حاملین قرآن کا کردار

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ 

قرآن میں حاملین قرآن کے  صرف پانچ صفات بیان ہوئی ہیں۔ صبر، صدق، قنوت، انفاق، استٖغفار۔ 



1۔ "صبر "کی حقیقت نرم و گرم ہر طرح کے حالات میں حق پر جزم و استقامت ہے۔ غربت، بیماری، مصیبت، مخالفت، جنگ، غرض جس قسم کے بھی حالات سے آدمی کو دو چار ہونا پڑے عزم و ہمت کے ساتھ ان کو برداشت کرے، ان کا مقابلہ کرے، ان سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کرے اور اپنے مکان کے حد تک موقف حق پر جما رہے۔ دل کو مایوسی اور گھبراہٹ سے، زبان کو شکوہ تقدیر سے اور اپنی گردن کو کسی باطل کے آگے جھکنے سے بچائے۔ دین کا بڑا حصہ اسی صبر پر قائم ہے۔ اگر آدمی کے اندر یہ وصف نہ ہو تو کوئی طمع، کوئی ترغیب، کوئی آزمائش بھی اس کو حق سے ہٹا کر باطل کے آگے سرنگوں کر دے سکتی ہے۔ جو شخص سچائی کے راستے پر چلنا چاہے اور اس پر چل کر استوار رہنے کا آرزو مند ہو اسے سب سے پہلے اپنے اندر صبر کی صفت پیدا کرنی چاہیے۔ مزاحمتوں کے مقابلے کے لیے اور اس راہ میں ہر قدم پر مزاحمتوں سے مقابلہ ہے۔ اصلی ہتھیار بندے کے پاس یہی ہے۔ فلسفہ دین کے نقطہ سے دین نصف شکر ہے اور نصف صبر۔ لیکن عملی تجربہ گواہ ہے کہ آدمی میں صبر نہ ہو تو شکر کا حق بھی ادا نہیں ہوسکتا۔ یہاں چونکہ خطاب ان لوگوں سے ہے جنہیں سچائی کی سب سے بڑی بلندی پر چرھنے کی دعوت دی جا رہی ہے اس وجہ سے ان کے سامنے، جن لوگوں کا نمونہ پیش کیا گیا ہے ان کے کردار میں سب سے پہلے ان کے صبر ہی کے پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔


2۔ ’ صدق‘ کی اصل حقیقت کسی شے کا بالکل مطابق واقعہ ہونا ہے۔ اس کی روح پختگی اور ٹھوس پن ہے نیزے کی گرہیں دیکھنے میں جیسی مضبوط ظاہر ہو رہی ہیں آزمائش سے بھی ویسی ہی مضبوط ثابت ہوں تو ایسی نیزے کو عربی میں صادق الکعوب کہیں گے۔ زبان دل سے ہم آہنگ ہو، عمل اور قول میں مطابقت ہو، ظاہر اور باطن ہم رنگ ہوں، عقیدہ اور فعل دونوں ہم عناں ہوں، یہ باتیں صدق کے مظاہر میں سے ہیں اور انسانی زندگی کا سارا ظاہر و باطن انہی سے روشن ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان کی ساری معنویت ختم ہو کر رہ جاتی ہے یہی چیز ہے جو انسان کو وہ پر پرواز عطا کرتی ہے جس سے وہ روحانی بلندیوں پر چڑھتا ہے اور اس سے اس کے صبر کو بھی سہارا ملتا ہے۔ 



3۔ ’’ قنوت‘‘ کی اصل روح اللہ جل شانہ کے لیے تواضع و تذلل ہے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں کے شعور اور اس کی بے نہایت عظمتوں کے احساس کا قدرتی ثمرہ ہے۔ یہ نعمت کو شکر کا اور مصیبت کو صبر کا ذریعہ بناتی ہے اور ہر حالت میں بندے کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ رکھتی ہے۔ اصلاً تو یہ عقل و دل کی فروتنی اور انکساری ہے لیکن جس طرح قلب کی ہر حالت کا عکس انسان کے ظاہر پر بھی نمایاں ہوتا ہے اسی طرح اس کا عکس بھی انسان کی وضع قطع، چال ڈھال، گفتار کردار ہر چیز میں نمایاں ہوتا ہے۔ یہ اس غرور اور گھمنڈ کی ضد ہے جو نعمتوں کو اپنے استحقاق ذاتی کا ثمرہ سمجھنے کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس تلون اور بے صبرے پن کے بھی منافی ہے جو صبر و صدق کے فقدان سے پیدا ہوتا ہے۔


