اللہ تعالی اپنی نشانیوں سے انسانوں کو جانچتا ہے ۔

آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس کے درمیان کھڑا کیا اور سجدہ کے امتحان کے ذریعہ آدم کو عملی طور پر بتایا کہ ان کے لیے زمین پر دو ممکن راہیں ہوں گی۔ ایک فرشتوں کی طرح حکم الٰہی کے سامنے جھک جانا، خواہ اس کا مطلب اپنے سے کمتر ایک بندے کے آگے جھکنا کیوں نہ ہو۔ دوسرا ابلیس کی طرح اپنے کو بڑا سمجھنا اور دوسرے کے آگے جھکنے سے انکار کردینا۔ انسان کی پوری زندگی اسی امتحان کی رزم گا ہہے۔ 

یہاں ہر وقت آدمی کو دو رویوں میں سے کسی ایک رویہ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ایک ملکوتی رویہ، یعنی دنیا کی زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے، اللہ کے حکم کی تعمیل میں آدمی حق و انصاف کے آگے جھک جائے۔ دوسری شیطانی رویہ، یعنی جب کوئی معاملہ پیش آئے تو آدمی کے اندر حسد اور گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھیں اور وہ انکے زیر اثر آ کر صاحب معاملہ کے آگے جھکنے سے انکار کردے ۔

ممنوعہ درخت کا معاملہ بھی اسی ذیل کا ایک عملی سبق ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بھٹکنے کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے ورغلانے میں آجائے اور اس حد میں قدم رکھ دے جس میں جانے سے اللہ نے منع کیا ہے۔ "منع کیے ہوئے پھل" کو کھاتے ہی آدمی اللہ کی نصرت، بالفاظ دیگر جنت کے استحقاق سے محروم ہوجاتا ہے۔

 تاہم یہ محرومی ایسی نہیں ہے جس کی تلافی نہ ہوسکتی ہو۔ یہ امکان آدمی کے لیے پھر بھی کھلا رہتا ہے کہ وہ دوبارہ اپنے رب کی طرف لوٹے اور اپنے رویہ کو درست کرتے ہوئے اللہ سے معافی کا طلب گار ہو۔ جب بندہ اس طرح پلٹتا ہے تو اللہ بھی اس کی طرف پلٹ آتا ہے اور اس کو اس طرح پاک کردیتا ہے گویا اس نے گناہ ہی نہٰیں کیا تھا۔ 

کسی انسانی آبادی میں اللہ کی دعوت کا اٹھنا بھی اسی قسم کا ایک سخت امتحان ہے۔ داعی حق بھی گویا ایک "آدم" ہوتا ہے جس کے سامنے لوگوں کو جھک جانا ہے۔ اگر وہ اپنے کبر اور اپنے تعصب کی وجہ سے اس کا اعتراف نہ کریں تو گویا کہ انہوں نے ابلیس کی پیروی کی۔ خدا اس دنیا میں عیاناً سامنے نہیں آتا، وہ اپنی نشانیوں کے ذریعہ لوگوں کو جانچتا ہے۔ جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو پایا اسی نے خدا پایا اور جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو نہیں پایا وہ خدا سے محروم رہا ۔

(تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خاں ، تفسیر سورۃ البقرۃ آیت : 34 تا 39)