قرآن مجید کے بنیادی علوم - جاوید احمد غامدی

قرآن میں پانچ قسم کے علوم کا ذکر ہوا ہے۔ ان علوم کو علماء کی تشریح کے مطابق علمِ تذکیر بآلاءِ اللہ، علمِ احکام، علمِ عقائد، علمِ تاریخ، علمِ موعظت اور علمِ آخرت کہا جا سکتا ہے۔ بعض علماء نے ان علوم کو بالاختصار علم توحید، علمِ رسالت اور علمِ آخرت بھی کہا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے قرآن کے جملہ علوم کی زمرہ بندی اس طرح کی ہے ۱؂

1۔ علمِ احکام: واجب، مستحب، مکروہ، حلال و حرام۔ ان احکام کا تعلق عبادت، تدبیرِمنزل (معاشرت) اور سیاست مدن وغیرہ سے ہے۔
 
2۔ علمِ مناظرہ: چاروں گم راہ فرقوں، یعنی یہود و نصاریٰ، مشرکین اور منافقین کے بارے میں بحث۔
 
3۔ علمِ تذکیر بآلاءِ اللہ: اللہ کی نشانیوں اور انعامات کا ذکر، یعنی تخلیقِ ارض و سما اور خدا کی صفات کاملہ کا بیان۔
 
4۔ علمِ تذکیر بایّامِ اللہ:
ان واقعات کا ذکر جو خدا کی اطاعت کرنے والوں کی جزا اور مجرموں کی سزا سے متعلق ہیں۔
 
5۔ علمِ تذکیر بالموت: حشر و نشر، حساب، میزان اور جنت و دوزخ کا بیان۔
 
جدید دور کے علماء و فضلاء نے علومِ قرآن کی تقسیم ایک دوسرے زاویۂ نگاہ سے کی ہے۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال نے حکیم عرشی امرت سری سے ایک بار دورانِ گفتگو فرمایا کہ ’’علم کے چار ذریعے ہیں اور قرآن مجید نے ان چاروں کی طرف رہ نمائی کی ہے۔ مسلمانوں نے ان کی تدوین کی اور دنیائے جدید اس باب میں ہمیشہ مسلمانوں کی منت کش رہے گی۔ 

۱- پہلا ذریعہ وحی ہے او ر وہ ختم ہو چکا ہے۔ 

۲- دوسرا ذریعہ آثارِ قدیمہ اور تاریخ ہے جس پر قرآن کی آیات متوجہ کر رہی ہیں۔ ’’سیروا فی الارض‘‘، اس آیت سے علمِ آثار کی بنیاد رکھ دی جس پر مسلم مصنّفین نے عالی شان قصر تعمیر کیے۔ ’’ذکّر ہم بایّام اللّٰہ‘‘، یہ آیت تاریخ کا ابتدائی نقطہ ہے جس نے ابن خلدون جیسے باکمال محقق پیدا کیے۔ 

۳- علم کا تیسرا ذریعہ علم النفس ہے جس کا آغاز ’’وفی انفسکم افلا تبصرون‘‘ سے ہوتا ہے۔ اس علم کو حضرت جنید بغدادیؒ اور ان کے رفقاء نے کمال تک پہنچایا۔ 

۴- آخری ذریعہ صحیفۂ فطرت ہے، جس پر قرآن کی بے شمار آیات دلالت کر رہی ہیں، مثلاً ’’والی الارض کیف سطحت‘‘۔ اس پر علماء اندلس نے بہت توجہ مبذول کی۔ (اس کے بعد) علامہ اقبال نے کہا کہ موجودہ دنیا اپنے تمام علوم و تہذیب اور صنائع و بدائع سمیت مسلمانوں کی مخلوق ہے ۲؂ ۔‘‘
 
راقم کے نزدیک قرآن کے علومِ پنجگانہ کی مذکورہ تشریح میں کئی نقائص اور کمیاں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کو کسی افراط و تفریط کے بغیر اس طرح بیان کیا جائے جس طرح قرآن میں ان کا ذکر آیا ہے۔ علماء کی تقسیمِ علوم اور ان کی اصطلاحوں کو باقی رکھتے ہوئے آگے علوم قرآن کی وضاحت کی گئی ہے۔

 
1۔ تذکیر بآلاءِ اللہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصّہ وہ ہے جس کا تعلق ان بے شمار نعمتوں سے ہے جو اس کائنات کے گوشے گوشے میں بکھری ہوئی ہیں اور انسان ان سے شب و روز متمتّع ہوتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ان نعمتوں سے مستفید ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے خالق و محسن کو پہچانیں اور اس کے احسانات کے اعتراف کے ساتھ اس کا حق بھی ادا کریں۔ قرآن میں بکثرت مقامات پر ان نعمتوں کی طرف انسانوں کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے تاکہ انھیں محسنِ حقیقی کا عرفان حاصل ہو۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا ہے:
 
فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖٓ. اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّا. ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا. فَاَنْبَتْنَا فِیْھَا حَبًّا. وَّعِنَبًا وَّ قَضْبًا. وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلاً. وَّحَدَآءِقَ غُلْبًا. وَّفَاکِھَۃً وَّاَبًّا. مَّتَاعًا لَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ. ( عبس۸۰: ۲۴۔۳۲)
 
’’انسان کو چاہیے کہ اپنی غذا کو دیکھے، ہم نے خوب پانی برسایا، پھر زمین کو پھاڑا، پھر اس کے اندر غلّے، انگور، ترکاریاں، زیتون، کھجوریں، گھنے باغ اور میوے اور چارے اُگائے، تمہارے لیے سامانِ زیست کے طور پر اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی۔‘‘
 
دوسری جگہ فرمایا:
 
وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآءِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ. (النحل۱۶: ۶۶)
 
’’اور تمہارے لیے چوپایوں میں بھی جائے غور و فکر ہے۔ ان کے شکم میں گوبر اور خون کے درمیان سے ہم تمھیں ایک چیز پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ جو پینے والوں کے لیے نہایت خوش گوار ہے۔‘‘

ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے:

قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُاللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِضِیَآءٍط اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ. قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّھَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُاللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ. وَمِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.(قصص۱۸: ۷۱۔۷۳)
 
