قرآن حکیم اور سرمایہ دارانہ معاشرے کی ذہنیت

قرآن مجید نے سورہ ہمزہ میں اپنے جامع وبلیغ لفظوں میں اس انسانی ذہینت پر تبصرہ کیاہے جو کہ اپنے کثیر سرمایہ کے ساتھ کیسے کیسے دور دراز کے منصوبے اور کیسی کیسی لمبی اسکیمیں بنانے لگتا ہے۔ گویا وہ اپنے مال، دولت، خزانہ کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ جیتا رہےگا، اس سورہ میں معاشرتی زندگی کے دو بڑے امراض:1- پس پشت عیب رکھنے۔ 2- اور رو در رو طعنہ دینے کی اخلاقی بیماری کا بھی تذکرہ کیا ۔ اس میں اشارہ کردیا کہ اس معاشرتی اخلاقی امراض کی بنیاد زیادہ ترکبر وبخل پر ہوتی ہے اور یہ افراط زر وحب مال سے پیدا ہوتے ہیں۔ایساانسان غایت حرص وشدت بخل سے مال جمع کرنے کی دھن میں لگا رہتا ہے۔ مال کو بار بار گنتا اور حساب کرتا رہتا ہے ۔بینک کی پاس بک کی باربار الٹ پلٹ کرتے رہنا، دن رات مال کی فکر میں پڑے رہنا سٹہ اور صرافہ اور (Share Market) کی خبروں کی ٹوہ میں ہر وقت لگے رہنا، یقینا یہ سب گننے ہی کے حکم میں داخل ہے ۔ مال سے طبعی تعلق برا نہیں، برا اس تعلق میں حد سے زیادہ انہماک ہے۔ بار بار گنتے اور حساب کرتے رہنا حب مال اور انہماک کی واضح علامت ودلیل ہے، اس کے برعکس قرآن اصحاب رسول کا تذکرہ ان الفاظ کرتاہے: رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ (النور :37) وہ لوگ جن کو تجارت اور خریدو فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی اور نہ نماز کی اقامت سے اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔

آئیے !سب سے پہلے سورہ ہمزہ کا ترجمہ اور تفہیم ملاحظہ کریں ؛ ارشاد باری تعالی ہے : وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ (١)الَّذِي جَمَعَ مَالا وَعَدَّدَهُ (٢)يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ (٣)كَلا لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ (٤)وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ (٥)نَارُ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ (٦)الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الأفْئِدَةِ (٧)إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ (٨)فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ (٩)


ترجمہ اور تفہیم : بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کے لئے جو پس پشت عیب نکالنے والا ہو (اور) رو در رو طعنہ دینے والا ہو جو (بہت حرص کی وجہ سے) مال جمع کرتا ہو اور (اس کی محبت اور اس پر فخر کے سبب) اس کو بار بار گنتا ہو (اس کے برتاؤ سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا) وہ خیال کر رہا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا (یعنی مال کی محبت میں ایسا انہماک رکھتا ہو جیسے وہ اس کا معتقد ہے کہ ہو خود بھی ہمیشہ زندہ رہیگا اور اس کا مال بھی ہمیشہ یوں ہی رہے گا حالانکہ یہ مال اس کے پاس) ہرگز نہیں (رہے گا، آگے اس ویل یعنی خربای کی تفصیل ہے کہ) واللہ وہ شخص ایسی آگ میں ڈالا جائے گا جس میں جو کچھ پڑے وہ اس کو توڑ پھوڑ دے، اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ وہ توڑنے پھوڑنے والی آگ کیسی ہے وہ اللہ کی آگ ہے جو (اللہ کے حکم سے) سلگائی گئی ہے (آگ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنیں اس آگ کے سخت اور ہولناک ہونے کی طرف اشارہ ہے اور وہ ایسی ہے) جو (بدن کو لگتے ہی) دلوں تک جا پہنچے گی وہ (آگ) ان پر بند کر دی جاویگی (اس طرح سے کہ وہ لوگ آگ کے) بڑے لمبے لمبے سوتنوں میں (گھرے ہوئے ہوں گے) جیسے کسی کو آگ کے صندوقوں میں بند کردیا جائے) ( بیان القرآن :مولانا اشرف علی تھانوی ؒ )


علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ ابتدائی دور میں کفار مکہ یوں تو سب کے سب حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض وعناد رکھتے تھے لیکن ان میں چند ایسے بھی تھے جو جھوٹے الزامات لگاتے اور بہتان تراشی میں پیش پیش تھے ۔ کچھ ایسے تھے جو پس پیشت تو غیبت عیب جوئی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے لیکن روبرو کوئی ناروا بات کہنے کی وہ جسارت نہ کرتے بعض بدبخت اور بےحیا ایسے بھی تھے جو منہ پر بھی طعن وتشنیع سے باز نہ آتے۔ اخنس بن شریق ان کا سرغنہ تھا۔ مفسرین کا خیال ہےکہ انہی لوگوں کے بارے میں یہ سورت نازل ہوئی۔اس میں ان بخیلوں کا بھی ذکر ہوا ہے جو روپیہ گن گن کر رکھتے اور نیک لوگوں کو اپنے طعن و طنز سے ان کا قافیہ تنگ کر دیتے اور ان کی پوری کوشش ہوتی کہ کسی طرح ان کا حوصلہ اتنا پست کر دیں کہ ان کی دعوت سےا ن کے کو خفت و ندامت کی اذیت سے دوچارنہ ہونا پڑے ۔قرآن نے بخیل سرمایہ داروں کے اس کردار کی طرف جگہ جگہ اشارہ کیا ہے۔ مثلاً سورۂ توبہ میں فرمایا ہے :


اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُہْدَہُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْہُمْط سَخِرَ اللہ ُ مِنْہُمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ (التوبۃ۔ ٩ : ٧٩)


جو لوگ خوش دلی سے انفاق کرنے والے اہل ایمان پر ان کے صدقات کے باب میں نکتہ چینی کرتے ہیں اور جو غریب اپنی محنت و مزدوری ہی سے انفا ق کرتے ہیں تو ان پر پھبتیاں چست کرتے ہیں، اللہ نے ان کا مذاق اڑایا اور ان کے لئے ایک دردناک عذاب ہے ۔ 


بخیلوں اور بد کردار لوگوں کی نفسیات :


بخیلوں اور بد کردار لوگوں کی نفسیات میں یہ بات ہے کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے بھی ان جیسے بنے رہیں۔ نکٹا دوسروں کو بھی نکٹا ہی دیکھنا چاہتا ہے تاکہ اسے کوئی نکٹا کہنے والا باقی نہ رہے۔ یہی نفسیات مکہ کے ان بخیلوں کی بھی تھی۔ پھر اس سے ان کی اسلام دشمنی کے جذبہ کو بھی تسکین ہوتی تھی۔ وہ نہ خود خدا کی راہ میں کوڑی خرچ کرنا چاہتے تھے، نہ اس بات پر راضی تھے کہ کوئی دوسرا خرچ کرے۔ اپنی اس خواہش کے برخلاف جب دوسروں کو دیکھتے کہ وہ اسلام کے لئے اپنی جان ومال اس دریا دلی سے لٹا رہے ہیں ، یہاں تک کہ مزدور اپنی مزدوری میں سے، بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کراپنی آدھ سیر کھجور یا جو کے عوض دولت کو نین خرید رہا ہے تو ان بخیلوں کے سینہ پر سانپ لوٹ جاتا۔ وہ غصہ سے کھولتے اور حسد سے جلتے پھر اپنے دل کا بخار طعن و تشنیع، طنز اور پھبتی سے نکالتے ۔بخیلوں کا یہ کردار ان کی بے بسی کی تصویر ہے۔ اپنی مدافعت کی واحد تدبیر ان کے پاس اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ نیک لوگوں کا مذاق اڑائیں اور ان پر پھبتیاں چست کریں ۔ قرآن نے اس سورہ میں ان کے ظاہر و باطن کے ہر گوشہ کو اچھی طرح بے نقاب کردیا ہے ۔اور یہی کردار ان لوگوں کا بھی ہوتا ہے جو دوسری اخلاقی کمزوریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہ بھی اپنے سے برتر کردار رکھنے والوں سے ہمیشہ اپنے غصہ ،حسد سے جلتے پھر اپنے دل کا بخار طعن و تشنیع، طنز اور پھبتی سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کردار کا ذکر قرآن میں اس طرح ہے کہ قوم لوط کے گنڈوں نے جب دیکھا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی دعوت اصلاح کے مقابلے میں ان کے لئے اپنی آبرو بچانا دشوار ہو رہا ہے تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے رویہ کی اصلاح کرتے انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں پر فقرے چست کرنے شروع کر دیئے کہ ’’ یہ لوگ بڑے پارسا بنتے ہیں‘‘ اور قوم کو ابھارا کہ ان لوگوں کو ملک سے باہر نکالو، ورنہ یہ پوری قوم کو ذلیل کر دیں گے ۔ 


