خلفائے راشدین کی خلافت پر قرآن سے استدلال

امام شاہ ولی اللہ ؒ کا خلفائے راشدین کی خلافت پر قرآن سے استدلال 

سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

کتاب(ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء ) کا سب سے وجد انگیز حصہ وہ ہے جس میں شاہ صاحب ؒ نے قرآن مجید کی متعدد آیات سے خلفائے راشدین کی خلافت کے انعقاد اور ان کے خلیفہ راشد ہونے اور ان کے ذریعہ سے منشائے الہٰی کی تکمیل، اور امر تکوینی کے تحقق پر استدلال کیا ہے، اور آیات کے ایسے اشارات بلکہ تصریحات کی طرف توجہ دلائی ہے جن سے بدیہی طور پر ( بلکہ بعض مقامات پر ریاضی کے نتائج کے رنگ میں ) یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان حضرات کے سوا ان آیات کا کوئی اور مصداق اور مراد نہیں ہو سکتا، اورا ن پیشین گوئیوں کا انطباق ان کی ذات کے سوا کسی پر، اور ان وعدوں کا تحقق ان کے دور خلافت کے سوا کسی دور میں وقوع پذیر نہیں ہوا، اگر ان کی شخصیتوں اور ان کے عہد کو بیچ میں سے نکال لیا جائے تو یہ صفات بغیر کسی مصداق کے اور یہ وعدے نشنہ تکمیل رہ جاتے ہیں۔

ان آیات میں جو شاہ صاحب رحمہ اللہ نے پیش کی ہیں، ہم بطور نمونہ کے صرف دو آیتیں انتخاب کرتے ہیں، ان میں سے ایک سورہ نور کی آیت ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَ‌ٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿النور:٥٥﴾

جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم و پائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا وہ میری عبادت کریں گے، (اور) میرے ساتھ کسی اور کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں۔

شاہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ وعدہ (استخلاف و تمکین فی الارض، اور خوف کے بعد امن کا) ان لوگوں کے ساتھ کیا گیا ہے، جو سورہ نور کے نزول کے وقت موجود ، اسلام اور صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف، اور دین کی نصرت و تائید میں شریک تھے، شاہ صاحب رحمہ اللہ صفائی سے لکھتے ہیں کہ اس وعدہ کا اطلاق حضرت معاویہ، بنو امیہ اور بنو عباس پر نہیں ہوتا، جو اس وقت یا تو اسلام نہیں لائے تھے یا مدینہ میں موجود نہیں تھے۔

پھر لکھتے ہیں کہ یہ بات نہ تو ممکن ہے نہ معقول کہ اس پوری جماعت مسلمین کو خلافت فی الارض سے سرفراز کیا جائے اور وہ سب بیک وقت منصب خلافت پر فائز ہوں، اس لئے اس سے کچھ خاص افراد ہی مراد لئے جا سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