’’اے پیغمبر ان سے کہو، کیا تم لوگوں نے کبھی غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ رات ہی طاری رہنے دے تو اللہ کے سوا کون ہے جو تمہارے لیے روشنی لائے۔ کیا تم اس بات پر کان نہ دھرو گے؟ ان سے کہو، کیا تم لوگوں نے کبھی سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ دن ہی رہنے دے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمھیں رات لا کر دے، جس میں تم آرام پاؤ۔ کیا تم (خدا کی اس نعمت کو) دیکھتے نہیں؟ یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات میں سکون و راحت پاؤ اور دن میں اپنے رب کا فضل (یعنی روزی) تلاش کرو اور تاکہ تم (ان نعمتوں پر) اس کا شکر ادا کرو۔‘‘

ایک اور مقام پر بڑے بلیغ اسلوب میں فرمایا گیا ہے:

اَفَرَءَ یْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ. ءَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ. لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنٰہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَکَّھُوْنَ. اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ. بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ. اَفَرَءَ یْتُمُ الْمَآءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ. ءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِاَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ. لَوْ نَشَآءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْ لَا تَشْکُرُوْنَ. اَفَرَءَ یْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ. ءَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَھَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِءُوْنَ. نَحْنُ جَعَلْنٰھَا تَذْکِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَ. (واقعہ۵۶:۶۳۔۷۳)
 
’’کیا تم نے کبھی سوچا، یہ جو تم کھیتی کرتے ہو، اس کو تم (زمین سے) اُگاتے ہو یا ہم اُگاتے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اس کو بھس بنا کر رکھ دیں اور تم باتیں ہی بناتے رہو کہ ہم تو تاوان زدہ ہو گئے، کیا کبھی تم نے سوچا، یہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کو ہم برساتے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری بنا دیں۔ (جب حقیقت یہ ہے تو) پھر تم شکر گزار کیوں نہیں بنتے؟ تم نے کبھی سوچا، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو، اس کے درخت تم نے پیدا کیے ہیں یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ ہم نے اس کو یاد دہانی اور صحرا کے مسافروں کے لیے فائدے کی چیز بنایا ہے۔‘‘

جن نعمتوں کا ذکر اوپر کی آیات میں ہوا ،وہ خدا کی بالکل کھلی ہوئی نعمتیں ہیں اور ہر عالم و جاہل ہر روز انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھاتا ہے، پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگ محسنِ حقیقی کے عرفان سے قاصر رہتے ہیں۔

 
2۔ علمِ تذکیر بآلاءِ اللہ کا دوسرا حصّہ وہ ہے جو کائنات کے آثار و حوادث سے تعلق رکھتا ہے۔ آثار و مظاہر فطرت دراصل خدا کے علم و قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اگر ایک صاحب علم انسان کھلے دل و دماغ کے ساتھ آثارِ کائنات پر غور و فکر کرے تو وہ ہر قدم پر محسوس کرے گا کہ یہ کائنات کوئی بازیچۂ اطفال نہیں ہے ،بلکہ ایک عزیز و قدیر اور علیم و حکیم ہستی کا کارخانۂ خلق و ایجاد ہے، جہاں ہر طرف حیران کن علم کی جلوہ گری اور بے مثال نظم و قانون کی حکمرانی ہے۔ ایک ہی طاقت و ارادہ ہے جو ہر جگہ غالب و نافذ ہے۔ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز ایک نظام عمل کی پابند ہے اور ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خدا کے مقرر کردہ قوانین کے دائرہ سے ایک ثانیہ کے لیے بھی قدم باہر نکال سکیں۔
 
قرآن کی متعدد آیات میں کائنات کی اس حکیمانہ خوبی اور اس کے حیرت انگیز نظم و قانون کی طرف تمام ہوش مند انسانوں کو متوجہ کیا گیا ہے اور اربابِ علم و عقل کو غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے تاکہ اس ہستی برتر کا انھیں عرفان حاصل ہو جو اس کائناتِ بے کراں کی خالق و آمر ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل آیات بڑی اہمیت رکھتی ہیں:


1۔ َفَلَمْ یَنْظُرُوْٓا اِلَی السَّمَآءِ فَوْقَھُمْ کَیْفَ بَنَیْنٰھَا وَزَیَّنّٰھَا وَمَا لَھَا مِنْ فُرُوْجٍ. وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰھَا وَاَلْقَیْنَا فِیْھَا رَوَاسِیَ وَاَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ م بَھِیْجٍا. تَبْصِرَۃً وَّذِکْرٰی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ. (ق۵۰: ۶۔۸)
 
’’کیا انھوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا؟ ہم نے اسے کیسا بنایا اور کس خوبی سے اس کو آراستہ کیا ہے۔ اس میں کہیں کوئی شگاف نہیں ہے۔ اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ نصب کیے اور اس کے اندر ہر طرح کی خوش نما چیزیں اُگائیں۔ اس میں سامانِ دید ہے اور یاد دہانی بھی، ہر اس بندے کے لیے جو (خدا کی طرف) رجوع کرنے والا ہو۔‘‘


2۔َفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍقف وَنُفَضِّلُ بَعْضَھَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ. (رعد۱۳: ۴)
 
’’اور زمین میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے کئی خطّے ہیں، انگور کے باغ ہیں اور کھجور کے درخت ہیں، جن میں کچھ اکہرے (ایک تنہ والے) اور کچھ دہرے (دو تنہ والے)، سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزہ میں ہم ایک کو دوسرے پر برتری دیتے ہیں۔ ان چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو سمجھ رکھتے ہیں۔‘‘
 
3۔ وَمِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ. (روم۳۰: ۲۲)
 
’’اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف بھی ہے۔ یقیناًاس میں بہت سی نشانیاں ہیں اصحابِ علم و دانش کے لیے۔‘‘

4۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًج فَاَخْرَجْنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُھَا وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌم بِیْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُھَا وَغَرَابِیْبُ سُوْدٌ وَمِنَ النَّاس وَالدَّوَآبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ کَذٰلِکَ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمآؤُا اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ. (فاطر۳۵: ۲۷۔۲۸)
 
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ ہی نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے سے ہم نے پھل پیدا کیے، جن کے رنگ مختلف ہیں۔ اور پہاڑوں کے بھی مختلف حصّے ہیں (بعض) سفید اور سرخ، ان کے بھی رنگ مختلف ہیں، اور (بعض) بہت گہرے سیاہ رنگ کے۔ اسی طرح آدمیوں،جانوروں اور چوپایوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے وہی لوگ اس سے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ ے شک،اللہ بڑا زبردست اور بہت بخشنے والا ہے۔‘‘

ان آیات سے بالکل واضح ہے کہ قرآن میں خدا شناسی کے جو دلائل دیے گئے ہیں ،وہ انسان کی عقل اور اس کی فطرت ،دونوں کو بغایت اپیل کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر عقل پختہ اور تربیت یافتہ ہو اور خارجی اثرات سے مغلوب ہو کر کج رو اور کج اندیش نہ ہو گئی ہو تو کائنات کے آثار و حوادث کے مشاہدہ سے وہ حقیقت الحقائق (Ultimate Truth) تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔ اسی بات کو اوپر کی آیت میں ’’انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء‘‘ کہا گیا ہے۔
 
میں یہاں دورِ جدید کے ایک ممتاز ریاضی داں اور ماہرِ علم فلکیات (Astronomer) سر جیمز جینس(Sir James Jeans) سے متعلق ایک واقعہ ذکر کروں گا جس کے راوی علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
 
’’۱۹۰۹ء کا ذکر ہے، اتوار کا دن تھا اور زور کی بارش ہو رہی تھی۔ میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہور ماہر فلکیات سر جیمس جینز پر نظر پڑیی جو بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جا رہے تھے۔ میں نے قریب ہو کر سلام کیا۔ انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ دوبارہ سلام کیا تو وہ متوجہ ہوئے اور کہنے لگے، ’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا دو باتیں۔ اول یہ کہ زور سے بارش ہو رہی ہے اور آپ نے چھاتا بغل میں داب رکھا ہے۔ سر جمیز اپنی بدحواسی پر مسکرائے اور چھاتا تان لیا۔ دوم یہ کہ آپ جیسا شہرۂ آفاق عالمِ سائنس گرجا میں عبادت کے لیے جا رہا ہے، یہ کیا؟ میرے اس سوال پر پروفیسر جمیز لمحہ بھر کے لیے رک گئے اور پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا، آج شام کو چائے میرے ساتھ پیو۔
 
چنانچہ میں شام کو ان کی رہائش گاہ پہنچا۔ ٹھیک ۴ بجے لیڈی جیمز نے باہر آ کر کہا، ’’سر جیمز تمہارے منتظر ہیں۔‘‘ اندر گیا تو ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے، کہنے لگے، ’’تمہارا کیا سوال تھا؟‘‘ اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر اجرام آسمانی کی تخلیق، ان کے حیرت انگیز نظام، بے انتہا پہنائیوں اور فاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں نیز باہمی کشمکش اور طوفان ہائے نور پر وہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس داستانِ کبریا و جبروت پر دہلنے لگا اور ان کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ سر کے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے، آنکھوں سے حیرت و خشیّت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں، اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی۔ فرمانے لگے، عنایت اللہ خاں! جب میں خدا کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی اللہ کے جلال سے لرزنے لگتی ہے اور جب کلیسا میں خدا کے سامنے سرنگوں ہو کر کہتا ہوں ’’تو بہت بڑا ہے‘‘ تو میری ہستی کا ہر ذرّہ میرا ہم نوا بن جاتا ہے۔ مجھے بے حد سکون اور خوشی نصیب ہوتی ہے ۔ مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے۔ کہو عنایت اللہ خاں، تمہاری سمجھ میں آیا کہ میں گرجے کیوں جاتا ہوں۔
 
علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسر جمیز کی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کر دیا۔ میں نے کہا، جناب والا! میں آپ کی روح افروز تفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یاد آ گئی ہے، اگر اجازت ہو تو پیش کروں۔ فرمایا، ضرور۔ چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی:

وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌم بِیْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُھَا وَغَرَابِیْبُ سُوْدٌ. وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ کَذٰلِکَ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمآؤُا. (فاطر۳۵: ۲۷۔۲۸)
 
’’پہاڑوں کے بھی مختلف حصے ہیں، (بعض) سفید اور سرخ، ان کے بھی رنگ مختلف ہیں، اور (بعض) بہت گہرے سیاہ رنگ کے۔ اور اسی طرح آدمیوں، جانوروں اور چوپایوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔ اللہ کے بندوں میں سے صرف اہلِ علم ہی اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘

یہ آیت سنتے ہی پروفیسر جیمز بولے، کیا کہا، اللہ سے صرف اہلِ علم ڈرتے ہیں، حیرت انگیز، بہت عجیب۔ یہ بات مجھے پچاس برس مسلسل مطالعہ و مشاہدہ کے بعد معلوم ہوئی، محمد کو کس نے بتائی؟ کیا قرآن میں واقعی یہ آیت موجود ہے؟ اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے۔ محمدؐ اَن پڑھ تھے۔ انھیں یہ عظیم حقیقت خود بخود معلوم نہیں ہو سکتی۔ انھیں یقیناًاللہ نے بتائی تھی۔ بہت خوب، بہت عجیب۴؂ ۔
 
علامہ مشرقی سے پروفیسر جیمز کی مذکورہ گفتگو ایک دفترِ بصیرت اور ہر صاحب نظر کے لیے ایک ایمان افروز سبق۔ اس عجیب و غریب واقعہ کا ذکر مولانا عبدالماجد دریا آبادی مرحوم نے بھی اپنے رسالہ ’’صدق‘‘ مورخہ ۲/ فروری ۱۹۵۳ء کی اشاعت میں کیا ہے۔
 
