وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا (سورہ بنی اسرائیل :36)
ترجمہ : اور ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کی تم کو خبر نہیں۔ بےشک کان اور آنکھ اور دل سب کی آدمی سے پوچھ ہوگی۔
" قتادہ نے کہا ہے کہ "میں نے دیکھا" مت کہو جب کہ تم نے دیکھا نہ ہو۔ "میں نے سنا" مت کہو جب کہ تم نے سنا نہ ہو۔ "میں نے جانا" مت کہو جب کہ تم نے جانا نہ ہو (لاتقل رایت و لم تر وسمعت ولم تسمع وعلمت ولم تعلم)
جس آدمی کو اس بات کا ڈر ہو کہ خدا کے یہاں ہر بات کی پوچھ ہوگی وہ کبھی بے تحقیق بات اپنی زبان سے نہیں نکالے گا اور نہ آنکھ بند کرکے بے تحقیق بات کی پیروی کرے گا۔ انسان کو چاہئے کہ وہ کان اور آنکھ اور دماغ سے وہ کام لے جس کے لیے وہ بنائے گئے ہیں اور وہی بات منہ سے نکالے یا عمل میں لائے جو پوری طرح ثابت ہوچکی ہو۔ اس حکم میں تمام بے بنیاد چیزیں آگئیں۔ مثلاً جھوٹی گواہی دینا، غلط تہمت لگانا، سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر کسی کے درپے ہوجانا، محض تعصب کی بنا پر ناحق بات کی حمایت کرنا، ایسی چیزوں کے پیچھے پڑنا جن کو اپنی محدودیت کی بنا پر انسان جان نہیں سکتا۔ سمع و بصر و فواد بظاہر انسان کے قبضہ میں ہیں۔ مگر یہ انسان کے پاس بطور امانت ہیں۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ ان چیزوں کو خدا کی منشاء کے مطابق استعمال کرکے۔ ورنہ ان کی بابت اس سے سخت باز پرس ہوگی ۔
انسان ایک ایسی زمین پر ہے جس کو وہ پھاڑ نہیں سکتا، وہ ایک ایسے ماحول میں ہے جہاں اونچے اونچے پہاڑ اس کی ہر بلندی کی نفی کر رہے ہیں۔ یہ خدا کے مقابلہ میں انسان کی حیثیت کا ایک تمثیلی اعلان ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ آدمی دنیا میں متکبر بن کر نہ رہے۔ وہ عجز اور تواضع کا طریقہ اختیار کرے نہ کہ اکڑنے اور سرکشی کرنے کا ۔"
(تفسیر تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خان )