آیت بِسْمِ اللّٰہِ کے اسرار و رموز

  آیت  بِسْمِ اللّٰہِ کے اسرار و رموز:
        جس کو بھی اللہ  تعالی نے جسم و جان سے نوازا ہے وہ اپنی جسمانی بقا کے لیے محنت کرنے کا محتاج ہے اس میں کسی مخلوق کی خصوصیت نہیں بلکہ حشرات الارض سے لے کر انسان تک یہی ایک قدر مشترک ہے جو ساری مخلوقات میں نظر آتی ہے۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ کائنات کی ہرچیز  اللہ کی بندگی اور اس کی تسبیح  میں مصروف ہے ، اللہ تعالی نے انسان کو بھی اس کائناتی تسبیح سے ہمہ وقت ہم کنار کرنے کے لے مختلف اذکار کی تعلیم دی ہے ، ان میں  بسم اللہ سب سے اہم ذکر ہے جس کو ہمارے ہر کام کے شروع میں ورد کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ ہماری زندگی بامقصد اور  معرفت الہی سے ہم کنار ہوجائے، اللہ تعالی سے تعلق مضبوط ہوجائے۔
  اسلام نے جن آداب زندگی کی تعلیم دی ہے وہ چاہتاہےکہ اس کے ماننےوالوں کی پوری زندگی انہیں آداب  میں ڈھل کر نکلے، ان کا ہر کام انہیں آدا ب  کا غماز ہو۔ چنانچہ ان میں سے ایک اہم اور بنیادی ادب یہ بھی ہے کہ جب مسلمان کسی کام کا آغاز کرنا چاہے تو اپنے رب کے نام سے کرے کیونکہ دین  کی بنیاد ہی  اللہ سے متعلق ہمارے  درست  تصور پر ہے اس لیے ہمارے  ہر کام میں اسی تصور کو نمایاں مقام ملنا چاہیے یقینا نسل انسانی کے آغاز سے ہی یہ تصور دیا گیا ہوگا، نسل انسانی کی تاریخ  حضرت آدم ( علیہ السلام) سے شروع ہوتی ہے ۔نوح (علیہ السلام) سے پہلے اس بات کا تو یقین ہے کہ انھیں بھی اسی طرح کی ہدایت ملی ہوگی لیکن اس کی کوئی حتمی گواہی قرآن میں موجود نہیں البتہ نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے ہم جانتے ہیں کہ اس وقت کے مسلمانوں کو بھی یہ  سکھائی گئی تھی کہ تمھیں ہر کام سے پہلے اللہ کا نام لے کر کام کا آغاز کرنا ہے چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے حالات کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم نے بتایا ہے کہ کفار کے مسلسل کفر کے باعث جب اللہ تعالیٰ کا عذاب طوفان کی شکل میں آیا تو حضرت نوح (علیہ السلام) جو اللہ کے حکم سے کشتی تیار کرچکے تھے انھوں نے کشتی پانی میں اتاری اور اپنے تمام ماننے والوں کو حکم دیا کہ اس کشتی پر سوار ہوجاؤ چنانچہ انھیں کشتی میں سوار کرتے ہوئے آپ نے جو الفاظ کہے قرآن کریم نے اس کو نقل کیا ہے۔ ارشاد فرمایا :
 وَقَالَ ارْکَبُوْ فِیْھَا بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖھَا وَمُرْسٰھَا  اِنَّ رِبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (ہود۔ ١١: ٤١)
 (اور اس نے کہا کہ اس میں سوار ہوجاؤ، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا، بے شک میرا رب بخشنے والا اور رحم کرنے و الا ہے۔)
 اسی طرح سورۃ النمل میں ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جب خبر ہوئی کہ یمن میں ایک ایسی حکومت ہے جس کی ملکہ اور اس کی رعایا ابھی تک کفر پر قائم ہیں تو آپ نے یمن کی ملکہ بلقیس کو جو خط لکھا اس کا آغاز انھیں الفاظ سے کیا گیا۔  اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّـہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (نمل۔ ٢٧: ٣٠) یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور اس کا آغاز بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے ہوا ہے۔