"لیستخلفنھم یعنی لیستخلفن جمعاً منھم، و "انقیا و لوازم اوست" یعنی ان میں سے ایک جماعت کو خلیفہ بنایا جائیگا، اور انقیاد و طاعت اس کے لئے شرط ہے، پھر یہ کہ جب اس وعدہ کا تحقق ہو گا، تو دین علی اکمل الوجوہ ظہور میں آئیگا، اور اس کو پورا اقتدار اور اختیار حاصل ہو گا، ایسا نہیں، جیسے اثناعشری حضرات کہتے ہیں کہ خدا کو جو دین پسند ہے وہ ہمیشہ مستور و مخفی رہا ہے، اور اسی بناء پر ائمہ اہل بیت نے ہمیشہ تقیہ سے کام لیا، اور ان کو اپنے دین کے کھلم کھلا اعلان کی کبھی قدرت حاصل نہیں ہوئی "ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم" (ان کے لئے اللہ تعالٰی اس دین کو قوت و غلبہ عطا فرمائیگا، جس کو اس نے ان کے لئے پسند کر لیا ہے) اس سے معلوم ہوا کہ وہ دین خدا کا پسندیدہ اور منتخب دین نہیں جس کا اس زمانہ خلافت میں اعلان و اظہار نہ کیا جا سکے۔ ( ازالۃ الخفا، ص ۱/۲۰۔)
اسی طرح فرماتا ہے "ولیبدلنھم من بعد خوفھم امنا" اس زمانہ استخلاف  میں اللہ تعالیٰ نے خوف و ہراس کی فضا کے بجائے امن و اطمینان کی فضا پیدا کردے گا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مستخلفین اور بقیہ مسلمان اس وعدہ کی تکمیل کے وقت امن و اطمینان کے ساتھ ہوں گے، نہ ان کو مختلف الادیان کفار کا کوئی ڈر ہوگا، اور نہ کسی اور جماعت یا طاقت کا اندیشہ برخلاف اس کے فرقہ امامیہ کے لوگ کہتے ہیں کہ آئمہ اہل بیت ہمیشہ ترساں و ہراساں رہے، اُنہوں نے تقیہ سے کام لیا، ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ہمیشہ مسلمانوں سے اذیت اور تکلیف پیش آئی اور وہ اہانت و ذلت کا سامنا کرتے رہے، اور کبھی مؤید و منصور نہیں رہے۔(ازالۃ الخفاء ج ١، ص ٢٠)، استخلاف اور تمکین فی الارض کے وعدہ کا ظہور اُنہیں مہاجرین اولین اور نزول آیت استخلاف کے وقت موجود رہنے والے حضرات کے ذریعہ ہوا، اور اگر یہ لوگ خلیفہ نہیں تھے، تو اس وعدہ کا ظہور ہی نہیں ہوا، اور نہ قیامت تک ہونے والا ہے تعالی اللہ عن ذلک علوا کبیرا ( ازالۃ الخفاء ج ١، ص ٣٢) 

دوسری آیت قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ (سورۃ الفتح آیت ١٧) کی ہے، شاہ صاحب نے اس آیت پر مفصل بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ٦ھ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ اس خواب کی بناء پر جو آپ نے دیکھا تھا، عمرہ کے قصد سے مکہ معظمہ کی طرف کوچ فرمایا، واقعہ کی اہمیت مکہ معظمہ کے حالات اور قریش کی مخالفت کے خطرہ کی بناء پر صحابہ کرام بڑی تعداد میں ہمرکاب ہوئے، لیکن اعراب (بادیہ کے ساکنین) خوف و نفاق کی بناء پر ساتھ نہیں ہوئے حدیبیہ میں فسخ عزیمت اور قریش کے ساتھ صلح کا وہ تاریخ ساز واقعہ پیش آیا جو حدیث اور سیرت کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ملتا ہے، وہیں وہ بیعت رضوان ہوئی، جس میں شریک ہونے والوں کو اللہ تعالٰی نے اپنی خوشنودی کا خاص پروانہ عطا فرمایا، اور قریبی زمانہ کی فتح کا مژدہ سنایا (سورۃ فتح – ۱۸۔)، پھر اسی سورہ فتح میں یہ بھی اعلان فرما دیا کہ اس فتح قریب (فتح خیبر) میں (جو محرم ۷ھ کا واقعہ ہے) ان اعراب کو ساتھ نہیں لیا جائیگا، جو حدیبیہ کے موقعہ پر موجود نہیں تھے، اور جنہوں نے اس عظیم و خطرناک مہم میں رفاقت سے پہلوتہی کی تھی، اللہ تعالٰی فرماتا ہے :

سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَ‌ٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿الفتح:١٥﴾

جب تم لوگ غنیمتیں لینے چلو گے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ کہیں گے ہمیں بھی اجازت دیجئے کہ آپ کے ساتھ چلیں یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے قول کو بدل دیں کہدو کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے اسی طرح خدا نے پہلے سے فرما دیا ہے، پھر کہیں گے (نہیں) تم تو ہم سے حسد کرتے ہو بات یہ ہے کہ یہ لوگ سمجھے ہی نہیں مگر بہت کم۔
لیکن اس کے بعد ہی ان متخلفین سے فرمایا گیا کہ اس فتح قریب (فتح خیبر) میں  تو تمہیں شركت اور اس كے مغانم سے فائدہ اٹھأنے كی اجازت نہیں ہے، لیكن عنقریب تم كو ایسے لوگوں سے قتال كرنے كے لیے مدعو كیا جائے گا، جن كی ایك صفت تو یہ ہے كہ وہ بڑی شجاعت اور طاقت كے مالك ہیں، دوسرے ان كی خصوصیت ہوگی كہ ان سے یا تو قتال كیا جائے گا یا وہ اسلام لے آئیں گے، درمیان كی كوئی چیز (جزیہ) نہیں ہے، اور یہ دعوتِ قتال اللہ كو ایسی محبوب اور اس كا داعی ایسا معتبر اور واجب اطاعت ہوكا كہ اگر تم اس كی دعوت قبول اور اس كے حكم كی بجا آوری كروگے تو اللہ تعالی تم كو اجر حس سے نوازےگا، اور اگر پہلے كی طرح روگردانی كروگے، تو عذابِ الیم میں مبتلا كرے گا۔

اللہ تعالی فرماتا ہے۔

قُل لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّـهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖ وَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا( سورۃ الفتح۔۱۶)
جو گنوار پیچھے رہ گئے تھے ان سے كہہ دو كہ تم ایك سخت جنگجو قوم كے (ساتھ لڑائی كے )لیے جاؤ گے ان سے تم (یا تو)جنگ كرتےرہو گے یا وہ اسلام سے لائیں گے اگر تم حكم مانوگے توخا تم كو اچھا بدلہ دے گا اور اگر منہ پھیر لو گے جیسے پہلی دفعہ پھیرا تھا تو وہ تم كو بڑی تكلیف كی سزادے گا۔
شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں كہ ’’سَتُد عُوْنَ‘‘ (عنقریب تم بلائے جاؤ گے) سے بطریق اقتضاء ثابت ہوتا ہے كہ زمانہٴ مستقبل میں كوئی ایسا داعی (بُلانے والا) ہوگا جو اعراب

(بادیہ کے رہنے والوں کو جو صلح حُدیبیہ کے موقعہ پر لشکر اسلام کے ساتھ نہیں گئے تھے) کو ایسی قوم سے جنگ کرنے کے لئے دعوت دے گا، جس کے لئے دو ہی شکلیں ہیں یا قتال، یا اسلام (اور جس کا مصداق عرب کے مرتد قبائل ہی ہو سکتے ہیں، جن سے جزیہ لینا جائز نہ تھا، وہ یا تو جنگ میں مارے جاتے یا اسلام قبول کرتے) اور یہ شکل صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پیش آئی جنھوں نے مرتدّین عرب سے قتال کیا، ان کا حکم شرعی یہی تھا ، اس سے مراد نہ رومی ہو سکتے ہیں، نہ ایرانی ، جن کے لئے تین شکلیں تھیں قتال، اسلام اور جزیہ، اس لئے اس سے بداہتہً حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت ثابت ہوتی ہے، جنھوں نے مرتدّین سے جنگ کرنے کے لئے حضرت خالدؓ کی ماتحتی میں فوج بھیجی اور اعراب کو اس کی دعوت دی، پھر اس دعوت کے قبول کرنے پر اجر کا ملنا اور نہ قبول کرنے پر عذاب کا مستحق ہونا ایک خلیفۂ راشد ہی کا مقام و منصب ہے۔ ۱؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ تفصیل کے ملاحظہ ہو ازالۃ الخفا ؃ ۳۹-۳۸ شاہ صاحب کے اس استدلال کی تائید علامہ شہاب الدین محمود الؔالوسی (م١۲۷۰ھ ) کی مشہور تفسیر ’’ روح المعانی ‘‘ سے بھی ہوتی ہے، وہ لکھتے ہیں : ۔

’’ المراد بالمغانم مغانم خیبر کما علیہ عامۃ المفسرین ۔ ‘‘ ۱؎

’’ستدعون الی قوم اولی بأس شدید‘‘ و ھم علی ما اخرج ابن المنذر و الطبرانی عن الزھری بنو حنیفۃ مسیلمۃ و قومہ اھل الیمامہ و عن رافع بن خدیج انا کنا نقرأ ھذہ الایۃ فیما مضی و لا نعلم من ھم حتیٰ دعا ابوبکر رضی اللہ عنہ الی قتال بنی حنیفۃ فعلمنا انھم أرید ا بھا ۔

( ماخوذ از تاریخ دعوت و عزیمت ج 5 ص 263-269، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )