دنیا کی چیزوں میں کشش کیوں رکھی گئی ہے ؟ - مولانا وحید الدین خاں

دنیا کی چیزوں میں انسان کے لیے کیوں  کشش رکھی گئی ہے ؟ 


دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ اس لیے یہاں کی چیزوں میں آدمی کے لیے ظاہری کشش رکھی گئی ہے۔ اب خدا یہ دکھنا چاہتا ہے کہ کون ہے جو ظاہری کشش سے متاثر ہوکر دنیا کی چیزوں میں کھوجاتا ہے۔ اور کون ہے جو اس سے اوپر اٹھ کر آخرت کی ان دیکھی چیزوں کو اپنی توجہ کا مرکز بناتا ہے۔ آدمی کو دنیا کی چیزوں میں تسکین ملتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ماحول کے اندر ان کے ذریعہ سے وقار قائم ہوتا ہے۔ یہ چیزیں ہوں تو اس کے سب کام بنتے چلے جاتے ہیں۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہی چیزیں اصل اہمیت کی چیزیں ہیں۔ اس کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں سمٹ کر بیوی بچوں اور مال و جائداد کے گرد جمع ہوجاتی ہیں۔

 یہی چیز آخرت کے تقاضوں کی طرف بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا کی چیزوں کی اہمیت کا احساس آدمی کو آخرت کی چیزوں کی طرف سے غافل کردیتا ہے۔ دنیا میں اپنے بچوں کے مستقبل کی تعمیر میں وہ اتنا مشغول ہوتا ہے کہ اس کو یاد نہیں رہتا کہ دنیا سے ماورا بھی کوئی "مستقبل" ہے جس کی تعمیر کی اس کو فکر کرنا چاہیے۔ دنیا میں اپنے گھر کو آباد کرنا اس کے لیے اتنا محبوب بن جاتا ہے کہ اس کو کبھی خیال نہیں آتا کہ اس کے سوا بھی کوئی "گھر" ہے جس کی آبادی میں اس کو لگنا چاہیے۔ دنیا میں دولت سمیٹنا اور جائداد بنانا اس کو اتنا زیادہ قیمتی معلوم ہوتے ہیں کہ وہ سوچ نہیں پاتا کہ اس کے سوا بھی کوئی "دولت" ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنے کو وقف کرے۔ 

مگر اس قسم کی تمام چیزیں صرف موجودہ عارضی زندگی کی رونق ہیں۔ اگلی طویل تر زندگی میں وہ کسی کے کچھ کام آنے والی نہیں ۔


جو شخص آخرت کی مستقل زندگی کو اپنی توجہات کا مرکز بنائے اس کی زندگی کیسی زندگی ہوگی۔ دنیا کی رونقیں اس کی نظر میں حقیر بن جائیں گی۔ وہ اس یقین سے بھر جائے گا کہ آخرت کا معاملہ تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ سب سے زیادہ اللہ سے ڈرے گا اور سب سے زیادہ آخرت کا حریص بن جائے گا۔ معاملات میں وہ اپنی خواہش کے پیچھے نہیں چلے گا بلکہ اللہ کی عدالت کو سامنے رکھ کر اپنا رویہ متعین کرے گا۔ اس کے قول و عمل میں فرق نہیں ہوگا۔ اس کا مال اپنا مال نہ رہے گا بلکہ خدا کے لیے وقف ہوجائے گا۔ اللہ کی راہ میں چلنے میں خواہ کتنی ہی مشکلیں پیش آئیں وہ پوری استقامات کے ساتھ اس پر قائم رہے گا۔

 کیوں کہ اس کو یقین ہوگا کہ اللہ کو چھوڑنے کے بعد کوئی نہیں ہے جو اس کا سہارا بنے۔ اس کا دل اللہ کی یاد سے اس طرح پگھل اٹھے گا کہ وہ بے تابانہ اس کو پکارنے لگے گا۔ اس کی تنہائیاں اپنے رب کی صحبت میں بسر ہونے لگیں گی۔ اللہ کے عظمت و کمال کے آگے اس کو اپنا وجود سرتاپا غلطی نظر آئے گا۔ اس کے پاس کہنے کے لیے اس کے سوا اور کچھ نہ ہوگا کہ۔ اے میرے رب مجھے معاف کردے ۔




( تذکیر القرآن ، سورہ آل عمران :14۔ ۔17 ، مولانا وحیدالدین خان)