قرآن ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے ۔

  قرآن ایک  ایسی کتاب ہے جس کی طرف دنیا میں بے شمار انسان بے شمار مقاصد لے کر رجوع کر تے ہیں ۔ اور جو لوگ چند مخصوص قسم کے خیالات لے کر قرآن کو پڑھتے ہیں وہ اس کی سطروں کے درمیان اپنے خیالات پڑھتے چلے جاتے ہیں قرآن کی ان کو ہوا بھی نہیں لگنے پاتی ۔ وہ قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہوتے  ۔ قرآن محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ کوئی   آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھے اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائے۔اور نہ یہ کوئی ایسی کتاب ہے کہ مدرسےاور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کرلیے جائیں ۔ بلکہ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتا ب ہے ۔ کوئی اس کی روح سے پوری طرح اس وقت تک  آشنا نہیں ہونے پا تا جب تک کہ عملا وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے ۔

    اور نہ  قرآن جزئیات کی  کتاب  ہے بلکہ اصول اور کلیات کی کتاب ہے۔  اس کا اصل کام یہ ہے  کہ نظام اسلامی کی فکری اور اخلاقی بنیادوں کو پوری وضاحت کے ساتھ نہ صرف پیش کر دے بلکہ عقلی استدلال اور جذباتی اپیل دونوں کے ذریعے سے خوب مستحکم کر دے۔  اب رہی عملی صورت  تو اس معاملے میں وہ انسان کی رہنمائی اس طریقے سے نہیں کرتا کہ زندگی کے ایک ایک پہلو کے متعلق تفصیلی ضابطے اور قوانین بتائے بلکہ ہر شعبہ زندگی کی حدود اربعہ بتا دیتا ہے اور نمایاں طور پر چند گوشوں میں سنگ ِنشان کھڑے کر دیتا ہے جو اس بات کا تعین کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق ان شعبوں کی تشکیل و تعمیر کن خطوط پر ہونی چاہیے ان ہدایات کے مطابق عملا  اسلامی زندگی کی صورت گری کرنا نبی صلی اللہ کا کام تھا ، انہیں مامور ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ دنیا کو  اس انفراد ی سیرت و کردار اور اس معاشرے اور ریاست کا نمونہ دکھادیں جو قرآن کے دیے ہوئے اصولوں کی عملی تعبیر و تفسیر ہو۔

   تاریخ گواہ ہے کہ اس کتاب نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سےنکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا ۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اٹھوائی اور وقت کے علمبرداران کفر وفسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا ۔ گھر گھر سے ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعی حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکھٹا کیا ۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اٹھایا اور حامیان حق سے ان کی جنگ کرائی  ایک فرد واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کرکے خلافت الہیہ کے قیام تک پورے تیئیس سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کر تی رہی حق و باطل کی اس جاں گسل کشمکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے ۔

       یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی سرے سے نزاع کفر و دین اور معرکہ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کشمکش کی کسی منزل سے گزرنے کا اتفاق ہی نہ ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں  خود بخود بے نقاب ہوجائیں ۔
قرآن کو پوری طرح اسی وقت سمجھ سکتا ہے  جب اسے لے کر اٹھے اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کرے جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اسی طرح قدم اٹھا تے چلے  جائے ۔ تب وہ سارے تجربات پیش آئیں گے جو نزول قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔مکے ،حبش اور طائف کی منزلیں بھی  آئیں گی ۔بدر ، احد سے لیکر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی سامنے آئیں گے ۔ ابو جھل ابولھب سے بھی واسطہ پڑےگا ، منافقین اور یہود بھی ملیں گےاور سابقین اولین سے لے کر مولفۃ القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے دیکھ لے گا اور برت بھی لے گا ۔ یہ ایک قسم کا "سلوک قرآنی "ہے ۔ اس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے قرآن کا طالب علم گزرتا  جائے گا قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں  خود سامنے آکر اس کو بتا تی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر  آئی تھیں ۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں ، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی روح کو اس کے سامنے بے نقاب کر نے سے بخل برتے ۔

غرض قرآن کے احکام اس کی اخلاقی تعلیمات ، اس کی معاشی اور تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلؤں کے بارے میں اس کے بتائےہوئے اصول و قوانین  کسی  فرد یا قوم کی سمجھ میں اس وقت تک آہی نہیں سکتے  جب تک عملا ان کو برت کر نہ دیکھے  ۔


(مزید دیکھیں ، مقدمہ تفہیم القرآن ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ)