صراط مستقیم کی حقیقت

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ 

"اِھدِنَا الصراط المستقیم": اِھدِنَا کا مطلب صرف اسی قدر نہیں ہے کہ ہمیں سیدھا رستہ دکھادے بلکہ اس کا مفہوم اس سے بہت زیادہ ہے۔ اس میں یہ مفہوم بھی ہے کہ اس راستہ کی صحت پر ہمارے دل مطمئن کردے، اس پر چلنے کا ہمارے اندر ذوق و شوق پیدا کردے، اس کی مشکلیں ہمارے لیے آسان کردے اور اس پر چلا دینے کے بعد دوسری پگڈنڈیوں سے محفوظ رکھ۔ یہ سارا مضمون یہاں صلہ کو حذف کردینے سے پیدا ہوتا ہے ۔"الصراط المستقیم" پر الف لام عہد کا ہے۔ اس سے مراد وہ سیدھا راستہ ہے جو بندوں کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے کھولا ہے، جو دین اور دنیا دونوں کی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے، جس پر چلنے کی دعوت نبیوں اور رسولوں نے دی ہے، جس پر ہمیشہ خدا کے نیک بندے چلے ہیں، جو قریب تر اور سہل تر ہے، جس کے ادھرادھر سے گمراہوں اور گمراہ کرنے والوں نے بہت سی کج پیچ کی راہیں نکال لی ہیں، لیکن وہ بجائے خود قائم ہے اور خدا تک پہنچنے والے ہمیشہ اسی پر چل کر خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ اسی سیدھے رستے کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ اس طرح سمجھایا کہ زمین پر ایک سیدھا خط کھینچا، پھر اس کے داہنے بائیں آڑے ترچھے خطوط کھینچ دیے، پھر فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا رستہ ہے اور یہ آڑے ترچھے خطوط پگڈنڈیاں ہیں اور ان میں سے ہر پگڈنڈی کی طرف کوئی نہ کوئی شیطان بلا رہا ہے ۔


"صراط الذین انعمت علیہم "۔ 


آدمی جس چیز سے جتنا ہی گہرا لگاؤ رکھتا ہے اس کو اسی قدر وضاحت کے ساتھ خود بھی سمجھنا چاہتا ہے اور دوسرے کو بھی سمجھانا چاہتا ہے۔ اس وجہ سے صرف اتنے ہی پر بس نہیں کیا کہ ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت بخش بلکہ اس کی پوری وضاحت بھی کردی ہے اور یہ وضاحت مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ رستہ ان لوگوں کا ہو جن پر تیرا انعام ہوا ہے اور منفی پہلو یہ ہے کہ جو نہ تو مغضوب ہوئے ہیں اور نہ گمراہ۔ اس وضاحت کے بعد مدعا اس طرح آئینہ ہو کر سامنے آگیا ہے کہ کسی اشتباہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ اس ساری وضاحت کی ضرورت اس وجہ سے نہیں تھی کہ (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ کو دعا کا مدعا سمجھنے میں کوئی غلط فہمی پیش آنے کا امکان تھا، بلکہ صرف یہ ہے کہ طالب اپنے مطلوب حقیقی کی طلب کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے اپنی بیزاری کا اظہار بھی کر رہا ہے جنہوں نے اس محبوب و مطلوب سے منہ موڑا یا اس سے بھٹک گئے نیز اپنے لیے استقامت واستواری کا بھی طلب گار ہے کہ اس راستہ کو پاجانے کے بعد اس پر قائم رہنا نصیب ہو، ان لوگوں کا حشر نہ ہو جن کو یہ رستہ ملنے کو تو ملا لیکن وہ اس کو پالینے کے بعد یا تو دیدہ دانستہ اس سے منحرف ہوجانے کے سبب سے خدا کے غضب میں مبتلا ہوئے، یا اپنی بدعت پسندیوں کی وجہ سے اس کو پا کر اس سے محروم ہوگئے۔ 


اس آیت میں تین گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک منعم علیہم۔ دوسرا مغضوب علیہم۔ تیسرا ضالین۔ مختصرا ان تینوں گروہوں کی خصوصیات بھی معلوم کرلینی چاہئیں ۔

