رسالت کی ضرورت ، سید ابو الاعلی مودودی

اللہ تعالی نے انسانی رہنمائی کے لیے رسالت کا طریقہ کیون اپنایا؟ 

دنیا میں انسان کی فکر و عمل کے بہت سے مختلف راستے ممکن ہیں اور عملا موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے راستے بیک وقت تو حق نہیں ہو سکتے۔ سچائی تو ایک ہی ہے اور صحیح نظریہ حیات صرف وہی ہوسکتا ہے جو اس سچائی کے مطابق ہو۔ اور عمل کے بےشمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہوسکتا ہے جو صحیح نظریہ حیات پر مبنی ہو۔
اس صحیح نظریے اور صحیح راہ عمل سے واقف ہونا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے، بلکہ اصل بنیادی ضرورت یہی ہے۔ کیونکہ دوسری تمام چیزیں تو انسان کی صرف ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک اونچے درجے کا جانور ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہوا کرتی ہیں۔ مگر یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے۔ یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہوگئی۔
اب غور کرو کہ جس خدا نے تمہیں وجود میں لانے سے پہلے تمہارے لیے یہ کچھ سروسامان مہیا کر کے رکھا اور جس نے وجود میں لانے بعد تمہاری حیوانی زندگی کی ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا اتنی دقیقہ سنجی کے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر انتظام کیا، کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ اس نے تمہاری انسانی زندگی کی اس سب سے بڑی اور اصلی ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست نہ کیا ہوگا ؟
یہی بندوبست تو ہے جو نبوت کے ذریعہ سے کیا گیا ہے۔ اگر تم نبوت کو نہیں مانتے تو بتاؤ کہ تمہارے خیال میں خدا نے انسان کی ہدایت کے لیے اور کونسا انتظام کیا ہے؟ اس کے جواب میں تم نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہمیں راستہ تلاش کرنے کے لیے عقل و فکر دے رکھی ہے، کیونکہ انسانی عقل و فکر پہلے ہی بےشمار مختلف راستے ایجاد کر بیٹھی ہے جو راہ راست کی صحیح دریافت میں اس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ اور نہ تم یہی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے، کیونکہ خدا کے ساتھ اس سے بڑھ کر بدگمانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ جانور ہونے کی حیثیت سے تو تمہاری پرورش اور تمہارے نشونما کا اتنا مفصل اور مکمل انتظام کرے، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے تم کو یونہی تاریکیوں میں بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے۔ ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس ذمہ داری کو (جو نوع انسان کی رہنمائی کے لیے اس نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے) اس طرح ادا کرتا کہ سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر دوسری تمام بےاختیار مخلوقات کے مانند برسر ہدایت بنا دیتا۔ لیکن یہ اس کی مشیت کا تقاضا نہ تھا۔ اس کی مشیت ایک ایسی ذی اختیار مخلوق کو وجود میں لانے کی متقاضی تھی جو اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے صحیح اور غلط، ہر طرح کے راستوں پر جانے کی آزادی رکھتی ہو۔ اسی آزادی کے استعمال کے لیے اس کو علم کے ذرائع دیے گئے، عقل و فکر کی صلاحیتیں دی گئیں، خواہش اور ارادے کی طاقتیں بخشی گئیں، اپنے اندر اور باہر کی بےشمار چیزوں پر تصرف کے اختیارات عطا کیے گئے، اور باطن و ظاہر میں ہر طرف بےشمار ایسے اسباب رکھ دیے گئے جو اس کے لیے ہدایت اور ضلالت، دونوں کے موجب بن سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ بےمعنی ہوجاتا اگر وہ پیدائشی طور پر راست رو بنا دیا جاتا۔ اور ترقی کے ان بلند مدارج تک بھی انسان کا پہنچنا ممکن نہ رہتا جو صرف آزادی کے صحیح استعمال ہی کے نتیجے میں اس کو مل سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جبری ہدایت کا طریقہ چھوڑ کر رسالت کا طریقہ اختیار فرمایا تا کہ انسان کی آزادی بھی برقرار رہے، اور اس کے امتحان کا منشا بھی پورا ہو، اور راہ راست بھی معقول ترین طریقہ سے اس کے سامنے پیش کر دی جائے۔