ویل لکل ھمزۃ لمزۃ(١) ایک ہی کردار کے دو پہلو ’’ ھمز‘‘ کے معنی اشارہ بازی کرنے اور ’’ لمز‘‘ کے معنی عیب لگانے کے ہیں۔ ’ ھمزۃ‘ اور ’ لمزۃ‘ مبالغہ کے صیغے ہیں اور اسی سورۃ میں آگے ’ حطمۃ‘ بھی اسی وزن پر آیا ہے۔ ’ ھمزۃ‘ کے معنی اشارہ باز اور ’ لمزۃ‘ کے معنی عیب جو اور عیب چین کے ہیں۔ اشارہ بازی کا تعلق زیادہ تر حرکتوں اور اداء وں سے ہے اور عیب جوئی کا تعلق زبان سے۔ یہ دونوں ایک ہی کردار کے دو پہلو ہیں۔ جب کسی کا مذاق اڑانا، اس کا ہتک کرنا اور اس کو دوسروں کی نگاہوں سے گرانا مقصود ہو تو اس میں اشارہ بازی سے بھی کام لیتے ہیں اور زبان سے بھی۔ اشارہ بازی سے کسی کی تضحیک و تحقیر کے جو پہلو پیدا کئے جا سکتے ہیں بسا اوقات وہ زبان کی فقرہ بازیوں سے زیادہ کارگر ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ’ ھمزۃ‘ کو مقدم رکھا ہے ۔

ھمزولمز‘ کی عادت مہذب اور شائستہ سوسائٹی میں ہمیشہ عیب سمجھی گئی ہے۔ تمام آسمانی مذاہب میں اس کی ممانعت وارد ہے۔ قرآن مجید میں نہایت واضح الفاظ میں اس سے روکا گیا ہے وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِط(الحجرات : ٤٩ : ١١) اور اپنے آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگائو اور ایک دوسرے پر پھبتیاں چست نہ کرو ۔

آج کے سرمایہ دارنہ معاشرے کی ساری اشتہاری مہم ان ہی دو کردارں پر ہے ۔ اس کو سمجھنےکے لے آج کی کاروباری دنیا اور کمرشل اشتہارات پر ایک نظر کا فی ہے ۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ کس طرح مختلف کمپنیاں بے حیائی اور ناشائستہ اندازمیں اپنی مصنوعات کو مشتہر کرتی ہیں ۔


