سورۃ الفاتحۃ کا استدلالی پہلو

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ 

یہ سورۃ چونکہ دعا کے اسلوب میں ہے اس وجہ سے اس میں جن باتوں کا بندے کی طرف سے اقرار اور پھر جس بات کی درخواست ہے، ان میں سے ہر چیز نہایت مضبوط عقلی اور فطری دلائل پر قائم ہے۔

 یہ نہیں ہے کہ ایک دعا تو ہماری زبان سے کہلا دی گئی ہو، جس کے اندر ہماری طرف سے نہایت اہم اعترافات بھی موجود ہوں لیکن نہ تو ان اعترافات ہی کے لیے کوئی عقلی بنیاد ہو اور نہ اس درخواست ہی کے لیے۔ اس دعا کے اندر استدلال کے جو پہلو ہیں یہاں ہم اختصار کے ساتھ ان کو واضح کرتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلے اس امر کا اقرار ہے کہ شکر کا حقیقی سزاوار اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس اقرار کی بنیاد خدا کی پروردگاری، اس کی رحمانیت، اس کی رحیمیت اور اس کے عدل کی ان نشانیوں کے مشاہدہ پر ہے جو ہمارے اندر بھی موجود ہیں اور جو اس کائنات کے بھی ہر گوشہ میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ آدمی کا بچہ ہو یا کسی حقیر سے حقیر حیوان کا، ابھی وہ دنیا میں قدم بھی نہیں رکھتا ہے کہ اس کی پرورش کا سامان پہلے سے بالکل تیار موجود ہوتا ہے۔ 

اس سامان پرورش کی تیاری کا عالم یہ ہے کہ معلوم ہوتا ہے اس کائنات کے تمام چھوٹے بڑے عناصر رات دن اسی کی فراہمی اور اسی کے اہتمام میں سرگرم ہیں۔ سورج بھی اسی کے لیے سرگرم ہے، چاند بھی اسی کے لیے مصروفِ کار ہے، ابر بھی اسی کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا ہے اور ہوا بھی ہر آن اسی کے لیے گردش میں ہے۔ پھر پرورش اور تربیت کا یہ اہتمام ہماری زندگی کے کسی ایک ہی گوشہ میں نہیں پایا جا رہا ہے، بلکہ غور کیجیے تو نظر آئے گا کہ یہ زندگی کے ہر گوشہ میں موجود ہے۔ ہمارے ظاہر کی بھی پرورش ہو رہی ہے، ہمارا باطن بھی زیر تربیت ہے، ہمارا جسم بھی پل رہا ہے، ہماری عقل کو بھی غذا مل رہی ہے، ہماری جسمانی قوتیں اور قابلیتیں بھی پروان چڑھ رہی ہیں اور ہماری روحانی صلاحیتوں کو بھی بالیدگی حاصل ہو رہی ہے، غرض ہماری زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو نظر انداز ہو رہا ہو۔ اس تمام اہتمام و انتظام سے پرورش کرنے والے کی کوئی ذاتی غرض ہے ؟ کیا وہ اپنی سلطنت کے قیام و بقا کے لیے ہمارا محتاج ہے کہ وہ اس فیاضی کے ساتھ ہمارے اوپر خرچ کرے ؟ کیا جس طرح بھیڑوں کے کسی گلے کا مالک یہ چاہتا ہے کہ اس کی بھیڑیں فربہ رہیں تاکہ وہ ان سے زیادہ سے نفع کما سکے اسی طرح کی کوئی غرض اس جہان کے رب کے سامنے بھی ہے جس کے لیے وہ ہمیں کھلا پلا اور ہماری دیکھ بھال کر رہا ہے ؟ 

انسان جب ان سوالوں پر غور کرتا ہے تو اسے صاف نظر آتا ہے کہ اس طرح کی کسی غرض کا کوئی ادنی شائبہ یہاں دور دور تک فرض بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جس ذات کی قدرت و حکمت کا ادنی کرشمہ یہ آسمان و زمین میں وہ بھلا ہم جیسے حقیر بھنگوں کی محتاج کیا ہوسکتی ہے ؟ اچھا، اگر یہ نہیں ہے تو کیا اس کائنات کے خالق و مالک پر ہمارا کوئی حق ہے، جو پہلے سے قائم ہے اور جس کے سبب سے وہ مجبور ہے کہ ہمارے لیے یہ کچھ اہتمام وہ کرے، ظاہر ہے کہ اس طرح کی کوئی چیز بھی فرض نہیں کی جاسکتی۔ جن کو وجود کی نعمت ملی ہی محض اس کے لطف و کرم کی بدولت ہو وہ بھلا اس پر اپنا کوئی حق قائم کرنے کے قابل کس طرح ہو سکتے ہیں ؟ اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے اور صاف ظاہر ہے کہ نہیں ہے تو اس کی اس تمام پروردگاری کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ رحمان اور رحیم ہے یہ اس کی رحمانیت کا جوش ہے کہ اس نے ہم کو وجود بخشا اور یہ اس کی رحیمیت کا فیض ہے کہ وہ برابر ہماری دیکھ بھال کر رہا ہے۔ 


انسان جب خدا کی پروردگاری کے اس اہتمام کو دیکھتا ہے تو یہیں سے اس پر علم و معرفت کا ایک اور دروازہ کھلتا ہے۔ یہ دروازہ ایک روز جزا و سزا کی آمد کا دروازہ ہے جس دن تنہا وہی پورے اختیار کے ساتھ انصاف کی کرسی پر بیٹھے گا، اور نافرمانوں کو ان کی نافرمانیوں کی انصاف کے ساتھ سزا دے گا اور نیکوں کو ان کی نیکیوں کا فضل و رحمت کے ساتھ صلہ دے گا۔ خدا کی پروردگاری اور اس کی رحمانیت اور رحیمیت کی نشانیاں ایک روز جزا و سزا کی آمد کو کس طرح لازم کرتی ہیں ؟ 

اس سوال کا جواب تھوڑی سی وضاحت کا طالب ہے۔ خدا کی پروردگاری سے روز جزا پر استدلال قرآن مجید نے جگہ جگہ اس طرح کیا ہے کہ جس خدا نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا اور آسمان کا شامیانہ تانا، جس نے تمہارے لیے سورج اور چاند جگمگائے، جس نے ابر و ہوا جیسی چیزوں کو تمہاری خدمت میں لگایا، جس نے تمہارے تمام ظاہری اور باطنی، روحانی اور مادی مطالبات کا بہتر سے بہتر جواب مہیا کیا، کیا اس خدا کے متعلق تم یہ گمان کرتے ہو کہ بس اس نے تمہیں یوں ہی پیدا کردیا ہے اور پیدا کرکے بس یوں ہی چھوڑ دے گا، یہ تمام کارخانہ محض کسی کھلنڈرے کا ایک کھیل ہے جس کے پیچھے کوئی غایت و مقصد نہیں ہے ؟ تم ایک شتر بے مہار کی طرح اس سرسبز و شاداب چراگاہ میں بس چرنے کے لیے چھوڑ دئیے گئے ہو، نہ تم پر کوئی ذمہ داری ہے اور نہ تم سے کوئی پرسش ہوگی ؟ 

اگر تم نے یہ سمجھ رکھا ہے تو نہایت غلط سمجھ رکھا ہے۔ پرورش کا یہ سارا اہتمام پکار پکار کر شہادت دے رہا ہے کہ یہ اہتمام کسی اہم غایت و مقصد کے لیے ہے اور یہ ان لوگوں پر نہایت بھاری ذمہ داریاں عائد کرتا ہے جو بغیر کسی استحقاق کے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک دن ان ذمہ داریوں کی بابت ایک ایسے شخص سے پرسش ہوگی اور وہی دن فیصلہ کا ہوگا۔ جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہوں گی وہ سرخ رو اور فائزالمرام ہوں گے اور جنہوں نے ان کو نظر انداز کیا ہوگا وہ ذلیل اور نامراد ہوں گے۔ 

یہ مضمون قرآن مجید میں مختلف اسلوبوں سے بیان ہوا ہے لیکن اختصار کے خیال سے صرف ایک مثال نقل کرتے ہیں۔ 

 " أَلَمْ نَجْعَلِ الأرْضَ مِهَادًا (٦)وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا (٧)وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا (٨)وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (٩)وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا (١٠)وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا (١١)وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا (١٢)وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا (١٣)وَأَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاءً ثَجَّاجًا (١٤)لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَبَاتًا (١٥)وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا (١٦)إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيقَاتًا (١٧)" (نبا : 6-17)۔ 

کیا ہم نے زمین کو تمہارے لیے گہوارہ نہیں بنایا اور اس میں  پہاڑوں کی میخیں نہیں ٹھونکیں ؟ اور ہم نے تم کو جوڑا جوڑا پیدا کیا۔ اور تمہاری نیند کو دفع کلفت بنایا۔ رات کو تمہارے لیے پردہ پوش بنایا اور دن کو حصول معاش کا وقت ٹھہرایا اور ہم نے تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بلند کیے اور روشن چراغ بنایا اور ہم نے بدلیوں سے دھڑا دھڑ پانی برسایا تاکہ اس سے ہم غلے اور نباتات اگائیں اور گھنے باغ پیدا کریں بے شک فیصلہ کا دن مقرر ہے ۔"بے شک فیصلہ کا دن مقرر ہے" 

یعنی اوپر جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ جس نے یہ کچھ اہتمام انسان کے لیے کیا ہے وہ انسانوں کو یوں ہی شتر بے مہار کی طرح چھوڑے نہیں رکھے گا بلکہ اس کی نیکی یا بدی کے فیصلہ کے لیے فیصلہ کا ایک دن بھی لائے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رحمان اور رحیم ہونے کا یہ لازمی نتیجہ قرار دیا ہے کہ ایک ایسا دن وہ لائے جس میں اچھوں اور بروں کے درمیان انصاف کرے۔ نیکو کاروں کو ان کی نیکیوں کا صلہ دے، اور بدکاروں کو ان کی برائیوں کی سزا دے۔ ایک رحمان اور رحیم ہستی کے لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ ظالم اور مظلوم، نیکو کار اور بد، باغی اور وفادار دونوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا معاملہ کرے۔ ان کے درمیان ان کے اعمال کی بنا پر کوئی فرق نہ کرے۔ نہ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دے نہ مظلوم کی مظلومیت کا ظالم سے انتقام لے۔

 اگر زندگی کا یہ کارخانہ اسی طرح ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد جزا وسزا اور انعام و انتقام کا کوئی دن آتا نہیں ہے تو اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ العیاذ باللہ اس دنیا کے پیدا کرنے والے کی نگاہوں میں متقی اور مجرم دونوں برابر ہیں بلکہ مجرم نسبتاً اچھے ہیں جن کو جرم کرنے اور فساد برپا کرنے کے لیے اس نے بالکل آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ یہ چیز بداہۃً غلط اور اس کے رحمان و رحیم ہونے کے بالکل منافی ہے چنانچہ اس نے نہایت واضح الفاظ میں اس کی تردید فرمائی۔ مثلاً "افنجعل المسلمین کالمجرمین۔ مالکم کیف تحکمون" (قلم : 36) کیا ہم اطاعت کرنے والوں کو مجرموں کی طرح کر دیں گے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ تم کیسا فیصلہ کرتے ہو ؟۔ اور اپنے رحمان اور رحیم ہونے کا یہ لازمی نتیجہ بتایا ہے کہ ایک دن وہ سب کو جمع کر کے انصاف کرے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دے گا۔ چنانچہ فرمایا ہے "کتب علی نفسہ الرحمۃ۔ لیجمعنکم الی یوم القیمۃ لا ریب فیہ" (انعام : 12) اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کرلی ہے وہ قیامت تک، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں، تم کو ضرور جمع کر کے رہے گا۔ اس آیت سے صاف واضح ہے کہ قیامت در اصل خدا کی رحمت کا مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے اس وجہ سے وہ فیصلہ کا ایک دن ضرور لائے گا جس میں وہ سب کو اکٹھا کر کے ان کے درمیان انصاف فرمائے گا۔ 

اور یہ بھی عین اس کی اس رحمت ہی کا تقاضا ہے کہ اس دن کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس کے فیصلوں میں کوئی مداخلت کرسکے اور اپنی سفارشوں سے حق کو باطل یا باطل کو حق بنا سکے بلکہ ہر ایک کے لیے بالکل بے لاگ اور پورا پورا انصاف ہوگا۔ اس سے یہ نکتہ بھی واضح ہوا کہ عدل اور رحمت میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ عدل عین رحمت ہی کا تقاضا ہے۔ 


( تدبر قرآن،   جلد اول )