ایمان بالآخرت کے چند حقائق : ڈاکٹر اسرار احمد

ایمان بالآخرت کے چند حقائق : (سورہ بقرہ کی آیت: 4 کی تفسیر )
 1 غیب میں آخرت بھی شامل ہے۔ جو آدمی غیب پر ایمان رکھتا ہے، وہ یقینا آخرت کو بھی مانتا ہے۔ لیکن اس کا مستقلاً الگ ذکر کرنا، یہ معنی رکھتا ہے کہ قرآن کریم جو انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے اور انسانی زندگی میں جس تبدیلی کا داعی ہے، اس کے لیے آخرت پر یقین بے حد ضروری ہے۔ اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کو ماننایقینا ہدایت کی بنیاد ہے۔ لیکن جب تک آخرت کی فکر دل ودماغ میں راسخ نہیں ہوتی، اس وقت تک اللہ کی ذات و صفات کا صحیح استحضار اور قرآن کریم سے صحیح استفادہ اور ذات رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحیح وابستگی پیدا نہیں ہوتی۔
 2 آخرت کا معنی تو ہے دوسری زندگی۔ جو قیامت کے بعد جن وانس کو ملے گی، لیکن اس کا اطلاق چند عقائد وحقائق پر ہے۔ ان میں سے ہر ایک پر یقین آخرت کے یقین کو مکمل کرتا ہے ۔
 1 ان میں سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں میں یہ تصور پیدا کرتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے غیر ذمہ دار نہیں بنایا۔ وہ کوئی خود کاشتہ پودا نہیں، جو یونہی مَل دَل کے ختم ہوجائے اور نہ وہ شتر بے مہار ہے جو جدھر منہ اٹھائے چلتا پھرے۔ بلکہ اس کی زندگی کا مقصد ہے اور اس مقصد کے مطابق زندگی گزارنے کا اسے پابند بنایا گیا ہے۔ قیامت کے دن جسے آخرت کہا گیا ہے، اس سے اس مقصد کے حوالے سے باز پرس ہوگی۔ مختصر یہ کہ بازپرس کا یقین رکھنا اور اس کے لیے ایک دن کے آنے کا یقین رکھنا یہ آخرت کا پہلا تصور ہے ۔
 2 دوسری بات یہ کہ دنیا کا موجودہ نظام اور دنیاکی یہ زندگی دائمی اور ابدی نہیں۔ ایک وقت ایسا آئیگا جب یہ پورا کارخانہ تباہ ہوجائے گا۔ زمین پھٹ جائے گی آسمان ٹوٹ پھوٹ جائیں گے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ ہر طرف تباہی اور موت کی حکومت ہوگی ۔
 3 تیسری بات یہ کہ جس طرح دنیاکو موت کا شکار ہونا ہے اور اس زندگی کو ہمیشہ باقی نہیں رہنا، اسی طرح یہ تباہی اور بربادی بھی ہمیشہ نہیں رہے گی اس دنیا کے خاتمے کے ایک عرصے بعد اللہ تعالیٰ ایک دوسرا عالم بنائے گا اور اس میں تمام نوع انسانی کو جو ابتدائِ آفرینش سے لے کر قیامت تک زمین پر پید اہوئی تھی، بیک وقت دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا اور پھر انھیں میدانِ حشر میں جمع کیا جائے گا۔ جہاں سب کے اعمال کا حساب ہوگا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔
 4 چوتھی بات یہ کہ جو لوگ اللہ کے فیصلے کے نتیجے میں نیک قرار پائیں گے، وہ جنت میں جائیں گے اور ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور جو لوگ اپنی بد اعمالیوں کے باعث بد ثابت ہوں گے، وہ جہنم کی نذر کردیئے جائیں گے ۔
 5 پانچویں یہ بات کہ قیامت کے دن کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ایمان وعمل پر ہوگا۔ جس نے زندگی اللہ کے احکام کے مطابق گذاری ہوگی، وہ کامیاب ٹھہرے گا۔ کیونکہ کامیابی اور ناکامی کا دارومدار موجودہ زندگی کی خوشحالی یا بدحالی پر نہیں، بلکہ حقیقی کامیاب وہ ہے، جو آخرت میں جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا۔ دنیا میں اگر کسی نے کبھی خوشی نہیں دیکھی اور ساری زندگی دکھوں میں گذاری۔ لیکن اس کی پوری زندگی پر ایمان وعمل کی حکمرانی رہی اور اس نے ہمیشہ اپنے اللہ کوراضی کرنے کی کوشش کی، تو اس کی دنیا کی محرومیاں آخرت میں اس کے لیے توشہ ثابت ہوں گی۔ لیکن جس نے دنیا میں عیش وعشرت میں زندگی گذاری، اس کا یہ عیش و عشرت قیامت میں اس کے لیے حسرت کا سامان بن جائے گا۔

 یہ چند عقائد اور حقائق ہیں جن پر یقین رکھنے کو ایمان بالآخرت کہتے ہیں ۔