آج کی جدید جاہلیت کی طرح قدیم جاہلیت میں بھی اس فن کو بڑا فروغ حاصل رہا ہے۔ اس زمانہ میں جس طرح اخباروں میں مزاحیہ کالم اور کارٹون اور اشتہار چھپتے ہیں جو اشاروں کی زبان میں حریفوں کی تضحیک کرتے ہیں اسی طرح قدیم زمانے میں نقال، بھانڈ اور فقرہ باز ہوتے تھے جو اجرت لے کر دوسروں کی پگڑیاں اچھالتے اور اپنوں کا جی خوش کرتے۔ سورۂ قلم میں قریش کے لیڈروں اور ان کے گنڈوں پر قرآن نے جو جامع تبصرہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی مسلمانوں کو اسی حربے سے شکست دینے کی کوشش کی جو حربے آج کل پیشہ ور لیڈر کمپنی مالکان اپنے حریفوں کو شکست دینے کے لئے اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو ان کے ان ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہنے کی ہدایت فرمائی گئی ۔

وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ۔ ہَمَّازٍ مَّشَّآئٍم بِنَمِیْمٍ۔ مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ۔ عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ۔ اَنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَّبَنِیْنَ۔ 


(القلم۔ ٦٨ : ١٠۔ ١٤)


اور تم پر لپاٹیے ذلیل کی بات کا دھیان نہ کرو۔ اشارہ باز اور لگانے بجھانے والے کا۔ بھلائی سے روکنے والا، حدود سے تجاوز کرنے والا اور حق کو تلف کرنے والا۔ اجڈ مزید برآں چاپلوس۔ بوجہ اس کے کہ وہ مال و اولاد والا ہوا ۔


خلاصہ یہ کہ اس سورہ میں بخیل سرمایہ داروں کی نہایت جامع تصویرکشی کی گی ہے یعنی حقوق کی یادہانی اور نصیحت کرنے والوں کو تو انہوں نے طعن و تشنیع ہمز و لمز کے حربے سے چپ کرنے کی کوشش کی اور خود مال جمع کرنے اور اس کو گن گن کر سنتینے میں لگے رہے۔ مال کے حریص و بخیل مال داروں کی یہ نہایت جامع تصویر ہے۔ ان کا دل و دماغ ہمیشہ اپنے سرمایہ کے حساب و کتاب میں لگا رہتا ہے۔ کس کاروبار میں کتنا منافع ہوا ہے ؟ فلاں سرمائے سے یافت کی کتنی توقع ہے ؟ فلاں خسارہ جو ہوا ہے اس کی تلافی کی کیا صورت ہوگی ؟ اگلے سال تک سرمایہ کی مجموعی مقدار کہاں تک پہنچ جائے گی ؟ اسی طرح کے سوال ہمیشہ ان کے دل و دماغ پر سوار رہتے ہیں۔ مال کے ساتھ ان کایہ انہماک پتہ دیتا ہے کہ وہ گویا یہ خیال کئے بیٹھے ہیں کہ یہ مال ان کو زندہ جاوید رکھے گا۔ اگر وہ جانتے ہیں کہ یہ مال بھی فانی اور ان کی زندگی بھی فانی ہے تو وہ مال ہی کو مقصود سمجھنے کے بجائے اس حصول مال کے مقصد کے لئے استعمال کرتے جس کے لے اس نے یہ مال حاصل کیا ہے ۔ لیکن اس کی محبت میں ان کا یہ استغراق پتہ دیتا ہے کہ وہ اس مال ہی میں اپنی زندگی پا گئے ہیں۔


اسی ذہنیت کی تصویر سورۂ شعراء میں کھینچی گئی ہے : اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ۔ وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ۔ (الشعرآء۔ ٢٦ : ١٢٨۔ ١٢٩ ) کیا تم پر ہر بلندی پر عبث یادگاریں تعمیر کرتے اور شاندار محل تعمیر کرتے رہو گے گویا تمہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے ۔