4۔ "انفاق" کے معنی واضح ہیں۔ یہ مرغوبات دنیا کی اس محبت کی ضد صفت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر مرغوبات دنیا کی محبت دل پر اس طرح چھا جائے کہ وہ خدا اور بندوں کے حقوق سے انسان کو روک دے تو یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن نے ’’ زین للناس‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ انفاق کی خصلت اس امر کی شہادت ہے کہ صاحبِ انفاق کی نظر میں اصلی قدر و قیمت دنیوی خزف ریزوں کی نہیں بلکہ آخرت کی ابدی زندگی اور اس کی لازوال نعمتوں کی ہے۔ برعکس اس کے جو شخص خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرتا ہے وہ اپنے عمل سے ثابت کرتا ہے کہ اس کی نگاہوں میں ساری قدر وقیمت بس اس فانی دنیا کی فانی لذتوں ہی کی ہے، آخرت کی زندگی کا اس کے ذہن میں سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے۔


5۔’’ استغفار‘‘ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ سے تضرع و زاری کہ وہ اپنے بندے کی کوتاہیوں، گناہوں اور جرموں پر پردہ ڈالے۔ یہ تضرع اس حیا اور خوف کا نتیجہ ہے جو بندے کے دل میں اپنے پروردگار کے بے پایاں احسانات و انعامات کے احساس اور اس کے عدل و انتقام کے تصور سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ’’ وقت سحر‘‘ کی قید لگی ہوئی ہے جس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ وقت قبولیت استٖغفار کے لیے سب سے زیادہ موزوں، ریا کی آفتوں سے سب سے زیادہ محفوظ، دلجمعی اور آیات الٰہی میں تفکر و تدبر کے لیے سب سے زیادہ ساز گار ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں ہی میں مختلف پہلوؤں سے اس کی وضاحت ہوئی ہے اور یہ رب کریم کا عظیم احسان ہے کہ اس نے استغفار کی ہدایت کے ساتھ ساتھ استغفار کی قبولیت کے لیے سب سے زیادہ سازگار وقت کا بھی خود ہی پتہ دے دیا۔ اس ٹکڑے پر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو اس سے جہاں ایک طرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کن صفات کے لوگ ہیں جو قرآن کے حامل ہوسکتے ہیں وہیں یہ بات بھی اس سے نکلی کہ وہ موانع کیا ہیں جو قرآن کے ان مخالفین اور قرآن کے درمیان حائل ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان میں وہ صبر نہیں ہے جو نفس اور شیطان کی مزاحمتوں کے مقابل میں ان کو پابر جا رکھ سکے، وہ صدق نہیں ہے جو ان کے عقیدہ اور عمل، قول اور فعل، ظاہر اور باطن میں مطابقت پیدا کرسکے، وہ قنوت نہیں جو سب سے بڑے صاحبِ حق کے آگے ان کی گردن اور ان کے دل دونوں کو جھکا دے، ابدی زندگی کا وہ شوق نہیں ہے جو انہیں آخرت کے لیے دنیا کو قربان کرنے پر ابھار سکے اور خدائے منعم و دیان کی نعمتوں اور نقمتوں کا وہ شعور و احساس نہیں ہے جو انہیں غفلت کے بستروں سے اٹھا کر مناجات سحر کے لیے ان کو ان کے رب کے حضور لا کھڑا کرے۔ اور ساتھ ہی اسلوب بیان نے ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف بھی کردیا کہ آج جن لوگوں نے اس قرآن کو قبول کرلیا ہے اور اس کے پھیلانے میں اللہ کے رسول کا ساتھ دے رہے ہیں وہ ان صفات سے متصف ہیں اور ان صفات سے متصف ہونے ہی کے سبب سے وہ اس بارِ گراں کے اٹھانے کے اہل بن سکے ہیں ۔"



(تدبر قرآن سورہ آل عمران : 179 )