، حیدرآباد ، پاکستان، ۱۹۸۳ئ) جناب محمد عاصم تقریباً دو دہائیوں تک رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ سے منسلک رہے ہیں۔ وہاںکی ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد لاہور میں مقیم ہوئے اور مختلف علمی و تصنیفی کام انجام دیے۔ مولانا مسعود عالم ندویؒ (م۱۹۵۵ئ) کی وفات کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کے شعبۂ عربی ’دارالعروبۃ‘ کے ناظم رہے۔ ان کی تصانیف میں ’فقہ السنۃ‘ معروف و متداول ہے۔ 


سفر کی پوری روداد بعد میں جناب محمد عاصم نے مرتب کی، جو ’سفرنامۂ ارض القرآن‘ کے نام سے پہلے پاکستان (۱۹۷۲ئ) اور بعد میں ہندوستان (۱۹۸۶ئ) سے شائع ہوئی۔ 


سفر کی اجمالی روداد 


مولانامودودیؒ نے پہلی مرتبہ ۱۹۵۶ء میں سرزمین عرب کا سفر کیا تھا اور حج و زیارت سے مشرف ہوئے تھے۔ اس موقع پر ان کا ارادہ حرمین کے آثار کو بھی دیکھنے کا تھا، لیکن حج کی مصروفیات اور دیگر اسباب سے ان کی یہ دلی خواہش اس وقت پوری نہ ہوسکی۔ سفر سے واپسی پر انھوں نے طے کیاکہ آئندہ کبھی سردی کے موسم میں عمرہ کیا جائے اور سرزمین عرب کے تمام تاریخی آثار و مقامات کا بھی تفصیل سے مطالعہ کیا جائے، لیکن صحت کی خرابی اور مشاغل کی زیادتی نے تین سال تک انھیں اس کی مہلت نہ دی۔ پاکستان میں مارشل لا نافذ ہونے اور وہاں کی سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد ہونے کے بعد جب انھیں اپنی تحریکی کاموں سے یک گونہ فرصت ملی تو اپنے علمی کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی فکر ان کے دماغ پر مسلّط رہنے لگی۔ چناںچہ انھوں نے سرزمین عرب کے سفر کا وسیع نقشہ بنایا اور طے کیا کہ نہ صرف حرمین کی زیارت کی جائے، بلکہ نجد، حجاز، شرقِ اردن، فلسطین، شام اور مصر کے بھی ان تمام آثار و تاریخی مقامات کو دیکھا جائے، جن کا ذکر قرآن مجید اور سیرتِ پاک کی کتابوں میں آیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سعودی عرب، اردن اور متحدہ عرب جمہوریہ (مصر و شام) کے سفراء سے رابطہ قائم کیا۔ سعودی سفیر الاستاذ محمد الحمد الشبیلی نے نہ صرف ویزا دینے کا وعدہ کیا، بلکہ یقین دلایا کہ سعودی حکومت مولانا کو اپنے ملک میں داخل ہونے کے بعد سفر کے سلسلے میں ہرطرح کی سہولت بہم پہنچائے گی۔ دیگر ممالک کے سفراء سے بھی مثبت جوابات موصول ہوئے تو مولانا نے سفر کا پروگرام فائنل کردیا۔ 


یہ سفر ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۵۹ء کو لاہور سے شروع ہوا اور ۶؍ فروری ۱۹۶۰ء کو وہیں واپسی پر اختتام کو پہنچا۔ لاہور سے کراچی تک کا سفر بذریعہ ٹرین ہوا، وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے مسقط، دبئی، قطر اور بحرین ہوتے ہوئے سعودی عرب میں داخلہ ہوا (مولانا مودودی بحرین سے ہوائی جہاز کے ذریعے ظہران پہنچ گئے تھے، جناب محمد عاصم بحرین سے بحری جہاز کے ذریعے سعودی عرب کے ساحلی شہر خُبَر اور وہاں سے ظہران پہنچے۔ چودھری غلام محمد صاحب پہلے ہی اپنے بعض احباب سے ملنے کویت چلے گئے تھے، وہ وہاں سے ظہران پہنچ کر قافلے میں شامل ہوگئے) سعودی عرب میں مولانا نے پچاس دن (۱۰؍نومبر تا ۳۰؍ دسمبر ۱۹۵۹ئ) گزارنے اور وہاں حرمین شریفین اور ان کے اطراف کے علاوہ طائف اور عقبہ کے آثار کا بھی تفصیلی مشاہدہ کیا۔ وہاں سے وہ اردن تشریف لے گئے جہاں بارہ دن (۳۰؍ دسمبر ۱۹۵۹ء تا ۱۱؍ جنوری ۱۹۶۰ئ) قیام کرکے اردن و فلسطین کے تاریخی مقامات کی زیارت کی۔ آخر میں شام و مصر (۱۱-۲۸؍ جنوری ۱۹۶۰ئ) ہوتے ہوئے (جہاں جزیرہ نمائے سینا کے تاریخی آثار دیکھے) کویت میں ایک ہفتہ (۲۸؍ جنوری تا ۴؍ فروری ۱۹۶۰ئ) گزار کر واپس آگئے۔ 


سفر نامہ کی اہمیت 


یہ سفرنامہ متعدد پہلوؤں سے بڑی اہمیت کا حامل ہے: 


۱- اس سے نصف صدی قبل کے جزیرۃ العرب کے جغرافیائی اور تمدنی حالات کا علم ہوتا ہے۔ مولانا سعودی عرب کے مختلف شہروں میں جہاں جہاں بھی تشریف لے گئے ان میں سے بیش تر مقامات تک پہنچنے کے لیے انھوں نے موٹرگاڑی کا استعمال کیا۔ اس ضمن میں راستوں کی دشواری، سڑکوں کی ناہمواری، پہاڑوں کی کثرت اور پتھریلی زمین کا تذکرہ بار بار ملتا ہے۔ سعودی حکومت کے ذریعے سڑکوں کی درستگی اور راستوں کی ہمواری کے لیے جو کام انجام پارہے تھے ان پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً مولانا نے مکّہ سے طائف جانے کے لیے جو راستہ اختیار کیا اس پر مکہ سے طائف کا فاصلہ ۱۲۰ کلو میٹر (۷۵ میل) تھا۔ اس پر جعرانہ، شرائع، زیمہ، السیل الکبیر اور السیل الصغیر نامی مقامات پڑتے تھے۔ ان دنوں ایک دوسرا راستہ تیار کیا جارہا تھا جو طائف سے وادی ہدّا، کرا، شداد، عرفات سے ہوتا ہوا مکہ معظمہ جاتا تھا۔ کرا نامی بلند پہاڑ پر دونوں طرف سڑک بن چکی تھی، صرف اس پہاڑ کو کاٹ کر راستہ ملانے کا کام باقی تھا۔ مرتب سفر نامہ نے لکھا ہے کہ یہ کام مکمل ہوجانے کے بعد طائف اور مکہ مکرمہ کے درمیان مسافت صرف ۶۵ کلو میٹر (۴۰ میل) رہ جائے گی۔ (ص۱۶۰) 


بعض مقامات پر مولانا ٹرین کے ذریعے تشریف لے گئے۔ ترکوں کے ذریعے بچھائی گئی ریلوے لائن اس زمانے میں کہیں کہیں کام کررہی تھی۔ مدینہ سے عقبہ کا سفر انھوں نے موٹر سے کیا، لیکن مرتب سفر نامہ نے لکھا ہے کہ پورے راستے ریلوے رائن بچھی ہوئی ہے، جو جگہ جگہ سے کٹ گئی ہے، کہیں کہیں انجن اور ڈبے کھڑے ہوئے ہیں، اسٹیشنوں کی عمارتیں مضبوط ہیں، لیکن ان سے کھڑکیاں اور دروازے اکھاڑ لیے گئے ہیں۔ بعض اسٹیشن سرکاری دفاتر کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ وغیرہ 


ان دنوں حرم مکّی کی توسیع ہورہی تھی،اس سفر نامہ میں اس کا بھی تذکرہ ملتا ہے: 


’’توسیع و تعمیر کا یہ کام بڑے زوروں پر جاری ہے۔ اس وقت صرف ڈیڑھ طرف سے عمارت مکمل ہوئی ہے۔ ساری عمارت دومنزلہ بنائی جارہی ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو بھی دوراہا اور دوہرا بنایا جارہا ہے، بلکہ اسے تو مکمل کرلیا گیا ہے۔ جس وسیع پیمانے پر یہ تعمیر ہورہی ہے اسے دیکھ کر لوگوں کا اندازہ ہے کہ اس کی تکمیل میں کم از کم بارہ تیرہ سال اور لگیں گے، لیکن مکمل ہوجانے کے بعد حرم کی وسعت پہلے سے ڈھائی گنا ہوجائے گی اور اس میں بیک وقت پانچ لاکھ آدمی نماز پڑھ سکیں گے اور اس کا شمار دنیا کی چند بڑی عمارتوں میں ہوگا۔ اندازہ یہ ہے کہ پوری عمارت پر دو ارب روپیہ کے قریب سرمایہ صرف ہوجائے گا ۔ یہ ساری تعمیر شاہ سعود اپنے ذاتی مصارف پر کرارہے ہیں۔ شاہ سعود کے کارناموں میں اس کا شمار یقیناً سرِفہرست ہے‘‘۔(ص۱۵۱-۱۵۲) 


۲- اس سفرنامہ سے اس وقت کے سعودی حکم رانوں اور مختلف سطح کے اصحابِ مناصب کی قدر افزائی، علم دوستی اور اعزاز و اکرام کا اظہار ہوتا ہے۔ مولانا مودودی نے آثار و مقامات قرآنی کے مشاہدہ کے لیے عرب ممالک کے سفر کا ارادہ ان ممالک کے سفراء کے سامنے ظاہر کیا تو سب سے پہلے سعودی سفیر نے اپنے ملک کی جانب سے اس سلسلے میں ہرممکن سہولت بہم پہنچانے کا وعدہ کیا۔ شیخ عبدالعزیز بن بازؒکے ذریعے شاہ سعود بن عبدالعزیز نے مولانا کے اس سفر میں دل چسپی لی اور اپنے ذاتی مصارف کی مد سے انھیں سفر خرچ کے لیے تین ہزار سعودی ریال بھیجے (ص۱۱۷) قائم مقام وزیر اعظم امیر مساعد نے وزارت داخلہ اوروزارت تعلیم کو تار دیے۔ پھر مولانا جس شہر میں بھی پہنچے وہاں کے حکومتی اہل کاروں نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انھیں سرکاری مہمان کی حیثیت دی۔ 


۳- اس سے عربوں کی سماجی زندگی، رسم و رواج اور عادات و اطوار کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ مثلاً ایک جگہ مرتب سفر نامہ نے لکھا ہے: 


’’خبر کے بازاروں میں بہت ہی کم بے پردہ عورتیں گھومتی نظر آئیں، بے پردہ عورتیں یا تو امریکن تھیں یا کچھ شامی، فلسطینی، مصری اور لبنانی۔ یہ سب امر بالمعروف والنہی عن المنکر کے ڈنڈے کا اثر ہے کہ کوئی مقامی عورت پردہ کے بغیر بازار میں نہیں نکل سکتی‘‘۔ (ص۶۵) 


عربوں کی مہمان نوازی کا تذکرہ بار بار آیا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہو: 


’’عربوں کے یہاں یہ بڑی معیوب بات سمجھی جاتی ہے کہ مہمانوں کے سامنے کھانا ان کی تعداد کے مطابق رکھا جائے، بلکہ مہمانوں کی عزت افزائی اس میں ہے کہ کھانا ان کی تعداد سے بہت زیادہ ہو، تاکہ وہ جسے چاہیں اپنے ساتھ شامل کرسکیں‘‘۔ (ص۳۲) 


’’در اصل عربوں کے ہاں مہمان کے استقبال اور تواضع کے جو اصول ہیں ان میں ’القادم یزار‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے(یعنی یہ کہ پہلے مہمان سے اس کی جائے قیام پر جاکر ملاقات کی جائے اور پھر اسے اپنے ہاں بلایا جائے)‘‘۔ (ص۷۷) 


’’اہل نجد کی عادت ہے کہ وہ اپنے مہمان اور ملنے والے سے بار بار کیف حالکم کہتے ہیں اور عساکم طیّبین، عساکم بخیر کے اس قدر پے در پے سوالات کرتے ہیں کہ ایک غیر عرب حیران رہ جاتا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ بات بات پر وہ اپنے مخاطب کو دعائیں دیتے ہیں‘‘۔ (ص۷۸) 


سعودی عرب میں امن وامان کے حوالے سے یہ واقعہ دل چسپی سے سناجائے گا کہ ظہران میں مولانا مودودی کے میزبان ان کے استقبال کے لیے ایرپورٹ گئے تو اپنا مکان کھلا چھوڑ گئے تھے۔ ان سے وجہ دریافت کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ ہم تو بسا اوقات اسی طرح مکان کھلا چھوڑجاتے ہیں۔ ایک دوسرے صاحب نے بتایا کہ ہم تو کئی کئی روز کے لیے اسی طرح مکان کھلا چھوڑکر چلے جاتے ہیں اور واپسی پر ہرچیز محفوظ پاتے ہیں۔ اس حوالے سے مرتب سفرنامہ نے لکھا ہے: 


’’سعودی حکومت میں امن وامان کے بہت سے واقعات تو ہم نے پہلے بھی سنے تھے اور گزشتہ سفر میں اس کیفیت کا مشاہدہ کیا تھا، لیکن یہ دو واقعات ہمارے لیے حد درجہ حیرت انگیز تھے۔ سوچیے، آخر کس چیز کی برکت ہے؟ ہمارے ہاں بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اگر یہاں شرعی نظام قائم ہوگیا تو لوگوں کے ہاتھ کٹنا شروع ہوجائیں گے۔ جی ہاں ،چند ہاتھ کٹیں گے، لیکن سارا ملک چین پائے گا‘‘۔ (ص۵۳) 


۴- اِس سفرنامہ سے اُس زمانے کے سعودی عرب کے علماء و فضلائ، دانش وروں اور نوجوان طبقہ کے علمی و فکری ارتقاء اور مختلف مسائل پر ان کے اندازِ فکر کا اظہار ہوتا ہے اور واضح ہوتا ہے کہ ان میں اسلام سے وابستگی کس حد تک پائی جاتی تھی ؟اور جدید نظریات سے وہ کس حد تک متاثر ہورہے تھے؟ مولانا مودودی جہاں بھی تشریف لے گئے وہاں کے اصحاب علم ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے اور ان کی دعوت پر مولانا بھی ان کے یہاں تشریف لے گئے۔ مفتی اکبر شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ ؒ، الشیخ عمر بن حسن آل الشیخ ؒصدر محکمہ الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، الشیخ عبدالعزیز بن بازؒ، الشیخ عبداللطیف بن ابراہیم آل الشیخ ؒنگران اعلیٰ کلیۃ الشریعۃ ریاض، الاستاذ عبدالحکیم عابدین ؒجنرل سکریٹری الاخوان المسلمون مصر، الشیخ منّاع القطانؒ پروفیسر کلیۃ الشریعۃ ریاض، الشیخ حمد الجاسرؒ (عرب جغرافیہ پر اتھارٹی) الاستاد محمد احمد باشمیلؒ (مشہور ادیب) اور دیگر بہت سے علماء و ادباء سے ملاقات کا تذکرہ اس سفرنامہ میں ملتا ہے۔ مختلف شہروں میں ان کے اعزاز میں چھوٹے بڑے جلسے اور علمی مجلسیں منعقد ہوئیں ،جن میں خاص طور سے نوجوانوں نے مولانا سے بھرپور استفادہ کیا ۔ اس زمانے میں عرب قومیت کا فتنہ عرب ممالک میں سراٹھارہا تھا۔ مولانا کو جب بھی موقع ملا اس پر تنقید کی اور اس کے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ 


۵- اس سفر کا اصل مقصد آثار و مقامات قرآنی کا بہ راہ راست مشاہدہ تھا۔ یہ چیز اس سفرنامہ کو جزیرۃالعرب کے دیگر سفرناموں سے ممتاز کرتی ہے۔ آئندہ سطورمیں اس پہلو پر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔ 