2۔ احکام کا تعلق بندۂ مومن کے طرز عمل سے ہے۔ خدا کی ذات پر ایمان لانے کے بعد اس پر بقدرِ استطاعت خدا کے مقرر کردہ احکام و قوانین کی پابندی لازم ہو جاتی ہے۔ یہ احکام دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق اعمالِ پرستش سے ہے۔ یہ احکامِ عبادت ہیں اور ناقابلِ تغیر ہیں۔ دوسرے وہ احکام ہیں جن کا تعلق انسان کی اجتماعی زندگی سے ہے۔ اس زمرہ میں معاشرتی، اقتصادی و سیاسی اور اخلاقی احکام داخل ہیں۔ اخلاقی احکام کو چھوڑ کر بقیہ احکام میں حالاتِ زمانہ کی تبدیلی کے لحاظ سے حسب ضرورت ترمیم و اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسی کا نام اجتہاد ہے۔
 
قرآن میں زیادہ تر احکام کے اصول و کلیات بیان کیے گئے ہیں اور بعض کے جزئیات بھی۔ ان تمام کلی اور مخصوص جزئی احکام کے معنی و مفہوم کو قرآن میں مختلف طریقوں سے خوب اچھی طرح واضح کر دیا گیا ہے۔ اب کسی شخص کو خواہ وہ اپنے وقت کا کتنا ہی بڑا عالم اور فقیہ کیوں نہ ہو، یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ان کے معنی و مفہوم میں کوئی ادنیٰ حذف و اضافہ کرے۔ علماء اور فقہاء کا کام صرف یہ ہے کہ وہ قرآن کے کلی اصولوں کے مطابق صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ سنتوں میں زمانہ کے احوال و طروف کی رعایت کے ساتھ ہر دور میں جزئی احکام کی تخریج کریں۔
 
3۔ علمِ تذکیر بایّام اللہ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، دراصل علمِ تاریخ ہے۔ اس کو مذہبی اصطلاح میں علمِ قصص کہا جاتا ہے۔ یہ ایک مذہبی تاریخ ہے جس میں اخلاقی اور دعوتی عنصر غالب ہے۔ اس اعتبار سے اس تاریخ کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ اس میں حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر آخری نبیؐ تک کی اہم قوموں اور ان میں مبعوث ہونے والے قابل ذکر پیغمبروں کے احوال و واقعات بیان کیے گئے ہیں۔
 
ان واقعات کے بیان کرنے کی ایک بڑی غرض انذار اور عبرت آموزی ہے۔ چنانچہ ایک طرف آخری نبی کے مخاطبین کو بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی نئی دعوت نہیں ہے، بلکہ پچھلی دعوتوں ہی کی تجدید اور ان کی تکمیل ہے، تو دوسری طرف حق کے منکرین کو خبر دار کیا گیا ہے کہ سنت اللہ کے مطابق ایک دن ان کو بھی اسی انجامِ بد سے دوچار ہونا ہے جس سے ان سے پہلے کی سرکش قومیں دوچار ہو چکی ہیں۔ اسی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسکین و تشفی دی گئی ہے کہ حق و باطل کی اس لڑائی میں حق کو فتح حاصل ہو گی اور باطل سرنگوں ہو گا۔ اس باب میں اللہ کی سنت ناقابلِ تغیر ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
 
وَکُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ وَجَآءَ کَ فِی ھٰذِہِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَۃٌ وَّ ذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ. (سورۂ ہود۱۱: ۲۰)
 
’’اور رسولوں کے احوال میں سے یہ سارے قصے ہم تم سے بیان کرتے ہیں (اور غرض یہ ہے) کہ ان کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو تقویت دیں، (اس کو جمائے رکھیں) اور جو حق بات ان قصّوں میں ہے وہ تم تک پہنچ چکی ہے اور (اس میں) مومنوں کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہے۔‘‘
 
دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے:
 
حَتّٰٓی اِذَااسْتَیْئس الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوْا جَآءَ ھُمْ نَصْرُنَالا فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآءُ وَلَایُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ. لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ. (سورۂ یوسف۱۲: ۱۱۰۔۱۱۱)
 
’’یہاں تک کہ پیغمبر بالکل مایوس ہو گئے اور انھوں نے خیال کیا کہ (کفار پر عذاب آنے کے معاملے میں) ان سے حق بات نہیں کہی گئی، (ٹھیک اس وقت) ہماری مدد ان کے پاس پہنچ گئی، پھر (اس عذاب سے) ہم نے جس کو چاہا بچا لیا اور ہمارا عذاب مجرموں سے پھرتا نہیں (یعنی واقع ہو کر رہتا ہے)۔ ان (انبیاء) کے قصوں میں عقل مندوں کے لیے عبرت ہے، (وہ ان سے سبق لیں۔‘‘

تاریخی واقعات کے بیان سے قرآن کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ اہلِ ایمان اس سے یاد دہانی حاصل کریں، جیسا کہ سورۂ ہود کی مذکورہ آیت میں فرمایا گیا ہے ’’و ذکریٰ للمومنین‘‘۔ اس سلسلے میں قرآن میں خاص طور اہلِ کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں کے واقعات مکرّر بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان دیکھ لیں کہ ان کی دینی اور دنیوی بربادی کے اسباب کیا تھے۔ مثلاً یہودیوں کے مذہبی افتراق اور فرقہ بندی کے حوالے سے فرمایا گیا ہے:

وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْم بَعْدِ مَاجَآءَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ. (سورۂ آل عمران۳: ۱۰۵)
 
’’ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو متفرق ہو گئے اور جنھوں نے اختلاف کیا جب کہ ان کے پاس حق کے واضح دلائل آ چکے تھے۔‘‘


عیسائی علماء اور درویشوں کے خلافِ توحید افعال اور ان کے دنیا پرستی کے ذکر میں ارشاد ہوا ہے:


یااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَ حْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِی ْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ.(سورۂ توبہ۹: ۳۴)
 
’’اے ایمان والو، اکثر علماء اور مشائخ لوگوں کا مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ (یعنی توحید) سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ (حبّ دنیا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ) سونا اور چاندی کو ذخیرہ کر کے رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اس کو خرچ نہیں کرتے ان کو ایک درد ناک عذاب کی خبر دے دو۔‘‘

