سچی دین داری اور یہود کی بے دینی

 کسی گروہ پر اللہ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ وہ اس کے پاس اپنا پیغمبر بھیجے اور اس کے ذریعے اس گروہ کے اوپر ابدی فلاح کا راستہ کھولے۔ نبی آخر الزماں کی بعثت سے پہلے یہ نعمت بنی اسرائیل (یہود) کو دی گئی تھی مگر مدت گزرنے کے بعد ان کا دین ان کے لیے ایک قسم کی تقلیدی رسم بن گیا تھا نہ کہ شعوری فیصلہ کے تحت اختیار کی ہوئی ایک چیز۔

 نبی عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت نے حقیقت کھول دی۔ ان میں سے جن افراد کا شعور زندہ تھا وہ فوراً آپ کی صداقت کو پہچان گئے اور آپ کے ساتھ بن گئے۔ اور جن لوگوں کے لیے ان کا دین آبائی رواج بن چکا تھا ان کو آپ کی آواز نامانوس آواز لگی۔ وہ بدک گئے اور آپ کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔ اگرچہ آپ کی نبوت کے بارے میں تورات میں اتنی واضح علامتیں تھیں کہ یہود کے لیے آپ کی صداقت کو سمجھنا مشکل نہ تھا، مگر دنیوی مفاد اور مصلحتوں کی خاطر انہوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔

 صدیوں کے عمل سے ان کے یہاں جو مذہبی ڈھانچہ بن گیا تھا اس میں ان کو سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ وہ بزرگوں کی گدیوں پر بیٹھ کر عوام کا مرجع بنے ہوئے تھے۔ مذہب کے نام پر طرح طرح کے نذرانے سال بھر ان کو ملتے رہتے تھے۔ ان کو نظر آیا کہ اگر انہوں نے نبی عربی کو سچا مان لیا تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ مفادات کا سارا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا۔ 

یہود کو چوں کہ اس وقت عرب میں مذہب کی نمائندگی کا مقام حاصل تھا، لوگ ان سے نبی عربی کی بابت پوچھتے۔ وہ معصومانہ انداز میں کوئی ایسی شوشہ کی بات کہہ دیتے جس سے پیغمبر کی ذات اور آپ کا مشن لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجائے۔ اپنے وعظوں میں وہ لوگوں سے کہتے کہ حق پرست بنو اور حق کا ساتھ دو۔ مگر عملاً جب خود ان کے لیے حق کا ساتھ دینے کا وقت آیا تو وہ حق کا ساتھ نہ دے سکے ۔

خدا کی پکار پر لبیک کہنا جب اس قیمت پر ہو کہ آدمی کو اپنی زندگی کا ڈھانچہ بدلنا پڑے، عزت و شرف کی گدیوں سے اپنے کو اتارنا ہو تو یہ وقت ان لوگوں کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے جو انہیں دنیوی جلووں میں اپنا مذہبی مقام بنائے ہوئے ہوں، مگر وہ لوگ جو خشوع کی سطح پر جی رہے ہوں ان کے لیے یہ چیزیں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ وہ اللہ کی یاد میں، اللہ کے لیے خرچ کرنے میں، اللہ کے حکم کے آگے جھک جانے میں اور اللہ کے لیے صبر کرنے میں وہ چیز پا لیتے ہیں جو دوسرے لوگ دنیا کے تماشوں میں پاتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ ڈرنے کی چیز اللہ کا غضب ہے نہ کہ دنیوی اندیشے ۔ (تفسیر سورۃ البقرۃ  آیات 40 تا 46) 

یہود کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے درگزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور "خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام" وغیرہ۔ اس سے یہود کی اگلی نسلیں اس غلط فہمی پڑگئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے پشتینی نہیں ہوتے۔

 کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔

سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کو معبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔ (تفسیر آیات 47۔۔ ۔57)


یہود پر اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعامات کیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ خدا کے شکر گزار بندے بنتے مگر انہوں نے بالکل برعکس ثبوت دیا۔ ایک بڑا شہر ان کے قبضہ میں دے دیا گیا اور کہا گیا کہ اس میں داخل ہو تو فاتحانہ تمکنت سے نہیں بلکہ عجز کے ساتھ اور اللہ سے معافی مانگتے ہوئے۔ مگر وہ اس کے بجائے تفریحی کلمات بولنے لگے۔ ان کو من و سلوی کی قدرتی غذائیں دی گئیں تاکہ وہ معاشی جدوجہد سے فارغ رہ کر احکام الٰہی کی بجا آوری میں زیادہ سے زیادہ مشغول ہوں مگر انہوں نے چٹ پٹے اور مسالہ دار کھانوں کا مطالبہ شروع کردیا۔ انہوں نے دنیا میں ضرورت پر قناعت نہ کرکے لذت کی تلاش کی۔ ان کی بے حسی اتنی بڑھی کہ اللہ کی کھلی کھلی نشانیاں بھی ان کے دلوں کو پگھلانے کے لیے کافی ثابت نہ ہوئیں۔ ان کی تنبیہہ کے لیے جو اللہ کے بندے اٹھے ان کو انہوں نے ٹھکرایا حتی کہ قتل کرڈالا۔ یہود میں یہ ڈھٹائی اس لیے پید اہوئی کہ انہوں نے سمجھ لیا کہ وہ نجات یافتہ گروہ ہیں۔ مگر خدا کے یہاں نسلی اور گروہی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہونے والا نہیں۔ ایک یہودی کو بھی اسی خدائی قانون سے جانچا جائے گا جس سے ایک غیر یہودی کو جانچا جائے گا۔ جنت اسی کے لیے ہے جو جنت والے عمل کرے نہ کہ کسی نسل یا گروہ کے لیے ۔

زمین کے اوپر شکر، صبر، تواضع اور قناعت کے ساتھ رہنا زمین کی اصلاح ہے۔ اس کے برعکس ناشکری، بے صبری، گھمنڈ اور حرص کے ساتھ رہنا زمین میں فساد برپا کرنا ہے، کیونکہ اس سے خدا کا قائم کیا ہوا فطری نظام ٹوٹتا ہے۔ یہ حد سے نکل جانا ہے جب کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ ہر ایک اپنی حد کے اندر عمل کرے ۔ (تفسیر آیات 58 تا 61)

 
(تذکیر القرآن ، تفسیر سورۃ البقرۃ آیت : 40 تا 61 ، مولانا وحید الدین خاں)