قرآن مجید ابتدائی دور میں لکھے ہوئے مکمل رسالوں کی شکل میں نہیں شائع ہوا تھا بلکہ حسب موقع و ضرورت ایک تقریر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی جاتی تھی اور آپ اسے ایک خطبہ کی شکل میں لوگوں کو سناتے تھے۔
گویا قرآن مجید کی ہر سورت ایک یا کئی تقریر کا مجموعہ تھی جو کسی خاص مرحلے اور موقع پر نازل ہوتی تھی اس کا ایک خاص پس منظر ہوتا تھا، کچھ مخصوص حالات اس کا تقاضا کر تے تھے، اور کچھ ضرورتیں ہو تی تھیں جنہیں پورا کرنے کے لیے وہ اتر تی تھی۔ اپنے اس پس منظر اور اپنی اس شان نزول کے ساتھ قرآن مجید کی ان سورتوں کا تعلق اتنا گہرا ہے کہ اگر اس سے الگ کر کے مجرد الفاظ آدمی کے سامنے رکھ دیا جائے تو بہت سی باتوں کو و وہ قطعا نہیں سمجھے گا اور بعض باتوں کو الٹا سمجھ جائے گا ، اور قرآن کا پورا مدعا شاید کہیں اس کی گرفت میں آئے گا ہی نہیں ۔
قرآن مجید کی مکی سورتوں کا پس منظر
پہلامرحلہ
شروع شروع کے قرآن کے پیغامات ابتدائی دعوت کی مناسبت سے چند چھوٹے چھوٹے مختصر بولوں (آیات) پر مشتمل ہوتے تھے جن کی زبان نہایت شستہ ، نہایت شیریں ، نہایت پر اثر اور مخاطب قوم کے مذاق کے مطابق بہترین ادبی رنگ لیے ہوئے ہوتی تھی تاکہ دلوں میں یہ بول تیر و نشتر کی طرح پیوست ہو جائیں ،کا ن خود بخود ان کے ترنُّم کی وجہ سے ان کی طرف متوجہ ہوں ، اور زبانیں ان کے حسن تناسب کی وجہ سے بااختیار ہو کر انہیں دہرانے لگیں ۔ پھر ان میں مقامی رنگ بہت زیادہ تھا۔ اگرچہ بیان تو کی جارہی تھیں عالمگیر صداقیتں مگر ان کے لیے دلائل و شواہد او رمثالیں اس قریب ترین ماحول سے لی گئی تھیں جس سے مخاطب لوگ اچھی طرح مانوس تھے۔ انہی کی تاریخ ، انہیں کی روایات ، انہیں کے روزمرّہ مشاہدہ میں آنے والے آثار اور انہیں کی اعتقادی و اخلاقی اور اجتماعی خرابیوں پر ساری گفتگو تھی تاکہ وہ اس سے اثر لے سکیں ۔
دعوت کا یہ ابتدائی مرحلہ تقریبا چار پانچ سال تک جاری رہا ، اور اس مرحلے میں نبی ﷺ کی تبلیغ کا ردِّ عمل تین صورتوں میں ظاہر ہوا :
1- چند صالح آدمی اس دعوت کو قبول کرکے اُمّت مسلمہ بننے کے لیے تیار ہوگئے ۔
2- ایک کثیر تعداد جہالت یا خود غرضی یا آبائی طریقے کی محبت کے سبب سے مخالفت پر آمادہ ہوگئی ۔
3- مکّہ اور قریش کی حدود سے نکل کر اس نئی دعوت کی آواز نسبتا زیادہ وسیع حلقے میں پہنچنے لگی ۔
دوسرا مرحلہ
اس کے بعد اس دعوت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔ اس مرحلے میں اسلام کی اس تحریک اور پرانی جاہلیّت کے درمیان ایک سخت جاں گسل کشمکش بر پا ہوئی جس کا سلسلہ آٹھ نو سال تک چلتا رہا ۔ نہ صرف مکّہ میں ، نہ صرف قبیلہ قریش میں، بلکہ عرب کے بیشتر حصوں میں بھی جو لوگ پرانی جاہلیت کو بر قرار رکھنا چاہتے تھے وہ اس تحریک کو بزور مٹا دینے پر تُل گئے ۔ انہوں نے اسے دبا نے کے لیے سارے حربے استعمال کرڈالے ۔ جھوٹا پرو پگینڈا کیا ، الزامات اور شبہات اور اعتراضات کی بو چھاڑ کی ، عوام الناّس کے دلوں میں طرح طرح کی وسوسہ اندازیاں کیں ، ناواقف لوگوں کو نبی ﷺ کی بات سننے سے روکنے کی کوششیں کیں ، اسلام قبول کرنے والوں پر نہایت وحشیانہ ظلم و ستم ڈھائے ، ان کا معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کیا ، اور ان کو اتنا تنگ کیا کہ ان میں سے بہت سے لو گ دو دفعہ اپنے گھر چھوڑ کر حبش کی طرف ہجرت کر جانے پر مجبور ہوئے ۔ اور بالآ خر تیسری مرتبہ ان سب کو مدینے کی طرف ہجرت کرنی پڑی ۔
لیکن اس شدید اور روز افزوں مزاحمت کے باوجود یہ تحریک پھیلتی چلی گئی ۔ مکّہ میں کوئی خاندان اور کوئی گھرایسا نہ رہا جس کے کسی نہ کسی فرد نے اسلام قبول نہ کرلیا ہو ۔ بیشتر مخالفین ِاسلام کی دشمنی میں شدت اور تلخی کی وجہ یہی تھی کہ ان کے اپنے بھائی ، بھتیجے ، بیٹے ، بیٹیاں ، بہنیں اور بہنوئی دعوت اسلام کے نہ صرف پیرو بلکہ جا نثار حامی ہوگئے تھے اور ان کے اپنے دل و جگر کے ٹکڑے ہی ان سے بر سر پیکار ہو نے کو تیا ر تھے ۔ پھر لطف یہ ہے کہ جو لوگ پر انی جاہلیت سے ٹوٹ ٹوٹ کر اس نوخیز تحریک کی طرف آرہے تھے وہ پہلے بھی اپنی سوسائیٹی کے بہترین لو گ سمجھے جاتے تھے ۔ اور اس تحریک میں شامل ہونے کے بعد وہ اتنے نیک اور اتنے راستباز اور اتنے پاکیزہ اخلاق کے انسان بن جاتے تھے کہ دنیا اس دعوت کی بر تری محسوس کیے بغیر رہ نہیں سکتی تھی جو ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور انہیں یہ کچھ بنارہی تھی ۔
اسی طویل اور شدیک کشمکش کے دوران میں اللہ تعالی حسب موقع اور حسب ضرورت اپنے نبیﷺ پر ایسے پر جوش خطبے نازل کر تا رہا جن میں دریا کی سی روانی ، سیلاب کی سی قوت اور تیز و تند آگ کی سی تاثیر تھی ۔ ان خطبوں میں ایک طرف اہل ایمان کو ان کے ابتدائی فرائض بتا ئے گئے ، ان کے اندر جماعتی شعو ر پیدا کیاگیا ، انہیں تقوی اور فضیلت اخلاق اور پاکیزگی سیرت کی تعلیم دی گئی ، ان کو دین حق کی تبلیغ کے طریقے بتائے گئے ، کا میابی کے وعدوں اور جنت کی بشارتوں سے ان کی ہمت بندھائی گئی ، انہیں صبر و ثبات اور بلند حوصلگی کے ساتھ اللہ کی راہ میں جد و جہد کرنے پر ابھارا گیا اور فداکاری کا ایسا زبردست جوش اور ولولہ ان میں پیدا کیا گیا کہ وہ ہر مصیبت جھیل جانے اور مخالفت کے بڑے سے بڑے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ دوسری طرف مخالفین اور راہ راست سے منہ موڑنے والوں اور غفلت کی نیند سونے والوں کو ان قوموں کے انجام سے ڈرایا گیا جن کی تاریخ سے وہ خود واقف تھے ، ان تباہ شدہ بستیوں کے آثار سے عبرت دلائی گئی جن کے کھنڈروں پر سے شب و روز اپنے سفروں میں ان کا گزر ہو تا تھا ، توحید اور آخرت کی دلیلیں ان کھلی کھلی نشانیوں سے دی گئیں جو رات دن زمین و آسمان میں ان کی آنکھوں کے سامنے نمایاں تھیں اور جن کو وہ خود اپنی زندگی میں بھی ہر وقت دیکھتے اور محسوس کر تے تھے ،شرک اور دعوائے خود مختاری اور انکار آخرت اور تقلید آبائی کی غلطیاں ایسے بین دلائل سے واضح کی گئیں جو دل کو لگنے اور دماغ میں اتر جانے والے تھے ۔پھر ان کے ایک ایک شبہ کو رفع کیا گیا ، ایک ایک اعتراض کا معقول جواب دیا گیا ، ایک ایک الجھن جس میں وہ خود پڑے ہوئے تھے یا دوسروں کو الجھانے کی کوشش کرتے تھے ، صاف کی گئی ، اور ہر طرف سے گھیر کر جاہلیت کو ایسا تنگ پکڑا گیا کہ عقل و خرد کی دنیا میں اس کے لیے ٹھیر نے کی کوئی جگہ باقی نہ رہی ۔ اس کے ساتھ پھر ان کوخدا کے غضب اور قیامت کی ہو لناکیوں اور جہنم کے عذاب کا خوف دلایا گیا ، ان کے برے اخلاق اور غلط طرزِ زندگی اور جاہلانہ رسوم اور حق دشمنی اور مومن آزاری پر انہیں ملامت کی گئی ،اور اخلاق و تمدّن کے وہ بڑے بڑے بنیا دی اصول ان کے سامنے پیش کیے گئے جن پر ہمیشہ سےخدا کی پسندیدہ صالح تہذیبوں کی تعمیر ہوتی چلی آرہی ہے ۔
یہ مرحلہ بجائے خود مختلف منزلوں پر مشتمل تھا جن میں سے ہر منزل میں دعوت زیادہ وسیع ہوتی گئی ، جدوجہد اور مزاحمت زیادہ سخت ہوتی گئی ، مختلف عقائد اور مختلف طرز عمل رکھنے والے گروہوں سے سابقہ پیش آتا گیا ، اور اسی کے مطابق اللہ کی طرف سے آنے والے پیغامات میں مضامین کا تنوّع بڑھتا گیا ۔۔۔۔۔۔یہ ہے قرآن مجید کی مکی سورتوں کا پس منظر ۔
قرآن مجید کی مدنی سورتوں کا پس منظر
مکّہ میں اس تحریک کو اپنا کام کرتے ہوئے تیرہ سال گزر چکے تھے کہ یکایک مدینہ میں اس کو ایک ایسا مرکز بہم پہنچ گیا جہاں اس کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ عرب کے تمام حصّوں سے اپنے پیرووں کو سمیٹ کر ایک جگہ اپنی طاقت مجتمع کرے ۔ چنانچہ بنی ﷺ اور بیشتر متبعین اسلام ہجرت کرکے مدینے پہنچ گئے ۔ اس طرح یہ دعوت تیسرے مرحلے میں داخل ہوئی ۔
اس مرحلے میں حالات کا نقشہ بالکل بدل گیا ۔ امت مسلمہ ایک باقاعدہ ریاست کی بنا ڈالنے میں کامیاب ہوگئی ۔ پرانی جاہلیت کے علم برداروں سے مسلّح مقابلہ شروع ہوا ۔پچھلے انبیاء کی امّتوں (یہودی اور نصاری) سے بھی سابقہ پیش آیا ۔ خو د امت مسلمہ کے اندرو نی نظام میں مختلف قسم کے منافق گھس آئے اور ان سے بھی نمٹنا پڑا ۔ اور دس سال کی شدید کشمکش سے گزر کر آخر کا ر یہ تحریک کا میابی کی اس منزل پر پہنچی کہ سارا عرب اس کے زیر نگیں ہوگیا اور عالمگیر دعوت و اصلاح کے دروازے اس کے سامنے کھل گئے ۔ اس مرحلے کی بھی مختلف منزلیں تھیں اور ہر منزل میں اس تحریک کی مخصوص ضرورتیں تھیں ۔ ان ضرورتوں کے مطابق اللہ تعالی کی طرف سے ایسی تقریر یں نبی ﷺ پر نازل ہوتی رہیں جن کا انداز کبھی آتشیں خطابت کا ، کبھی شاہانہ فرامین واحکام کا کبھی معلِّمانہ درس و تعلیم کا اور کبھی مصلحانہ افہام و تفہیم کا ہو تا تھا ۔ ان میں بتایا گیا کہ جماعت اور ریاست اور مدنیت صالح کی تعمیر کس طرح کی جائے۔ زندگی کے مختلف شعبوں کو کن اصول و ضوابط پر قائم کیا جائے ، منافقین سے کیا سلوک ہو ، ذمی کافروں سے کیا برتاؤ ہو ، اہل کتاب سے تعلقات کی کیا نوعیت رہے ، بر سر جنگ دشمنوں اور معاہد قوموں کے ساتھ کیا طرز عمل اختیا ر کیا جائے اور منظم اہل ایمان کا یہ گروہ دنیا میں خدا وند عالم کی خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے اپنے آپ کو کس طرح تیار کرے ۔ ان تقریروں میں ایک طرف مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی جاتی تھی ، ان کی کمزوریوں پر تنبیہ کی جاتی تھی ، ان کو راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کرنے پر ابھار ا جاتا تھا ، ان کو شکست اور فتح ، مصیبت اور راحت ، بد حالی اور خوش حالی ، امن اور خوف ، غرض ہر حال میں اس کے مناسب اخلاقیات کا درس دیا جاتا تھا ، اور انہیں اس طرح تیار کیا جاتا تھا کہ وہ نبی ﷺ کے بعد آپ کے جانشین بن کر اس دعوت و اصلاح کے کام کو انجام دے سکیں ۔ دوسرے طرف ان لوگوں کو جو دائرہ ایمان سے باہر تھے، اہل کتاب ، منافقین ، کفار ، و مشرکین ، سب کو ان کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے سمجھانے ، نرمی سے دعوت دینے سختی سے ملامت اور نصیحت کرنے ، خدا کے عذاب سے ڈرانے اور سبق آموز و اقعات و احوال سے عبرت دلانے کی کوشش کی جاتی تھی تاکہ ان پر حجت تمام کر دی جائے ۔ ۔۔۔ یہ ہے قرآن مجید کی مدنی سورتوں کا پس منظر ۔
(یہ اقتباس نہایت خفیف ترمیم وا ختصار کے ساتھ تفہیم القرآن جلد اول ، ( سید ابوالاعلی مودودی ؒ ) کے دیباچہ اور مقدمہ سے ماخوذ ہے)