"انعمت علیہم" میں نعمت سے مقصود در اصل ہدایت و شریعت کی نعمت ہے جس سے انسان دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کا رستہ معلوم کرتا ہے۔ فعل انعام یہاں اپنے کامل اور حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد در حقیقت وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے شریعت کی نعمت عطا فرمائی اور انہوں نے دل و جان سے اس کو قبول کیا، اس نعمت کے دیے جانے پر وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہے، اس کی خود بھی قدر کی اور دوسروں کو بھی اس کی قدر کرنے پر ابھارا، اس کے تحفظ کے لیے انہوں نے اپنی قوتیں اور قابلیتیں بھی صرف کیں، مال بھی قربان کیے اور اگر ضرورت پیش اائی تو اس کی راہ میں جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ یہاں بات اجمال کے ساتھ کہی گئی ہے اس وجہ سے واضح نہیں ہوتا کہ یہ اشارہ کس گروہ کی طرف ہے لیکن ایک دوسری آیت میں اس انعام یافتہ گروہ کی وضاحت ہوگئی ہے۔ "فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین" (نساء :69)۔ پس یہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا انعام فرمایا انبیاء، صدیقین، شہداء، اور صالحین کے ساتھ ۔

"مغضوب علیہم" میں فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح براہ راست نہیں ہے جس طرح انعام کے ذکر میں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سوء ادب سے احتراز ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انعام ہمیشہ اور ہر حال میں بندہ پر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، برعکس اس کے خدا کے غضب کا مستحق بندہ اپنے اعمال کے سبب سے خود بنتا ہے ۔"مغضوب علیہم" سے مراد دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کی نعمت نازل فرمائی لیکن انہوں نے اپنی سرکشی کے سبب سے نہ صرف یہ کہ اس کو قبول نہیں کیا، بلکہ اس کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور جن لوگوں نے اس کو ان کے سامنے پیش کیا ان کی بیخ کنی اور قتل کے درپے ہوئے جس کی پاداش میں ان پر خدا کا غضب نازل ہو اور وہ ہلاک کردئیے گئے۔ دوسرے وہ لوگ جنہوں نے قبول تو کیا لیکن دل کی آمادگی کے ساتھ نہیں قبول کیا بلکہ مارے باندھے قبول کیا، پھر بہت جلد شہواتِ نفس میں پڑ کر انہوں نے اس کے کچھ حصہ کو ضائع کردیا، کچھ حصہ میں کتر بیونت کر کے اس کو اپنی خواہشات کے مطابق بنا لیا اور جن لوگوں نے ان کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی یا ان کو صحیح راستہ پر لانا چاہا انہوں نے ان میں سے بعض کو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل کردیا۔ پچھلی امتوں میں اس کی سب سے واضح مثال یہودی ہیں۔ چنانچہ ان کے معتوب و مغضوب ہونے کا ذکر قرآن میں تصریح کے ساتھ ہوا بھی ہے۔ مثلاً :من لعنہ اللہ و غضب علیہ وجعل منہم القردۃ والخنازیر" (مائدہ :60)۔ "وضربت علیہم الذلۃ والمسکنۃ وباءو بغضب من اللہ" (بقرہ :61) جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر اس کا غضب ہوا اور جن کے اندر سے اس نے بندر اور خنزیر بنائے۔ اور ان کے اوپر ذلت و مسکنت تھوپ دی گئی اور وہ خدا کا غضب لے کر پلٹے ۔

"ضالین" سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دین میں غلو کیا، جنہوں نے اپنے پیغمبر کا رتبہ اتنا بڑھایا کہ اس کو خدا بنا کر رکھ دیا، جو صرف انہی عبادتوں اور طاعتوں پر قانع نہیں ہوئے جو اللہ اور اللہ کے رسول نے مقرر کی تھیں بلکہ اپنے جی سے رہبانیت کا ایک پورا نظام کھڑا کردیا، جنہوں نے اپنے اگلوں کی ایجاد کی ہوئی بدعتوں اور گمراہیوں کی آنکھ بند کر کے پیروی کی اور اس طرح صراطِ مستقیم سے ہٹ کر گمراہی کی پگڈنڈیوں پر نکل گئے۔ پچھلی امتوں میں سے اس کی نہایت واضح مثال نصاریٰ ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید نے انہی وجوہ کی بنا پر جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، ان کو گمراہ اور گمراہ کرنے والے قرار دیا ہے۔ مثلاً "یَا اھلَ الکِتاَب لاتغلو فی دینکم غیر الحق ولا تتبعوا اھواء قوم قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرا وضلوا عن سواء السبیل" (مائدہ : 77)۔ کہہ دو اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشوں (بدعتوں) کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے گمراہ چلے آرہے ہیں اور جنہوں نے بہتوں کو خدا کے رستہ سے بھٹکایا اور جو خود بھی اس کے رستہ سے بھٹکے ۔



(تدبر قرآن جلد اول)