آثار و مقاماتِ قرآنی کی تحقیق 


مولانا مودودی نے سب سے پہلے سعودی عرب کے آثار کا مشاہدہ کیا۔ان میں بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے آثار کا تفصیلی مشاہدہ و معاینہ کیا۔ مکہ کے آثار میں دار ارقم، جبل ابوقبیس، شعب ابی طالب، مسجد الرایۃ، مسجد الجن، قبرستانِ المعلّی، طریقِ کدا، جبل نور، منٰی، عرفات، مسجد خیف، جمرات، وادیٔ محسّر، مزدلفہ، مسجد النمرۃ، وادیٔ مرنہ، مسجد محصّب، مسجد الکبش، جبل ثور وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ مدینہ منورہ میں قبا، مسجد الجمعۃ، دارکلثوم بن ہدم، دار سعد بن خیثمہ، بئر اریس، بئر خاتم، بئر رومہ، مسجد القبلتین، وادیٔ عقیق، خندق، جبل سلع، مسجد ذوباب، مسجد فتح، مساجد خمسہ، کہف بنی حرام ، مسجد شمس، حصن کعب بن اشرف، مسجد الغمامۃ، بئر بضاعۃ، سقیفۂ بنی ساعدہ، دار ابی ایوب انصاری وغیرہ کا مشاہدہ کیا۔ ان کے علاوہ وادیٔ حنیفہ (مسیلمہ کذّاب کا وطن) حنین، حدیبیہ، بدر وغیرہ کا بھی مشاہدہ کیا۔شمالی جزیرۃ العرب میں مدائن صالح ، خیبر، تیما، تبوک اور مغایر شعیبؑ (مدین) وغیرہ کے تاریخی مقامات مشاہدہ میں آئے۔ مرتب سفرنامہ نے ان تمام مقامات کے مشاہدہ کی تفصیل درج کی ہے اور ساتھ ہی ان کی تاریخی اہمیت، قرآن کریم میں ان کا تذکرہ اور سیرت نبوی سے ان کے تعلق کی بھی وضاحت کی ہے۔ انھوں نے جابہ جا لکھا ہے کہ ان مقامات کی اہمیت اور ان کی صحیح نوعیت ان کو دیکھ کر سمجھ میں آتی ہے۔ ان تمام مقامات کا تذکرہ اور ان کے مشاہدہ کی تفصیل طول کا باعث ہوگی۔ بہ طور مثال چند مقامات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ 


سیرت نبوی میں غارثور کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ہجرت مدینہ کے موقع پر آںحضرت ﷺ نے اسی میں تین دن پناہ لی تھی۔ اس کے مشاہدہ کاتذکرہ مرتب سفر نامہ نے یوں کیا ہے: 


’’جب سڑک کے نشانات کے مطابق مکہ معظمہ ۹ میل رہ گیا تو جبل ثور ہمارے بالکل سامنے تھا ۔اگرچہ اس کا فاصلہ سڑک سے آدھ میل ہوگا۔ جبل نور کی نسبت اس کی اونچائی زیادہ ہے اور اس پر چڑھنے کا راستہ بھی بہت خطرناک ہے۔ غارثور اس کے عین اوپر ہے ۔۔۔غار ثور وہ جگہ ہے جہاں ہجرت کے موقع پر کفّار مکہ سے چھپنے کے لیے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پناہ لی تھی اور جس کا قرآن کریم کی اس آیت میں ذکر ہوا ہے۔ إِذْ أَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ ثَانِیَ اثْنَیْْنِ إِذْ ہُمَا فِیْ الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّہَ مَعَنَا (التوبۃ:۴۰) یہ غار مکہ معظمہ کے جنوب میں واقع ہے۔ قدیم زمانہ میں مکہ سے یمن کو جو راستہ جاتا تھا وہ اس کے قریب سے گزرتا تھا۔ اس لیے تعجب ہوا کہ نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ تو مدینہ منورہ جانا چاہتے تھے اور مدینہ منورہ مکہ کے شمال میں ہے اس لیے وہ جنوب کی طرف کیسے آئے اور پھر خاص طور پر اس غار کا انتخاب انھوں نے کیوں کر کیا۔ جب کہ پہاڑ کی اس قدر بلندی پر اس کا پتا لگانا بھی کوئی آسان کام نہ تھا۔ اور پھر اردگرد کے بہت سے پہاڑ ایسے ہیں جو اپنی شکل و صورت اوراونچائی میں اس پہاڑ سے مشابہ ہیں۔ ممکن ہے یہ انتخاب نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعہ کیا ہو، یا یہ کہ آپؐ کو یا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مکہ معظمہ کے اردگرد پہاڑوں سے اتنی واقفیت ہو کہ آپؐ اس غار کو پہلے سے جانتے ہوں۔ بہرحال چھپنے کے لیے اس غار کے انتخاب میں مصلحت یہ تھی کہ کفارمکہ آںحضرت ﷺ کو مدینہ کے راستے میں تلاش کرتے رہے، حالاںکہ حضور اس کے برعکس سمت میں یمن کے راستے پر ایک ایسے غار میں چھپے ہوئے تھے جس کی طرف ان کا گمان بھی نہ جاسکتا تھا‘‘۔ (ص۱۴۷-۱۴۹) 


مسجد القبلتین کا تذکرہ اس انداز سے کیا ہے: 


’’اس کے بعد ہم مسجد القبلتین (دو قبلوں والی مسجد) آئے، جو مدینہ سے شمال مغرب ہی میں ڈیڑھ دو میل کے فاصلہ پر العقاب نامی ایک بستی میں واقع ہے۔ یہ در اصل قبیلۂ بنوسلمہ کی مسجد تھی۔ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ اس مسجد میں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے ظہر کی نماز ادا فرمارہے تھے کہ تحویل قبلہ کی وحی نازل ہوئی اور حضورؐ نے نماز ہی میں بیت المقدس کی طرف سے منہ پھیر کر بیت اللہ کی جانب رخ کرلیا۔ اسی لیے اس مسجد کو مسجد القبلتین کہا جاتا ہے۔ گزشتہ سفر میں جب ہم نے اس مسجد کی زیارت کی تھی تو یہاں دو محرابیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا اور دوسری کا بیت اللہ کی طرف۔ اب کی مرتبہ ہم نے دیکھا کہ مسجد کی ساری عمارت نئی اور نہایت پختہ و شان دار بنادی گئی ہے اور اس میں دو کے بجائے ایک محراب بنادی گئی ہے۔ بیت المقدس کے رخ والی محراب توڑ دی گئی ہے‘‘۔ (ص۲۰۹) 


میدان بدر کا معاینہ کرتے ہوئے اس کی تاریخی اہمیت پر یوں روشنی ڈالی ہے: 


’’مفرق کا فاصلہ مدینہ سے ۱۵۵ کیلو میٹر اور جدہ سے ۲۶۹ کیلو میٹر ہے۔ جدّہ سے آتے ہوئے یہاں سے پہاڑی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ۷ کیلو میٹر اور چلنے کے بعد ہم ۲-۱ ۱۱ بجے کے قریب بدر پہنچ گئے ۔۔۔ یہ مقام بدر کی بستی سے دو کیلو میٹر (۴-۱ میل) پر مغرب کی طرف واقعہ ہے۔ وہاں ایک چھوٹے سے احاطہ میں ۱۳ شہدائے بدر مدفون ہیں اور قریب ہی اہل بدر کا موجودہ قبرستان بھی ہے۔ اس جگہ پہنچنے کے لیے مدینہ منورہ کی طرف سے آنے والے کو دائیں جانب اور جدہ سے آنے والے کو بائیں طرف مڑناہوتاہے۔یہ مقام یعنی بدر مفرق سے ۷ کیلو میٹر ہے۔ جہاں سے ینبع سے آنے والی سڑک مدینہ سے آنے والی سڑک سے مل جاتی ہے۔ کفار کا قافلہ جو شام سے آرہا تھا وہ اسی کے راستے سے مکہ کی طرف چلا گیا اور کفار کا لشکر آگے بڑھ کر بدر کے مقام پر اس لیے ٹھہر گیا کہ مسلمانوں کا راستہ روک سکے۔ شہداء کی قبریں جس جگہ واقع ہیں وہاں اب کوئی نشان نہیں ہے۔ صرف ایک حوض ہے جس کے چاروں طرف منڈیر بنی ہوئی ہے۔ جو مقامی آدمی ہمارے ساتھ تھا اس کی مدد سے ہم نے العدوۃ القصوی، العدوۃ الدنیا اور کفار اور صحابۂ کرام کے آنے کی سمتوں کو سمجھنے کی کوشش کی‘‘۔ (ص۱۹۴-۱۹۵) 


مدینہ سے قریب جبل احد کا مشاہدہ کرنے کے لیے گئے تو اس کے بارے میں اپنے تاثرات اور اس کی تاریخی اہمیت کاان الفاظ میں اظہار کیا: 


’’یہ وہ پہاڑ ہے جس کے متعلق نبی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ہذا جبل یحبنا ونحبّہ (یہ وہ پہاڑ ہے جوہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں) اسی پہاڑ کے دامن میں ۳ھ میں مشہور غزوۂ احد پیش آیاتھا، جس میں نبی ﷺ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے اور بہت سے دوسرے صحابۂ کرام کے علاوہ حضور کے چچا حضرت حمزہؓ کی شہادت واقع ہوئی۔ مدینہ سے اس کا فاصلہ شمال کی جانب تین چار میل ہے اور یہ مشرق سے مغرب کو ۴ میل کے قریب لمبا ہے۔ جب تک انسان اس کے قریب نہیں پہنچ جاتا، دور سے دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ متعدد پہاڑی سلسلوں کا مجموعہ ہے۔ اس تک پہنچنے سے پہلے دائیں طرف ایک چھوٹی سی پہاڑی آتی ہے، جس کا قدیم نام جبل عینین ہے، لیکن اب یہ جبل الرماۃ (تیر اندازوں کا پہاڑ) کے نام سے مشہور ہے۔ اسی پہاڑی پر غزوۂ احد کے موقع پر نبی ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو متعین فرمایا تھا اور انھیں حکم دیا تھا کہ وہ ہرگز اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، خواہ جنگ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو یا شکست ۔ جبل الرماۃ اور جبل احد کے درمیان وہ وادی ہے جسے وادی قناۃ کہا جاتا ہے اور جس میں غزوۂ احد واقع ہوا۔ مسلمانوں کا لشکر ان دونوں پہاڑوں کے درمیان مشرق کی طرف تھا اور کفار مکہ کا لشکر جبل احد کے گرد چکّر کاٹ کر مغرب کی طرف سے آیا تھا۔ اس وادی میں جبل الرماۃ سے کچھ مغرب کو ایک چاردیواری کے اندر وہ صحابۂ کرام مدفون ہیں جو غزوۂ احد میں شہید ہوئے تھے‘‘۔ (ص۲۰۱- ۲۰۲) 


خیبر ایک سر سبز علاقہ ہے۔عہد نبوی میں یہاں یہودی قبیلے آباد تھے۔رسول اللہﷺ نے جب مدینہ کے یہودی قبائل: بنو قینقاع اور بنو نظیر کو ان کی سرکشی اور بد عہدی کی بنا پر جلا وطن کر دیا تھا تو وہ بھی یہاں آکر آباد ہو گئے تھے۔ ۷ھ میں غزوہ خیبر پیش آیا تھا۔ مرتب سفر نامہ نے خیبر کی زیارت کی روداد ان الفاظ میں بیان کی ہے: 