 ان دونوں مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پروردگار نے آغاز ہی سے انسانوں کو یہ تہذیب سکھائی کہ تمھیں ہر کام کی ابتداء کرتے ہوئے اللہ کا نام لینا چاہیے ۔
 آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے مشرکین عرب اپنے کاموں کی ابتداء بتوں کے نام سے کیا کرتے تھے کیونکہ ان کی تہذیب کی بنیاد ان کی بت پرستی کے تصورات تھے لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو پہلی وحی اتری اس میں سب سے پہلا حکم یہی دیا گیا اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (٩٦ : ١) پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے آپ کو پیدا کیا‘‘۔ اس میں یہ ہدایت دی گئی کہ آئندہ آپ کو ہر کام اللہ کے نام سے کرنا چاہیے چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس کے بعد معمول ہوگیا کہ آپ ہر کام سے پہلے باسم اللہ پڑھتے اور لکھتے تھے اور جب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نازل ہوگئی تو پھر آپ اور مسلمان ہر کام کے آغاز کے لیے نہ صرف کہ اسی کو پڑھنے لگے بلکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے اسی کے پڑھنے کا حکم دیا اور اس کی بار بار تاکید فرمائی۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ’’ کہ گھر کا دروازہ بند کرو تو بِسْمِ اللّٰہِ کہو، چراغ گل کرو تو بِسْمِ اللّٰہِ کہو، برتن ڈھکو تو بِسْمِ اللّٰہِ کہو، کھانا کھانے، پانی پینے، وضو کرنے، سواری پر سوار ہونے اور اترنے کے وقت بِسْمِ اللّٰہِ پڑھنے کی ہدایات قرآن و حدیث میں بار بار آئی ہیں۔ ‘‘
 بِسْمِ اللّٰہِ کی اس قدر تاکید کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو  اس چھوٹی سی ہدایت نے انسانی زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا آغاز کردیا ہے نبی پاک ﷺ نے نہایت حکیمانہ طریقے سے یہ مختصر سا حکم دے کر ایک ایسی تہذیب کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی ہے جس کے نتیجے میں ایک ایسی معاشرہ  وجود میں آتا ہے جس کے سائے میں انسانیت میٹھی نیند سوتی اور اقدار انسانیت پھلتے پھولتے ہیں جب ایک شخص بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ کر ہر کام کا آغاز کرتا ہے تو فوراً اس کے ذہن میں یہ تصورات تازہ ہوتے ہیں کہ تم جن قوتوں اور صلاحیتوں سے کام لے کر یہ کام کرنے لگے ہو وہ تمھاری ذاتی نہیں اس ذات نے تمھیں عطا کی ہیں جس نے تمھیں پیدا کیا وہ تمھیں ہر کام کرتے ہوئے دیکھتا ہے تم ہر وقت اس کی نگرانی میں ہو تمھارے ہر کام اور ہر عمل کا ایک نوشتہ تیار ہو رہا ہے ایک دن ایسا آئے گا جب تمھیں اپنے ہر عمل کا جواب دینا پڑے گا تم سے پوچھا جائے گا یہ تصورات جیسے جیسے اس کے دل و دماغ میں پختہ ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے اس کی نیت، اس کے اعمال اور اس کے اعمال کے نتائج صالح ہوتے جاتے ہیں وہ اپنی ذات میں ایک خیر کا سر چشمہ بن جاتا ہے جس سے ہر وقت لوگوں کے لیے بھلائی ابلتی ہے اور نیکی کی قوتوں کو فروغ ملتا ہے۔ اس مثالیں اور اس  کے نتائج ہم نبی ﷺ  کے قائم کردہ معاشرہ میں بہت واضح انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔ 