آدمی کے باطن کا سراغ دینے والی اصل چیز اس کی زبان نہیں بلکہ اس کی زندگی کا رویہ ہے۔ جو آدمی اسی دنیا کو اپنی منزل سمجھتا ہے اس کی زندگی اس شخص کی زندگی سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو اس دنیا کو منزل نہیں بلکہ راہ سمجھتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ جو شخص آخرت کا قائل اور اس کا طالب ہو وہ اپنا مال گن گن کر اس دنیا کے بنکوں اور تجوریوں میں رکھے بلکہ وہ اپنا مال اپنے خداوند کے پاس رکھتا ہے۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ ’’ تو اپنا مال اپنے خداوند کے پاس رکھ اس لئے کہ جہاں تیرا مال رہے گا وہیں تیرا دل بھی رہے گا ۔‘‘

بخیلوں کے سرمایہ کا حشر:


’ کلا‘ یہاں اس خیال باطل کی تردید کے لئے ہے جو یحسب ان ما لہ اخلدہٗ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ فرمایا کہ ہرگز نہیں، وہ بھی اور اس کا یہ سارا اندوختہ بھی چور چور کر دینے والی میں پھینک دیا جائے گا۔ ’ حطمۃ‘۔ ’ حطم‘ کے مادہ سے ہے جس کے معنی چور چور کر دینے کے ہیں۔ یہ وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے ۔ اس آگ کو ’ حطمۃ‘ یعنی چور چور کر دینے والی کی صفت سے تعبیر کرنے کی حکمت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بخیل سرمایہ دار اپنی دولت اس زمانے میں سونے چاندی کی اینٹوں، زیورات، ظروف اور جواہرات وغیرہ کی شکل میں محفوظ کرتے تھے۔ اس طرح کی دولت کو برباد کرنے کے لئے چور چور کر دینے کی تعبیر زیادہ موزوں ہے یعنی یہ ساری دولت جلا کر اور چور چور کر کے پراگندہ کر دی جائے گی کہ جو لوگ اس کو حیات جاوداں کی ضامن سمجھے بیٹھے تھے وہ اس کا حشر دیکھیں ۔ آخر ت میں ان کی ذلت اور بے بسی کی تصویر ہے کہ اس آگ کے اندر وہ لمبے لمبے ستونوں کے ساتھ، بھاری بھاری زنجیروں سے، جکڑے ہوئے بھی ہوں گے کہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں۔ یہاں ستونوں کا ذکر ہے، سورۂ حآقہٗ میں اسی طرح کے مجرموں کے لئے زنجیر کا بھی ذکر ہے۔ فرمایا ہے :


خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ۔ ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ۔ ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُہَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُکُوْہُ۔ اِنَّہٗ کَانَ لَا یُؤْمِنُ بِ اللہ ِ الْعَظِیْمِ۔ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ۔ 


(الحاقۃ٦٩ : ٣٠۔ ٣٤)


اس کو پکڑو، پھر طوق ڈالو، پھر دوزخ میں داخل کرو، پھر ایک زنجیر میں جس کا طول ستر گز ہے، اس کو جکڑو۔ یہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھا تھا اور مسکین کو کھلانے پر نہیں ابھارتا تھا ۔


قرآن مجید میں اس مقام کے سوا اور کہیں جہنم کی آگ کو اللہ کی آگ نہیں کہا گیا ہے۔ اس مقام پر اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے سے نہ صرف اس کی ہولناکی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی دولت پا کر غرور و تکبر میں مبتلا ہوجانے والوں کو اللہ کس قدر سخت نفرت اور غضب کی نگاہ سے دیکھتا ہے جس کی وجہ سے اس نے اس آگ کو خاص اپنی آگ کہا ہے جس میں وہ پھینکے جائیں گے۔(جاری )
-----------------------------------

حوالہ جات : 


1- بیان القرآن : مولانا اشرف علی تھانوی ؒ


2-تفہیم القرآن :مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ


3- تفسیر ماجدی : مولانا عبد الماجد دریا بادی ؒ


4- تدبر قرآن : مولانا مین احسن اصلاحی ؒ


5- ضیاء القرآن ؛ مولانا پیر کرم شاہ صاحب ؒ

6- معارف القرآن : مولانا مفتی شفیع عثمانیؒ