’’ہم خیبر کے آثار دیکھنے نکلے۔سب سے پہلے ہم ایک کھلے میدان میں پہنچے،جو خیبر کی آبادی سے ملحق شمال کی طرف واقع ہے۔اس میدان سے متعلق ہمیں بتایا گیا کہ یہ وہی میدان ہے جہاں لشکر اسلام اور یہودیوں کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔اس میدان کے شمال میں اور البشر نامی ایک چھوٹی سی بستی کے مشرق میں وہ مقام بھی واقع ہے جہاں شہداء کو دفن کیا گیا تھا۔۔۔۔خیبر میں چلنے پھرنے اور وہاں کے لوگوں کے بتانے سے معلوم ہوا کہ خیبر میں کل سات وادیاں ہیں،جو سب ایک دوسرے سے الگ الگ واقع ہیںاور ان میں سے ہر وادی دوسری سے بڑھ کر سر سبز و شاداب ہے۔جگہ جگہ ہمیں پانی کے چشمے اور کنویں نظر آئے۔لوگوں نے بتایا کہ ان وادیوں میں چشموں کی تعدادسو کے قریب ہے اور ان میں کھجور کے علاوہ انگور،انار،ترنج،لیموں اور انجیر کے درخت بھی کثرت سے موجود ہیں۔۔۔۔خیبر کو دیکھنے کے بعد سب سے اہم بات جس کا ہمیں اندازہ ہوا وہ یہ کہ عہد نبوی کے بہت سے غزوات کو انسان اس وقت تک ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ جاکر ان کے مواقع کو بہ چشم خود نہ دیکھ لے۔یہودیوں نے یہاں الگ الگ سات قلعے کیوں تیار کر رکھے تھے؟ اورنبی ﷺ اور صحابہ کرام کو ان کے فتح کرنے میں سخت دشواری کیوں پیش آئی تھی؟اس کی وجہ وہاں جاکر آسانی سے معلوم ہو جاتی ہے‘‘ [ص:230-232] سیرت نبوی میں سفر تبوک کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ رومیوں نے مسلمانوں کے خلاف بھاری لشکر جمع کرلیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی تو آپؐ نے موسم کی سختی اور راستہ کی دشواری کے باوجود یہ سفر کیا۔راستے کی دشواریوں کا تذکرہ مرتب سفر نامہ نے ان الفاظ میں کیا ہے: 


’’مدینہ سے مدائن صالح تک جس راستے سے ہم گزرے یہ قریب قریب وہی راستہ ہے جس سے رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تھے۔موٹر میں اور وہ بھی سردی کے موسم میں سفر کرنے کے باوجود یہ راستہ جس قدر کٹھن اور دشوار گزار ہے اس کے پیش نظر ہم راستے بھر یہی سوچتے اور اس موضوع پر گفتگو کرتے رہے کہ اس راستے کو نبی ﷺ نے سخت گرمی کے موسم میں تیس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ کیوں کر طے کیا ہوگا۔یقیناً یہ ایک ایسی آزمائش تھی جس میں کوئی شخص ،جس کے دل میں ذرہ بھر بھی نفاق موجود تھا،اپنا نفاق ظاہر کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا‘‘[ص224-226] آگے میدان تبوک کے بارے میں مرتب سفرنامہ نے لکھا ہے: 


’’جب تبوک صرف پچاس کیلو میٹر رہ گیا تو ایک بہت وسیع اور ہموار میدان شروع ہوا، جسے دیکھ کر یہ وجہ سمجھ میں آگئی کہ رومیوں نے اپنا بھاری لشکر جمع کرنے کے لیے تبوک کو کیوں منتخب کیا تھا؟ واقعی یہ میدان اس قابل تھا کہ یہاں رومیوں کا عظیم لشکر اور اسلامی لشکر کے تیس ہزار آدمی بہ یک وقت جمع ہوسکتے تھے‘‘۔ (ص۲۳۵) 


اس سفر نامہ میں مولانا نے مدائن صالح کی بھی زیارت کی،جو قوم ثمود کا علاقہ تھا اور جہاں حضرت صالح ؑ کی بعثت ہوئی تھی۔مرتب سفر نامہ نے اس کاتذکرہ تفصیل سے کیا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو: 


’’ہم مدائن صالح کے لیے روانہ ہوئے۔جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے ،بلند اور پھٹے ہوئے پہاڑوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہوتی گئی۔بعض پہاڑ اس قدر بلند اور سیدھے کھڑے ہوئے تھے کہ انھیں دیکھ کر خوف آرہا تھا۔بعض پہاڑوں کی شکل مندروں اور قلعوں کی سی تھی۔انہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ شاید قوم ثمود نے ان پر اپنے محلات،قلعے اور مندر بنائے ہوں اور اب وہ زلزلہ کی وجہ سے پھٹ گئے ہوں۔۔۔مدائن صالح کا قدیم نام الحجرآج بھی لوگوں میں معروف ہے اور قرآن مجید اور سیرت کی کتابوں میں اس کا اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے۔یہی وہ جگہ ہے جہاں آج سے چھ ہزار سال پہلے حضرت صالح ؑ کی قوم ثمود آباد تھی۔اسی قوم ثمود کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ وہ پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر اپنے گھر بناتی تھی اور اسے اپنی طاقت اور پائداری پربڑا ناز تھا۔۔۔ 


پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر قوم ثمود نے جو گھر بنائے تھے وہ چاروں طرف بہ کثرت نظر آتے تھے۔درمیان میں ایک وسیع وادی ہے،جس میں اب کوئی آبادی نہیں ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ ثمود کی اصل آبادی اس وادی کے اندر تھی اور پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر جو مکانات انھوں نے بنائے تھے وہ دراصل سامان رکھنے اور مردوں کو دفن کرنے کے لیے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ ان مکانات میں ان کی رہائش بھی تھی۔ہم نے چل پھر کرچند مکانات دیکھے اور ان کے اندر سے بھی اور باہر سے بھی متعدد فوٹو لیے۔ان مکانات کے دروازے باقاعدہ تراشے ہوئے ہیںاوران پربعض جانوروں[گھوڑوں،عقاب وغیرہ] کی تصاویر کندہ ہیں۔ایک مکان کے دروازے کے اوپر عبارت بھی موجود ہے ،جس کا پڑھنا اور سمجھنا بہ ہر حال ہمارے لیے نا ممکن تھا۔بعض مکانات کے اندر الماریاں اور سامان رکھنے کی جگہیں بھی بنی ہوئی ہیں۔چوکھٹ کسی مکان کے دروازے پر نہیں ہے۔ایک بڑے کمرے کے متعلق وہاں کے ایک آدمی نے ،جو ہمارے ساتھ تھا،بتایا کہ یہ ثمود کے باہمی مشورے کی جگہ تھی۔یہ صرف لوگوں کا قیاس ہے،اصل حقیقت لوگوں کو کیسے معلوم ہو سکتی ہے۔ 


ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی ایک پرانا ترکی قلعہ منہدم صورت میں موجود ہے اور اس کے اندر ایک پرانا کنواں ہے جو اب خشک پڑا ہے ۔اس کنویں کے متعلق وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ وہی کنواں ہے جس سے حضرت صالح ؑ کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ممکن ہے ان لوگوں کا بیان صحیح ہو،کیوں کہ وہ کنواں،جس سے حضرت صالح ؑ کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی، نبی ﷺ کے زما نے تک قطعی طور پر موجود تھا۔ تبوک جاتے وقت حضور ﷺ جب الحجر[مدائن صالح] سے گزر رہے تھے توآپ نے صحابہ کرام کو ہدایت فرمائی تھی کہ یہاں کے کسی کنویں سے پانی نہ لیا جائے،سوائے اس ایک کنویں کے جس سے حضرت صالح ؑکی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔حضور کے بعد سے اب تک مسلمان آبادی برابر اس علاقہ میں رہی ہے۔اس لیے اس کنویں کی تعیین کے متعلق مقامی روایت اگر صحیح ہو تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں‘‘[ص223-225] آثار و مقامات قرآنی میں ’ مدین‘ کی خاص اہمیت ہے۔یہاں کے لوگوں کے پاس حضرت شعیبؑ مبعوث کیے گئے تھے۔مولا نا مودودی نے اس کے آثار کابھی مشاہدہ کیا۔اس کی تفصیل مرتب سفر نامہ نے ان الفاظ میں بیان کی ہے: 


’’ ہم تبوک سے مغایر شعیب کے لیے روانہ ہوئے،جو تبوک سے207 کلو میٹر[ 145میل]کے فاصلے پر مغرب کی جانب خلیج عقبہ کے ساحل سے متصل ہے۔۔۔مغایر شعیب وہی جگہ ہے جس کا قدیم نام مدین تھا اور جہاں حضرت شعیبؑ کی قوم آباد تھی۔ اگر چہ حضرت شعیبؑ کی بعثت اس علاقہ کے علاوہ علاقہ تبوک کے لیے بھی تھی اور بہت سے مفسرین نے تبوک ہی کو ایکہ کا علاقہ قرار دیا ہے،جس کے رہنے والوں کا قرآن حکیم میں اسحاب الایکۃ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے،لیکن حضرت شعیبؑ کی دعوت کا مرکز یہی تھا۔ 


مغایر شعیب[یا مدین]ایک سر سبز و شاداب وسیع وادی ہے اور اس کے پہاڑو ںمیں بھی اسی طرح کے مکانات پائے جاتے ہیںجس طرح کے مکانات مدائن صالح میں ہم نے دیکھے تھے۔اس کے قریب دو بہت پرانے کنویں ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں،جن کے متعلق وہاں کے عام لوگوں کا خیال ہے کہ شاید ان ہی میں سے ایک وہ ہو جس پر حضرت موسیٰ ؑ ایک قبطی کو قتل کرنے کے بعد مصر سے پہنچے تھے۔ان دونون کنووں کو وہاں کے لوگ اب ’بیر مدنی‘ کہتے ہیں۔ان کا فاصلہ مغایر شعیب کے آثار سے تقریباً ایک میل اور البدع کی بستی سے ڈیڑھ اور دو میل کے درمیان ہے‘‘[ص240-242] مولانا مودودی نے سعودی عرب کے علاوہ اردن و فلسطین اور مصر کے تاریخی آثار کی بھی زیارت کی تھی۔ 


اردن میں انھوں نے عقبہ (ایلہ یعنی اصحاب السبت کا علاقہ) وادیٔ موسیٰ، بطرا، الکرک، قوم لوط کا علاقہ، مؤتہ، القدس، وادیٔ شعیبؑ ، اریحا، بیت لحم، الخلیل، مقام سیدنا لوطؑ، اصحاب کہف کا غار اور بیت المقدس کے آثار میں مسجد صخرہ، مسجد اقصیٰ، مسجد عمرؓ اور عیسائیوں کے مختلف کنیسوں کا مشاہدہ کیا تھا اور مصر میں وادیٔ سینا، روشن جھاڑی جس میں حضرت موسٰیؑ کو آگ جلتی ہوئی دکھائی دی تھی، وہ درخت جہاں سے اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوا تھا، جبل موسٰی اور مقام سامری وغیرہ کی زیارت کی تھی۔ان مقامات کے مشاہدہ کے احوال کی تفصیل سفرنامہ کے اقتباسات کی صورت میں بیان کرنا طول کا باعث ہوگا، اس لیے اسے قلم انداز کیا جا رہا ہے۔ 


اس سفر نامہ میں فاضل مرتب نے مختلف امور و مسائل پر اپنے جذبات و احساسات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔یہاں صرف ایک معاملہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔سعودی حکم رانوں نے بعض مصالح کے پیش نظر قدیم تاریخی آثار کی حفاظت کا کوئی اہتمام نہیں کیا ہے۔ مرتب نے جا بہ جا اس رویّہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً عہد نبوی میں جس جگہ دار ارقم تھا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے: 


’’دار ارقم کا نصف حصہ نئی تعمیرات کے سلسلے میں اب اس سڑک کے نیچے آ گیا ہے اور بقیہ نصف حصہ قریب کی دوکانوں میں سے ایک دوکان میں شامل کر دیا گیا ہے۔گویا اب دار الارقم نامی کوئی عمارت مکہ معظمہ میں موجود نہیں ہے‘‘(ص۱۳۵) 


پھر سیرت نبوی میں دار ارقم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: 


’’یہ گھر،جس کی تاریخ اسلام میں یہ حیثیت اور اہمیت ہو،اس کا سرے سے نام و نشان مٹ جانا ہمارے لیے انتہائی روحانی اذیت کا باعث ہوا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔کیا کوئی بھی ایسی اسکیم نہیں بن سکتی تھی کہ یہ گھر اپنی جگہ قائم رہتا اور سڑکوں اور دوکانوں کو کسی اور طرح سے تعمیر کر لیا جاتا‘‘(ص۱۳۶) 


آگے مسلم بادشاہوں اور امراء کے ذریعے اس جگہ کی حفاظت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: 


’’تاریخی آثار سے سعودی حکومت کا تغافل ایک ایسی چیز ہے جو عرب کی سیاحت کرنے والے ہر شخص کو بری طرح کھٹکتی ہے۔مشرکانہ افعال کو روکنا بالکل برحق، مگر اسلام کے نہایت قیمتی آثار کو ضائع کرنا کسی طرح درست نہیں ہے‘‘(ص۱۳۷) 


اس سفرنامہ کا مطالعہ کرتے ہوئے بعض مقامات پر قاری یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہتا کہ بعض آثار و مقامات قرآنی کا مشاہدہ کرنے کے معاملے میں تن آسانی اور آرام پسندی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔مثلاً جبل نور(جس میں غار حرا واقع ہے) کے مشاہدہ کے ضمن میں مرتب سفر نامہ نے لکھا ہے: 


’’ جبل نور اس پہاڑ کا نیانام ہے،ورنہ اس کا قدیم نام جبل حرا ہی مشہور ہے۔اسی کے اندر وہ غار واقع ہے جس میں نبیﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔حرم سے اس کا فاصلہ ڈھائی یا تین میل ہوگا۔ مولانا کا اندازہ ہے کہ یہ دو ہزار فٹ کے قریب اونچا ہے۔غار حرا تک پہنچنے کے لیے دومرتبہ پہاڑ پر چڑھنا اور اترنا پڑتا ہے اور اس میں لوگوں کے بتانے کے مطابق کم از کم دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ہم اس پر چڑھنے کی کوشش کرتے،مگر وقت بہت تنگ تھا۔اس لیے اسے کسی اور دن کے لیے ملتوی کر دیا،مگر افسوس کہ بعد میں بھی اس کا موقع نہ مل سکا اور دل کی حسرت دل ہی میں رہ گئی‘‘(ص۱۴۰) 


اسی طرح جبل ثور(جس میں غار ثور واقع ہے) کے تذکرہ میں لکھتے ہیں: 


’’جبل نور کی نسبت اس کی اونچائی زیادہ ہے اور اس پر چڑھنے کا راستہ بھی خطرناک ہے۔غار ثور اس کے عین اوپر ہے۔بہت کم لوگ ہیں جو اس پر چڑھنے کی ہمّت کرتے ہیں اور جو لوگ چڑھتے ہیں وہ پانی اور کھانا ساتھ لے کر علی الصبح چڑھنا شروع کرتے ہیں اور دوپہر تک اوپر غار تک پہنچتے ہیں۔شاید ہم اس پر چڑھنے کی ہمّت کر جاتے،لیکن وقت بہت زیادہ ہو گیا تھا اور دھوپ تیز ہو گئی تھی اور پھر ہمارے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہ تھا(اس لیے واپس آگئے) (ص۱۴۷) 


اس سفر کے ذریعہ مولانا مودودیؒ نے قرآن کریم میں مذکور آثار و مقامات کے مشاہدہ سے جو بلا واسطہ معلومات حاصل کیں انھیں اپنی تفسیر’ تفہیم القرآن‘ میں استعمال کیا۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو تفہیم القرآن کو دیگر معاصر تفسیروں سے ممتاز کرتی ہے۔چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض تاریخی مباحث کو سمجھانے کے لیے اس میں نقشوں،خاکوں وغیرہ کا استعمال کیا گیا ہے اوربعض مقامات کے فوٹوز بھی شائع کیے گئے ہیں۔مثلاً:حضرت ابراہیمؑ کی مہاجرت اور ان کے تبلیغی مشن کے مراکز، نقشہ مقامات حج، نقشہ جنگ بدر، نقشہ جنگ احد، نقشہ جنگ خندق ،بنی اسرائیل کی صحرانوردی،غزوۂ تبوک کے زمانے کا عرب،مدائن صالح کی عمارات،وہ کنواں جس پر حضرت صالح ؑکی اونٹنی پانی پیتی تھی، وہ درخت جس سے حضرت موسیٰ کو کلام الٰہی کی آواز آئی تھی،وہ جگہ جہاں حضرت موسیٰ کو جھاڑی میں آگ لگی ہوئی نظر آئی تھی،مدین کا وہ کنواں جہاں حضرت موسیٰؑ نے بکریوں کو پانی پلایا تھا وغیرہ(تفہیم القرآن میں اس طرح کے کل 42نقشے اور فوٹوز شائع کیے گئے ہیں) 



(www.raziulislamnadvi.com › Articles )