قرآن مجید میں اَسمائے حُسنٰی کی تکرار کا راز


قرآن مجید میں اَسمائے حُسنٰی کی تکرار اصل کا راز


اللہ تعالی  نے خود قرآن مجید میں فرمایا ہے :-
وللہِ الاَسمَاۤءُ الحُسنٰی فَادعُوہُ بِھَا  (سورۃ الاعراف : 180) اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں ، وہی نام لے کر اس کو پکارو۔
یہ نام گنتی میں ننانوے(99) کی تعداد کو پہونچتے ہیں ، قرآن مجید کے اٹھائیسویں(28) پارہ میں  ایک جگہ ان میں سے چودہ (14) نام اس طرح لئے گئے ہیں کہ پڑھنے والے کو وجد سا آنے لگتا ہے ، اور وہ پڑھتے ہوئے جھوم اٹھتا ہے ، یہاں و ہ آیا ت نقل کی جاتی ہیں :-

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (٢٢)هُوَ اللَّهُ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (٢٣)هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الأسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (٢٤)

(سورۃ الحشر : 22-24)

وہ اللہ ایسا (پاک ذات ) ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، پوشیدہ اور ظاہر (سب) کا جاننے  والا ، وہی بڑا مہربان (اور ) رحم کرنے  والا ہے ، وہ اللہ  ایسا (پاک) ذات ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں (تمام جہاں کا ) بادشاہ ہے ، پاک ذات ہے ، (تمام) عیبوں سے بری ہے ، امن دینے والا ہے ، نگہبان ہے ، زبردست ہے ، بڑا دباؤ والا ہے بڑی عظمت رکھتا ہے ، یہ لوگ جیسے جیسے شرک کر تے ہیں اللہ (کی ذات ) اس سے پاک ہے ، وہی اللہ (ہر چیز کا ) خالق (ہر چیز کا ) مُوجد ( مخلوقات کی طرح طرح کی ) صورتیں بنانے والا ہے ( اس کی اچھی اچھی صفتیں ہیں ، اور اسی سبب سے ) اس کے اچھے ہی اچھے نام ہیں جو (مخلوقات ) آسمان و زمین میں ہے (سب ہی تو ) اس کی تسبیح (وتقدیس ) کر تے ہیں ، و ہ زبر دست (اور ) حکمت والا ہے ۔


یہ نام برائے نام نہیں  ، اللہ تعالی کی ( جو اس کائنات ، زمین و آسمان اور انسان کا پیدا کرنے والا اور اس کارخانۂ قدرت کا تنہا چلانے والا ہے ) صفات ہیں ، ان سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ ان خوبیوں ، قدرتوں ، کمالات اور اوصاف کا مالک ہے ، اس کو اپنی مخلوق سے کیسا تعلق ہے ، وہ ان پر کتنا مہربان ہے ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کتنا قابلِ محبت  ، مستحقِ اطاعت و عبادت اور تعظیم و احترام ہے ، کیا چیز ہے جو اس کے پاس نہیں اور اس کےاحاطۂ قدرت میں داخل نہیں ؟ کائنات میں اس سے زیادہ محبت کرنے والا ، اچھائی کی قدر کرنے والا ، رحم کرنے والا ، انصاف کرنے والا ، چھوٹی بڑی چیز کا جاننے والا ، اور بڑی سی بڑی چیز اور مشکل سے مشکل کام کو نیست سے ہست میں لانےوالا ،  اور ناممکن کو ممکن بنانے والا ، اس کے علاوہ کو ن ہے ؟ پھر کیوں نہ اس سے محبت کی جائے ، اس کی بڑائی کی گیت  گائی جائیں ، اٹھتے بیٹھتے اس کا نام لیا جائے ، ہر مشکل ہر مصیبت میں اس کو پکارا جائے ، اس کی دُہائی دی جائے ، اس کے سہارے جیا جائے ، زندگی بھر اس کا دم بھرا جائے ، اور اس کے منشاپر چلا جائے ، اپنی جان اپنے ماں باپ اور اولاد ، اور پیاری سے پیاری چیز سے زیادہ اس سے محبت  کی جائے ، پھر اس سب کے ہوتے ہوئے اس کے سوا کسی کی بندگی کرنے ، کسی سے دعا و التجاکرنے اور کسی کو کار ساز و مشکل کشا سمجھنے کا کیا جواز ہے ۔
رب اور بندہ کے تعلق کو سمجھنے کے لئے بھی خدا کی صفات (ATTRIBUTES) سے واقفیت ضروری ہے ، اس لئے کہ تعلقات ہمیشہ صفات کے تابع ہوتے ہیں ، صفات ہی سے ان کی نمد ہے ، اگر ہم کو کسی دو ہستیوں یا دو شخصیتوں کے صفات کا علم نہیں ، اور ہم حسن سلوک اور احسان مندی کے اس رشتہ سے واقف نہیں جو ان دونوں کے درمیان قائم ہے ، تو ہم ان تعلقات کی صحیح نوعیت کبھی نہیں سمجھ سکتے ، وہ تمام تعلقا ت جن کو ہم زندگی میں برتتے ہیں ، جن سے قانون کی تشکیل ہوتی ہے اور جو کسی تہذیب و معاشرہ کو وجود میں لاتے ہیں ،  وہ سب درحقیقت ان ہی صفات کے تابع ہیں جن کی کارفرمائی انسانی معاشرہ پر ہم کو نظر آرہی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ تمام آسمانی صحیفے اور تمام مذہبوں اور شریعتون نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ زور خدا کی صفات پر دیا ہے، اس کے بعد عبادات ، طاعات اور فرائض و معاملات کی تفصیل بیان کی ہے ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالے کے صفات کریمہ ، اسمائے حسنی  ، اس کے افعال و تصرفات ، اس کی قوت و قدرت ، اس کی صنعت  وخلاقی ، اس کے لطف و رحمت ، اس کی محبت و رافت ، اس کے جود وکرم ، اس کے عفو و درگذر ،  اس کے عطا و منع ، اس کے نفع و ضرر ، اس کے علم و معرفت اس کے قرب و معیت ، اس کے احاطۂ  قدرت اور اس کے قبول و نواز ش کو اس طرح بیان کیا ہے کہ جمال ، و جلال ، کمال و نوال ، اور حسن و احسان کی آخری مثال بندہ کے سامنے آجاتی ہے ۔ 
وللہ المثل الاعلی وھو العزیز الحکیم (سورۃ النمل – 60) اللہ کی شان (سب سے ) اعلی ہے ، اور وہ زبردست حکمت والا ہے ۔
لیس کمشلہ شیئ وھو السمیع البصیر ( سورۃ الشوری -11) کوئی چیز اس کے مثل نہیں اور وہی ہر بات کا سننے والاہے (ہر چیز ) دیکھنے والاہے ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی کے صفات و افعال اور اس کے انعامات کا اتنی کثرت سے ذکر اور اعادہ و تکرار اور اس قدر شرح و بسط کے ساتھ بیان کا اصل راز یہی ہے ، اس لئے کہ صفات ہی محبت و شوق کا سر چشمہ ہیں یہی اثبات ہے (ASSERTION) (یعنی اللہ تعالی کی صفات کریمہ کا بیان اور اس کے دلائل و شواہد کا ذکر )  جس سے انسان کے ذوق و شوق کو غذا ملتی ہے ، اور محبت جوش مانے لگتی ہے ، اگر اللہ تعالی کی یہ صفات عالیہ اور اسمائے حسنی ہمارے سامنے نہ ہوں ، جن سے قرآن و حدیث بھرے پڑے ہیں  اور جن پر عشاق اور محبین ہمیشہ سر دھنتے رہے ، عارفین ان کے ترانے گاتے رہے ، ذاکرین ان کی تسبیح میں مشغول رہے ، اور ان کاکلمہ پڑھتے رہے ، تو ان کا دین ایک چوبی اور آہنی نظام کی طرح ہوجاتا،  جس کی  دلوں میں کوئی جگہ نہ ہوتی ، یہ نہ ان میں کوئی جذبہ ار گرم جوشی پیدا کرسکتا ، نہ ان کے دلوں کو گرم اور نہ آنکھوں کو نم کر نے کی صلاحیت رکھتا ، نہ اس سے دعا میں انابت و رقت کی کیفیت ہوتی نہ دل میں سر فروشی کا جوش ، نہ سر میں  اس کا سود ا ، اس کے بغیر خدا اور بندہ کا تعلق ایک مردہ اور محدود تعلق ہے ، اس میں نہ کوئی زندگی ہے ، نہ روح ، نہ لچک نہ وسعت ، زندگی ایک ایسی خشک ، سخت اور بے جان چیز ہے ، جو لذت آرزو ، متاع شوق ، جنون و شوریدگی کی دولت سے باکل تہی دامن اور محروم ہے ۔
اگر انسانیت سے یہ دولت چھین لی جائے ، تو زندگی اور موت،  اور انسان و جمادات میں آخر کیا فرق  باقی رہ جائے گا ؟

(ماخوز  از" اسمائے حسنی"  تالیف : مفکر اسلام سید ابوالحسن علی  ندوی ؒ  ، دائرہ حضرت شاہ علم اللہ ؒ رائے بریلی ، 16
 شوال المکرّم 1410ھ ،  12 مئی 1990ء)