سب سے  پہلی وحی میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا تھا اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق ج (٩٦ : ١) ہم جب بھی ہم قرآن پاک کی تلاوت بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سے شروع کرتے ہیں تو ہم اللہ کے اس حکم پر عمل کرتے ہیں اسی طرح یہ آیہ مبارکہ ہمیں اللہ کے ایک عظیم احسان کی یاد بھی  دلاتی ہے۔ اللہ کا وہ عظیم احسان یہ ہے کہ اس نے انسان کو نطق اور گویائی کی نعمت عطا فرمائی اگر ہمیں یہ نعمت میسر نہ آتی تو قرآن جیسی دولت بھی ہمیں نہ ملتی کیونکہ قرآن کریم کا تعلق زیادہ تر اسی صلاحیت سے ہے اور یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود سورۃ الرحمن کے آغاز میں اس کا ذکر فرمایا۔ ارشاد ہوتا ہے اَلرَّحْمٰنُ  عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ  عَلَّمَہُ الْبِیَانَ (٥٥ : ١۔ ٤) ’’ خدائے رحمان نے قرآن سکھایا اور اس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو گویائی کی تعلیم دی‘‘۔ مزید برآں یہ کہ اس مبارک کلمہ کی تلاوت سے موسیٰ (علیہ السلام) کی ایک خاص پیش گوئی کی تصدیق بھی ہوتی ہے جس کی سند گزشتہ آسمانی صحیفوں میں موجود ہے وہ یہ ہے کہ آپ خلق خدا کو جو تعلیم دیں گے وہ اللہ کا نام لے کر دیں گے۔ حضرت موسیٰ کی پانچویں کتاب باب اٹھارہ (١٨۔ ١٩) میں یہ الفاظ وارد ہیں۔ ’’ میں ان کے لیے انھیں کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب ان سے لوں گا۔ ‘‘
 ہرکام سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ پڑھنے کی برکت
 ایک اور پہلو سے بھی ہر کام کو اس مبارک کلمہ کے ساتھ کرنے کی اس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاکید فرمائی ہے جس سے اس کی افادیت میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کل امر ذی بال لم یبدا بباسم اللہ فھو اقطع او ابتر ’’ ہر جائز کام جسے بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکت اور بے نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘ ا
بِسْمِ اللّٰہِ کا مفہوم
 بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کی عظمت، اہمیت اور افادیت سمجھنے کے بعد یہ بھی جاننا چاہیے کہ اس کے الفاظ کا مفہوم کیا ہے جس سے ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ جب ہم کسی کام کے آغاز میں یہ مبارک کلمہ بولتے ہیں تو اس وقت ہمارے ذہن میں اس کا مفہوم کیا ہونا چاہیے۔
 بِسْمِ اللّٰہ تین لفظوں سے مرکب ہے ایک حرف با، دوسرے اسم، تیسرے  لفظ اللہ، حرف با عربی زبان میں بہت سے معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے جن میں سے وہ معنی جو اس مقام کے مناسب ہیں وہ تین ہیں۔ ان میں سے ہر ایک معنی بسم اللہ پڑھتے ہوئے لیا جاسکتا ہے۔
 1 مصاحبت : یعنی کسی چیز کا کسی چیز سے متصل ہونا۔
 2 استعانت : یعنی کسی چیز سے مدد چاہنا۔
 3 تبرک : یعنی کسی چیز سے برکت حاصل کرنا۔

 ان تینوں معنوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بسم اللہ پڑھتے ہوئے جب ہم کسی کام کا آغاز کرتے ہیں تو گویا ہم یہ کہتے ہیں کہ میں یہ کام کرنے لگا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ کے نام کی مدد سے، اللہ کے نام کی برکت سے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ میں اللہ اسم ذات ہے اور الرحمن الرحیم اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ہیں۔ (جاری )