قرآنی قصص کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ بہت اجمال کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، یہاں تک کہ بعض قصّوں میں صرف اشارے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ صرف تین سورتوں، یوسف، کہف، مریم، میں واقعات کو قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اجمال ہو یا تفصیل، دونوں با مقصد ہیں۔ جہاں اجمال ہے وہاں ہدایت کے نقطۂ نظر سے اجمال ہی مطلوب ہے اور جہاں تفصیل ہے وہاں تذکیر کا پہلو متقاضی تھا کہ اس کو کھول کر بیان کیا جائے۔
 
یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ انسان کی فطرت میں قصہ گوئی کی طرف طبعی میلان پایا جاتا ہے او رقصوں سے اس کو یک گونہ شغف ہے۔ اگر داستان دلچسپ ہو تو اس کا یہ طبعی میلان اور بڑھ جاتا ہے۔ قصوں کی تفصیل سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ قاری یا سامع کا ذہن داستان کی نیرنگی اور بوالعجمی میں کھو جاتا ہے اور اس کا تذکیری پہلو نظر انداز ہو جاتا ہے۔ چونکہ قرآن کا مقصد داستان گوئی نہیں ہے، اس لیے ہر جگہ واقعات کے بیان میں اختصار کو ترجیح دی گئی ہے تاکہ عبرت و موعظت کا پہلو جو مقصودِ داستان ہے، نگاہوں سے اوجھل نہ ہو۔
 
بہت سے مفسرین نے قرآنی قصوں کے اجمال کی اس غرض و غایت کو نہیں سمجھا اور ان کی تفصیل کے درپے ہو گئے۔ چنانچہ انھوں نے قرآن کے مجمل قصوں کی تفصیل یا وضاحت کی غرض سے موضوع احادیث اور اسرائیلی روایات کو کسی نقد و تحقیق کے بغیر نقل کر دیا ہے، حتی کہ بیہودہ روایات کو بھی قبول کر لیا گیا ہے۔ مثلاً تفسیر ابن کثیر میں جو تفسیری طبری کا ملخّص ہے، ہاروت اور ماروت کی داستانِ عشق دیکھ لیں۵؂ ۔ اسی طرح ’وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَیْمٰنَ وَاَلْقَیْنَا عَلٰی کُرْسِیِّہٖ جَسَدًا‘ (سورۂ ص۔۳۴) کی تفسیر میں بالکل بے سروپا روایات بیان کی گئی ہیں۶؂ ۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے لکھا ہے کہ ’لقدفتنا سلیمان‘ کا محل جب کہ حدیث میں انشاء اللہ کے ترک کرنے اور اس پر مواخذہ کا ذکر ہوا ہے تو کیا ضرورت تھی کہ ضحرہ کا قصہ بیان کیا جائے۷؂ ۔
 
اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کے کسی مجمل قصہ کی تفصیل کرنا کوئی کارِ گناہ ہے۔ اصولی طور پر یہ بات پیش نظر رکھی جائے کہ قرآن میں جہاں قصوں کے بعض جزئیات چھوڑ دیے گئے ہیں ،ان کی تلاش و جستجو میں نہ پڑا جائے، کیونکہ تذکیر کے لحاظ سے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ترک خود اس بات کی دلیل ہے کہ متروک اجزاء غیر ضروری تھے۔
 
قرآنی قصص کی ایک قابلِ ذکر خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں اختلافی امور کو نظر انداز کر کے قصّے کے مرکزی خیال کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورۂ کہف میں اصحابِ کہف اور ان کے کتوں کی تعداد اور غار میں ان کی مدتِ قیام کے بارے میں پہلے سے مختلف رائیں تھیں (آیات ۲۲ تا ۲۵)، اس لیے قرآن نے ان کو مبہم ہی رہنے دیا اور ان غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کر کے قصہ کی اصل روح کو نمایاں کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ نیکو کار بندوں کی مدد کے سلسلے میں خدا کا وعدہ سچا ہے (سورۂ کہف۔ ۲۱)۔ لیکن مفسرین نے حسب عادت اس اختلافی مسئلے میں قیاس آرائی سے گریز نہیں کیا ہے۔
 
غیر نزاعی واقعات میں کسی اجمال کی تفصیل غیر محمود نہیں ہے۔ جہاں محسوس ہو کہ اجمال کی تفصیل سے واقعہ زیادہ قابلِ فہم اور اس کا تذکیری پہلو مزید نمایاں ہو گا، یا اس سے قرآن کا اعجاز ظاہر ہو گا، یا اس سے قرآن کے کسی بیان کی تصدیق ہو گی تو وہا ں تفصیل و توضیح میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً درج ذیل آیات کی تفصیل مفید ہو گی:
 
اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ. (سورۂ انبیاء۲۱: ۱۰۵)
 
وَقَضَیْنَآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ. (سورۂ بنی اسرائیل۱۷: ۴)
 
وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ. (سورۂ صف۶۱: ۶)
 
اسی طرح سورۂ ابو لہب، سورۂ کوثر اور سورۂ روم میں جو تاریخی پیشن گوئیاں ہیں، ان کی تفصیل میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ یہ تفصیل مفید ہو گی کیونکہ اس سے قرآن کے کلام الہٰی ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ وہ قصے جو قرآن میں مجمل لیکن تورات میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، ان کی تفصیل کی جا سکتی ہے۔ اس سے تفہیم آیت میں مدد ملے گی۔ ابتدائی چار سورتوں (بقرہ، آل عمران، نسآء، مائدہ) میں اہلِ کتاب سے متعلق ایسے کئی واقعات ہیں جو اجمال کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
 
قرآن میں بیان کردہ بعض واقعات تورات کے بیان سے مختلف ہیں۔ اگر عقلی و علمی اور تاریخی شواہد کی روشنی میں ان واقعات کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو اس سے قرآنی بیان کی صداقت ثابت ہو گی۔ مثلاً آدم و حوا کا قصہ اور سلیمان علیہ السلام کی طرف علم سحر کی نسبت وغیرہ۔
 
4۔ علمِ مباحثہ کا تعلق اس طریقۂ استدلال سے ہے جو قرآن میں مشرکینِ عرب، منافقین مدینہ اور یہود و نصاریٰ کے عقائد و اعمال کی تردید میں اختیار کیا گیا ہے۔ اس کو معروف علمِ مناظرہ پر قیاس کرنا صحیح نہ ہو گا جو تمام تر جدلی اور کلامی نوعیت کا علم ہے۔ اس سے مذہبی نزاع تو کیا ختم ہو گی، اس میں کچھ مزید اضافہ ہو جائے گا۔ قرآن کا طریقۂ بحث و مجادلہ بالکل فطری اور سادہ مگر عقلی براہین پر مبنی ہے۔ مثلاً تعددِ الہٰ کی تردید میں جو عقلی دلیل دی گئی ہے وہ کتنی مضبوط اور فیصلہ کن ہے۔ فرمایا گیا ہے:

لَوْکَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا. (سورۂ انبیاء ۲۱: ۲۲)
 
’’اگر آسمانوں اور زمین میں ایک اللہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہوتا تو ان کا نظم و انتظام درہم برہم ہو جاتا۔‘‘
 
شرک کی تردید میں آفات و حوادث کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان نازک مواقع پر اکثر انسان سب سہاروں کو بھول کر خدا ہی کو پکارتے ہیں، بالخصوص ان حالات میں جب نجات کے سارے ظاہری اسباب و وسائل معدوم نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں شرک نہیں، توحید ہے۔ ماحول کے غلط اثر کی وجہ سے یہ اصل فطرت محجوب ہو جاتی ہے ،لیکن مصائب اس عارضی حجاب کو اٹھا دیتے ہیں اور اس کی اصل فطرت بے نقاب ہو جاتی ہے۔ اس صورتِ حال کی طرف قرآن کی متعدد آیات میں اشارے کیے گئے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ ہے:

هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنْجَيْتَنَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ (٢٢) (سورۂ یونس۱۰: ۲۲)

’’وہ اللہ ہی تو ہے جو تم کو خشکی اور تری ،دونوں میں سفر کراتا ہے، حتیٰ کہ (بعض اوقات) جب تم کشتیوں میں سوار ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو بادِ موافق کے سہارے لے کر چلتی ہیں اور وہ اس سے شادمانی محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ (اچانک) بادِ مخالف کا ایک جھونکا آتا ہے اور سمندر کی لہریں ہر طرف سے ان پر آ پڑتی ہیں اور وہ یقین کر لیتے ہیں کہ بالکل گھر چکے ہیں، (اس وقت) وہ خلوص اور للّٰہیت کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں کہ اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دی تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے۔‘‘

عیسائیوں کے عقیدۂ الوہیتِ مسیح کی تردید میں جو عقلی دلیل دی گئی ہے، وہ مختصر لیکن انتہائی مسکت ہے۔ ارشاد ہوا ہے: کَانَا یَاْکُلٰنِ الطَّعَامَ (سورۂ مائدہ ۵: ۷۵) ’’وہ دونوں (مریم و عیسیٰ) کھانا کھاتے تھے۔‘‘ یہودیوں کو اپنی بد اعمالیوں اور نافرمانیوں کے باوجود یہ گھمنڈ تھا کہ حضرت ابراہیمؑ اور ران کی ذرّیت سب یہودی تھے۔ اور عیسائی کہتے تھے کہ وہ سب عیسائی تھے (سورۂ بقرہ: ۱۴۰)۔ ان کی اس خوش گمانی کے جواب میں نہایت مختصر لیکن دل میں اتر جانے والی بات کہی گئی ہے۔ فرمایا ہے:


تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ وَ لَا تُسْءَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ. (سورۂ بقرہ۱: ۱۴۱)
’’یہ (خدا رسیدوں کی) ایک جماعت تھی جو (دنیا سے) جا چکی، اس کے لیے اس کی کمائی ہے اور تمہارے لیے تمہاری کمائی، تم سے ان کے کاموں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔‘‘

اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں، دو نوں نے جہالت اور مذہبی تعصب کی وجہ سے ہدایت کے معاملے کو ایک قومی اور نسلی معاملہ بنا دیا تھا اور دعوے سے کہتے تھے کہ وہی لوگ ہدایت پر ہیں جو یہودی اور عیسائیوں کے بقول عیسائی ہیں۔ ان کے اس زعمِ باطل کی تردید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کو پیش کیا گیا جن کو یہ دونوں قومیں اپنا مقتدا مانتی تھیں اور کہا گیا کہ ہدایت یاب صرف وہ لوگ ہیں جو ابراہیم ؑ کے طریقے کی پیروی کرتے ہیں۔ ابراہیم ؑ توحید کے علم بردار تھے جب کہ وہ شرک کی راہ میں چل رہے ہیں۔ اس دلیلِ قاطع کو قرآن کے لفظوں میں ملاحظہ فرمائیں:

وَقَالُوْا کُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تَھْتَدُوْا قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰھٖمَ حَنِیْفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ.(سورۂ بقرہ۱: ۱۳۵)
 
’’وہ کہتے ہیں کہ یہودی ہو جاؤ یا عیسائی تو ہدایت پا لو گے۔ کہہ دو (کہ ایسا نہیں ہے)، ہدایت پر وہ ہے جس نے ابراہیم کا طریقہ اختیار کیا جو سب سے کٹ کر خدا کا ہو رہا تھا اور وہ مشرک نہیں تھا، (جب کہ ان کا دامن شرک سے آلودہ ہے)
‘‘قرآن میں مثبت مباحثہ کے اصول بھی بیان کیے گئے ہیں۔ فرمایا ہے:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ. (النحل۱۶: ۱۲۵)
’’اپنے رب کے (سیدھے) راستے کی طرف بلاؤ، حکمت (یعنی علمی دلائل) اور عمدہ نصیحت سے، اور (اگر بحث کی نوبت آ جائے تو پھر) اچھے ڈھنگ سے بحث کرو۔‘‘


اس مجادلۂ حسنہ کی ایک عمدہ مثال قرآن ہی میں موجو د ہے۔ اس بحث کا تعلق حضرت ابراہیم ؑ اور بادشاہِ بابل سے ہے جو خود کو رب سمجھتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس کے خیال کی تردید کی اور فرمایا کہ میرا رب تو وہ ہے جو جِلاتا اور مارتا ہے۔ اس نے کہا، میں بھی یہ کام کرتا ہوں (بقرہ۲: ۲۵۸)
 
دیکھیں، بادشاہ کا یہ جواب حقیقت واقعہ کے خلاف تھا، لیکن حضرت ابراہیم ؑ نے اس پر اعتراض کرنے کے بجائے کہ اس سے بحث دوسرے رخ پر چلی جاتی، ایک دوسری عقلی دلیل دی کہ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، اگر تو اس کائنات کا رب (حاکم اعلیٰ) ہے تو اس کو مغرب سے نکال دے۔ یہ سن کر وہ لا جواب ہو گیا: فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ (سورۂ بقرہ۲: ۲۵۸)
 
مباحثہ کا ایک عمدہ طریقہ ’مباہلہ‘ بھی ہے۔ یہ طریقہ اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب فریقِ مخالف کسی طرح حق بات ماننے کے لیے تیار نہ ہو اور اپنے خیال کی صحت پر مصر ہو۔ قرآن میں اس طریقہ کا ذکر ہوا ہے۔ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد جس میں ان کے علماء بھی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے مدینہ آیا۔ ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا اور ان کے ساتھ نہایت کریمانہ سلوک کیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دورانِ گفتگو میں ان کو اسلام کی دعوت دی اور الوہیتِ مسیح کے عقیدے کی غلطی ان پر واضح کی۸؂ ۔ لیکن انھوں نے انکار کیا اور کہا کہ ان کے عقیدے میں کوئی خرابی نہیں ہے، اس لیے وہ اسلام قبول نہیں کر سکتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کج بحثی سے گریز کرتے ہوئے ان کو مباہلہ کی دعوت دی۔ قرآن میں ہے:
 
فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآءَ نَا وَنِسَآءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ.(سورہ آل عمران۳: ۶۱)
 
’’اب جب کہ تمہارے پاس (مسیح کے باب میں قطعی) علم آ چکا ہے تو جو شخص اس کے بعد بھی تم سے اس معاملہ میں حجّت کرے تو کہو کہ آؤ ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو بلا لیں اور تم بھی اپنے بچوں اور عورتوں کو بلا لو اور خود ہم بھی اور تم بھی (ان میں شامل ہوں)، پھر ہم سب عاجزی سے دعا کریں کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہو۔‘‘

لیکن عیسائی علماء مباہلہ کے لیے تیار نہیں ہوئے، کیونکہ انھیں اپنے عقیدے کی سچائی پر دل سے یقین نہیں تھا۔ یہ کام تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اپنے عقیدے کی صحت پر کامل یقین و اطمینان رکھتے ہوں۔ اور یہ لوگ اس یقین سے محروم تھے۔
 
5۔ قرآن کے علومِ پنجگانہ میں سے آخری چیز علمِ تذکیر بالموت ہے۔ اس علم کا تعلق وقوع قیامت، حشر و نشر، پرسشِ اعمال اور جزا و سزا یعنی جنت اور دوزخ کے احوال و مقامات کے بیان سے ہے۔ عالم آخرت کے احوال سے واقفیت کا ذریعہ صرف وحی ہے، کیونکہ عقل اس عالم کے ادراک سے قاصر ہے۔ اس علم کے مطابق ایک دن عالمِ مادی نیست و نابود ہو جائے گا اور ایک دوسرا عالم وجود میں آئے گا جہاں بندوں کو ان کے دنیوی اعمال کی جزا و سزا ملے گی۔
 
چونکہ اس عالمِ غیر مادّی کے احوال و معاملات کی تفصیل و توضیح انسانی زبان میں جو مادّی خواص رکھتی ہے، ممکن نہیں تھی، اس لیے قرآن میں ان کے بیان میں تمثیل و مجاز کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے اور غیر مشہود حقائق کو ممکن حد تک مشہود و محسوس صورت میں پیش کیا گیا ہے تاکہ بندے اس عالم اور اس کی نعمتوں کو بقدرِ فہم و استعداد سمجھ سکیں اور ان کے دلوں میں ان کے حصول کی تمنا پیدا ہو اور وہ دنیا کے لذائذ میں کھو کر نہ رہ جائیں۔
 
اس دوسری دنیا کے اثبات میں قرآن نے جو عقلی دلائل دیے ہیں ،ان میں سے بیشتر کا تعلق فطرت کے حقائق اور مظاہر سے ہے۔ مثلاً ایک جگہ کہا گیا ہے کہ اس کائناتِ مادّی کی ہر چیز ’’زوجین‘‘ یعنی جوڑوں کی شکل میں بنائی گئی ہے۔ اس کلّیہ سے اس عالم کی کوئی چیز مستثنیٰ نہیں ہے۔ ہر شے نہ صرف اپنے وجود کے لیے ’’زوجین‘‘ کی محتاج ہے بلکہ اس کا مقصدِ تخلیق بھی ان ہی پر منحصر ہے۔ قرآن کے الفاظ ہیں:

وَمِنْ کُلِّ شَیْ ءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ` فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ اِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ.(سورۂ ذاریات۵۱: ۴۹۔۵۰)
’’ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو، پس اللہ کی طرف تیز گامی کرو، میں تمہارے لیے اس کی طرف سے کھول کر ڈرا دینے والا ہوں۔‘‘

اس آیت میں ’زوجین‘ سے مراد ایسے جوڑے ہیں جو اپنی ساخت اور خواص کے لحاظ سے باہم اختلاف رکھتے ہیں، لیکن اس اختلاف کے باوجود ان میں کامل درجہ کا اتحاد و موافقت ہے، ایسا غیر معمولی اتحاد کہ اس کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال خود مرد و عورت کا وجود ہے۔یہ جوڑا اپنے تمام خلقی اور نفسیاتی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہے۔ زوجین کے اس اتحاد و اختلاط کو قرآن میں وجود خدا کی ایک بڑی نشانی کہا گیا ہے:

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ. (سورۂ روم۳۰: ۲۱)
 
’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور غم گساری پیدا کی۔ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘

جب اس کائنات کی ہر چیز کی تخلیق اصولِ زوجین پر ہوئی ہے تو پھر ماننا ہو گا کہ اس عالمِ مادّی کا بھی ایک زوج ہے اور وہ عالم آخرت ہے۔ اور یہی انسان کے سفرِ زندگی کی آخری منزل ہے۔ سورۂ ذاریات کی مذکورہ بالا آیات میں ’’تذکرون‘‘ اور ’’ففروا الی اللّٰہ‘‘ کے جملوں سے اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے۔
 
یہ ایک حقیقت ہے کہ آخرت یعنی عالمِ غیر مادّی کا وجود انسان کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس کو مانے بغیر اس کے بہت سے مسائل کا کوئی حل ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر دنیا میں ظلم و زیادتی کے اندوہ ناک واقعات برابر پیش آتے رہتے ہیں اور موجودہ دور بھی اس سے خالی نہیں ہے۔ قانون اور عدالت کے باوجود بسا اوقات مجرموں کو ان کے جرائم کی سزا نہیں ملتی اور اگر ملتی بھی ہے تو وہ مکمل سزا نہیں ہوتی۔ مثلاً ایک شخص سیکڑوں افراد کو ناحق قتل کر دیتا ہے۔ اس دنیا میں اس جرم کی بڑی سے بڑی سزا اس کے سوا اور کیا ہو گی کہ اس قاتل کو قتل کر دیا جائے۔ لیکن کیا اس سزا کو سیکڑوں لوگوں کے قتل کی سزا کہا جا سکتا ہے؟ یہ تو ایک مقتول کی سزا ہوئی، بقیہ مقتولین کی سزا اسے کہاں ملی۔ اس کے جرم کی مکمل سزا تو یہ ہو گی کہ اس کو سو مرتبہ قتل کیا جائے۔ اور یہ اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ یہ صورت حال خود مطالبہ کرتی ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہو جہاں مجرموں کو ان کے جرائم کی مکمل سزا دی جائے۔ اور اسی کا نام عالمِ آخرت ہے۔
 
قرآن مجید کے یہی پانچ بنیادی علوم ہیں جن کا گزشتہ صفحات میں ذکر ہوا۔ ان ہی علوم پنجگانہ کو مختلف الفاظ و اسالیب میں قرآن کی مختلف سورتوں میں پیش کیا گیا ہے جو اعجاز بیان کا منتہائے کمال ہے۔

__________
۱؂ الفوذ الکبیر فی اصول التفسیر، باب اوّل، ص۶
۲؂ ماہنامہ البیان، امرت سر، دسمبر ۱۹۳۶ء
۳؂ سر جیمز ایک ممتاز ماہر علم ہیئت، عظیم ریاضی داں اور ایک جید عالم طبیعیات (Physicist) گزرے ہیں۔ ایک عالمِ طبیعیات کی حیثیت سے ’’نظریۂ گیس‘‘ اور ’’اشعاع‘‘ کے باہمی تعلق اور آزاد الکٹران کے مختلف پہلوؤں پر ان کی فاضلانہ تحقیقات اور عالمانہ آراء ناقابلِ فراموش ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ سائنسی دنیا ایک عظیم المرتبت سائنس داں کی حیثیت سے ان کے کارہائے نمایاں کو ہمیشہ یاد کرتی رہے گی۔
۱۹۰۶ء میں وہ کل ۲۸ سال کی عمر میں رائل سوسائٹی کے فیلو منتخب کر لیے گئے۔ ۱۹۱۷ء میں کیمبرج یونیورسٹی نے ان کے ایک مضمون ’’نظریۂ تخلیق اور کوکبی حرکیات کے مسائل‘‘ پر انھیں آدمس پرائز دے کر ان کی عزت افزائی کی۔ کیمبرج فلاسوفیکل سوسائٹی نے بھی ’’نظریۂ گیس‘‘، ’’اشعاع‘‘ اور ’’سیاراتی نظام کے ارتقاء‘‘ پر ان کی گراں قدر تحقیقات پر انھیں ہاپ کنس پرائز عطا کیا۔ سائنس کی دنیا میں ایک ماہر علمِ فلکیات کی حیثیت سے ان کا مقام نہایت بلند ہے۔ نظریۂ تخلیق سے متعلق ان کی فاضلانہ تحقیقات پر سر آتھر ایڈ نگلٹن نے انھیں رائل اسٹرو نو میکل سوسائٹی کا سنہری تمغہ پیش کیا۔ ۱۹۲۵ء سے ۱۹۲۷ء تک وہ اس سوسائٹی کے صدر رہے۔ ہندوستان میں کلکتہ اور بنارس جیسی معروف یونیورسٹیوں نے انھیں آنریری ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں دیں۔ سائنس سے متعلق انڈین ایسوسی ایشن نے ۱۹۳۷ء میں انھیں ’’مکر جی میڈل‘‘ دیا۔ اسی سال بنگال کی ایشیائی سوسائٹی نے بھی انھیں میڈل دے کر ان کا رتبہ بڑھایا۔ ۱۹۲۸ء میں ’’نائٹ ہوڈ‘‘ اور ۱۹۳۹ء میں ’’آرڈر آف دی میرٹ‘‘ جیسے بلند اعزازات سے نوازے گئے۔
سر جیمز نے مختلف موضوعات پر متعدد عالمانہ کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
Mysterious Universe, Astronomy and Cosmogony. Universe Around us. Introduction to the Kinetic Theory of Gases.
یہ ان کی آخری تصنیف ہے جو انھوں نے ۱۹۴۲ء میں لکھی۔ اس کے ۴ سال بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ (مصنف)
۴؂ نقوش، شخصیات نمبر، ص۱۲۰۸، ۱۲۰۹
۵؂ تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص۲۵۹
۶؂ تفسیر ابن کثیر، ج۷، ص۲۰۱ تا ۲۰۷
۷؂ الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، ص۷۷
۸؂ عیسائی علماء نے اپنے عقیدے کے اثبات میں حضرت عیسیٰ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو بطور دلیل پیش کیا۔ اس کے جواب میں کہا گیا کہ حضرت عیسیٰ کے تو باپ نہیں تھے،حضرت آدم کے تو نہ باپ تھے نہ ماں، پھر وہ کیسے پیدا ہو گئے اور پیدا ہو کر انسان ہی رہے، خدا نہیں ہو گئے( دیکھیں سورۂ آل عمران۳: ۵۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بشکریہ ،   ماہنامہ اشراق Administrator  August 2009 ، اشراق کی طرف سے نوٹ : ’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔" )