وہ
کون سا تفرقہ و اختلاف ہے جس سے قرآن منع کرتا ہے ؟
قرآن
ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اللہ کی وحی آنے کے بعد دین کے معاملے میں تفرقے اور اختلاف میں پڑ جاتے ہیں نفسانیت اور
کج نگاہی سے کام لیتے ہیں ۔ قرآن ان صحت
بخش اختلاف رائے کا مخالف نہیں جو دینی
احکام و قوانین کی تعبیر و تفسیر میں
مخلصانہ تحقیق کی بنا پر کیا جائے ۔ اس قسم
کا اختلاف کسی بھی معاشرے کی ترقی کی جان اور زندگی کی روح ہے۔ یہ ہر اس
سوسائٹی میں پایا جائے گا جو عقل و فکر رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہو۔ اس سے خالی صرف وہ سوسائٹی ہو سکتی ہے جو ذہین انسانوں سے نہیں بلکہ لکڑی کے کندوں سے
مرکب ہو ۔
درست
اختلاف رائے کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ دو
عالم دین کسی جزوی مسئلہ کی تحقیق میں یا دو قاضی کسی مقدمے کے فیصلے میں ایک
دوسرے سے اختلاف کریں مگر کوئی بھی نہ تو
اس مسئلے کو اور اس میں اپنی رائے کو مدار دین بنائے اور نہ اس سے اختلاف کرنے
والے کو دین سے خارج قرار دے ، بلکہ دونوں اپنے اپنے دلائل دے کر اپنی حد تک تحقیق
کا حق ادا کردیں اور یہ بات رائے عامہ پر
یا اگر عدالتی مسئلہ ہو تو ملک کی اعلی عدالت یا اگر اجتماعی معاملہ ہو تو ریا
ست پر چھوڑ دیں اس خیال سے کہ وہ دونوں
میں سے جس کو چاہے قبول کر ے یا دونوں کو جائز رکھیں ۔ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ اس
طرح کے اختلاف نہ صرف آئمہ کرام بلکہ تابعین اور صحابہ کرام تک کے درمیان پائے
جاتے ہیں ۔ شاید کوئی ایک بھی احکامی آیت ایسی نہیں ہے جس کی ایک ہی تفسیر بالکل متفق علیہ ہو۔ اس قسم کے اختلافات کی متعدد مثالیں خود نبی ﷺ کے سامنے
پیش آچکی تھیں اور آپ نے صرف یہی نہیں کہ
اس کو جائز رکھا بلکہ اس کی تحسین بھی فرمائی۔ اس لے کہ یہ ایک فطری اختلاف ہے اس سے پتہ لگتا
ہے کہ امت میں غور و فکر اور تحقیق و تجسس اور فہم و تفقہ فی الدین کی صلاحیتیں
موجود ہیں اور ذہین لوگوں کو اپنے دین سے اور اس کے احکام سے دلچسپی اور یہی اصل اجتہاد ہے یہ قیامت تک جاری ہے اس کا دروازہ
کبھی بند نہیں ہوگا ۔ تو کیا یہ سب لوگ
قرآن کی اس مذمت کے مصداق ہیں جو قرآن میں وارد ہوئی ہیں ۔؟ یقینا نہیں ۔
قرآں نے جہان کہیں اختلاف اور فرقہ بندی کی مخالفت کی ہے اس سے مراد وہ اختلاف ہے جو دین
کی بنیادوں میں کیا جائے کوئی عالم ہو یا صوفی مفتی ہو یا متکلم یا قاضی کسی ایسے
مسئلے میں جس کو خدا اور رسول نے دین کا بنیادی مسئلہ قرار نہیں دیا تھا اس کو
خواہ مخواہ دین کا بنیادی مسئلہ قرار دے پھر جو اس سے اختلاف کرے اس کو خارج
از دین و ملت قرار دے اور اپنے فرقہ کے
حامیوں کا ایک جھتا بنا کر کہے کہ اصل امت مسلمہ بس یہ ہے اور باقی سب جہنمی ہے
اور ہانک پکار کر کہے کہ مسلم ہے تو بس اس جھتے میں آجاؤ ورنہ تو مسلم ہی نہیں ہے۔ اس قسم کے
لوگ ہی در اصل قرآن کی مذمت کے
مصداق ہیں ۔
(مزید دیکھیں ، مقدمہ تفہیم القرآن ، جلد اول ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )