"اور خود (یہودیوں نے) کہا کہ ہم نے مسیح، عیسیٰ ابن مریم، رسول اللہ کو قتل کردیا ہے۔ ۔۔ حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کردیا گیا ۔ اور جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں، ان کے پاس اس معاملہ میں کوئی علم نہیں ہے، محض گمان ہی کی پیروی ہے ۔انہوں نے مسیح کو یقین کے ساتھ قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا، اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے ۔اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لے آئے گا اور قیامت کے روز وہ ان پر گواہی دے گا"
(سورۃ النساء آیت : 157-159)
سید ابوالاعلی مودودی ؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ "حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا معاملہ یہودی قوم میں فی الواقع ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا بلکہ جس روز وہ پیدا ہوئے تھے اسی روز اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو اس بات پر گواہ بنا دیا تھا کہ یہ ایک غیر معمولی شخصیت کا بچہ ہے جس کی ولادت معجزے کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی اخلاقی جرم کا۔ جب بنی اسرائیل کے ایک شریف ترین اور مشہور و نامور مذہبی گھرانے کی بن بیاہی لڑکی گود میں بچہ لیے ہوئے آئی، اور قوم کے بڑے اور چھوٹے سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اس کے گھر پر ہجوم کر کے آگئے، تو اس لڑکی نے ان کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے خاموشی کے ساتھ اس نوزائیدہ بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ تمہیں جواب دے گا۔ مجمع نے حیرت سے کہا کہ اس بچہ سے ہم کیا پوچھیں جو گہوارے میں لیٹا ہوا ہے۔ مگر یکایک وہ بچہ گویا ہوگیا اور اس نے نہایت صاف اور فصیح زبان میں مجمع کو خطاب کر کے کہا کہ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ ” میں اللہ کا بندہ ہوں، اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔“(سورہ مریم رکوع ٢)۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کی ہمیشہ کے لیے جڑ کاٹ دی تھی جو ولادت مسیح کے بارے میں پیدا ہوسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سن شباب کو پہنچنے تک کبھی کسی نے نہ حضرت مریم (علیہ السلام) پر زنا کا الزام لگایا، نہ حضرت عیسیٰ کو ناجائز ولادت کا طعنہ دیا۔ لیکن جب تیس برس کی عمر کو پہنچ کر آپ نے نبوت کے کام کی ابتدا فرمائی، اور جب آپ نے یہودیوں کو ان کی بد اعمالیوں پر ملامت کرنی شروع کی، ان کے علماء و فقہاء کو ان کی ریاکاریوں پر ٹوکا، ان کے عوام اور خواص سب کو اس اخلاقی زوال پر متنبہ کیا جس میں وہ مبتلا ہوگئے تھے، اور اس پرخطر راستے کی طرف اپنی قوم کو دعوت دی جس میں خدا کے دین کو عملاً قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں برداشت کرنی پڑتی تھیں اور ہر محاذ پر شیطانی قوتوں سے لڑائی کا سامنا تھا، تو یہ بےباک مجرم صداقت کی آواز کو دبانے کے لیے ہر ناپاک سے ناپاک ہتھیار استعمال کرنے پر اتر آئے۔ اس وقت انہوں نے وہ بات کہی جو تیس سال تک نہ کہی تھی کہ مریم علیہا السلام معاذاللہ زانیہ ہیں اور عیسیٰ ابن مریم ولد الزنا۔ حالانکہ یہ ظالم بالیقین جانتے تھے کہ یہ دونوں ماں بیٹے اس گندگی سے بالکل پاک ہیں۔ پس درحقیقت ان کا یہ بہتان کسی حقیقی شبہہ کا نتیجہ نہ تھا جو واقعی ان کے دلوں میں موجود ہوتا، بلکہ خالص بہتان تھا جو انہوں نے جان بوجھ کر محض حق کی مخالفت کے لیے گھڑا تھا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم اور جھوٹ کے بجائے کفر قرار دیا ہے کیونکہ اس الزام سے ان کا اصل مقصد خدا کے دین کا راستہ روکنا تھا نہ کہ ایک بےگناہ عورت پر الزام لگانا۔
یعنی جرأت مجرمانہ اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ رسول کو رسول جانتے تھے اور پھر اس کے قتل کا اقدام کیا اور فخریہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول کو قتل کیا ہے۔ اوپر ہم نے گہوارے کے واقعہ کا جو حوالہ دیا ہے اس پر غور کرنے سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ یہودیوں کے لیے مسیح (علیہ السلام) کی نبوت میں شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ تھی۔ پھر جو روشن نشانیاں انہوں نے حضرت موصوف سے مشاہدہ کیں ( جن کا ذکر سورۃ آل عمران رکوع ٥ میں گزر چکا ہے) ان کے بعد تو یہ معاملہ بالکل ہی غیر مشتبہ ہوچکا تھا کہ آنجناب اللہ کے پیغمبر ہیں۔ اس لیے واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر نہ تھا بلکہ وہ خوب جانتے تھے کہ ہم اس جرم کا ارتکاب اس شخص کے ساتھ کر رہے ہیں جو اللہ کی طرف سے پیغمبر بن کر آیا ہے۔
بظاہر یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ کوئی قوم کسی شخص کو نبی جانتے اور مانتے ہوئے اسے قتل کر دے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ بگڑی ہوئی قوموں کے انداز و اطوار ہوتے ہی کچھ عجیب ہیں۔ وہ اپنے درمیان کسی ایسے شخص کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں جو ان کی برائیوں پر انہیں ٹوکے اور ناجائز کاموں سے ان کو روکے۔ ایسے لوگ چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہوں، ہمیشہ بد کردار قوموں میں قید اور قتل کی سزائیں پاتے ہی رہے ہیں۔ تلمود میں لکھا ہے کہ بخت نصر نے جب بیت المَقْدِس فتح کیا تو وہ ہیکل سلیمانی میں داخل ہوا اور اس کی سیر کرنے لگا۔ عین قربان گاہ کے سامنے ایک جگہ دیوار پر اسے ایک تیر کا نشان نظر آیا۔ اس نے یہودیوں سے پوچھا یہ کیسا نشان ہے؟ انہوں نے جواب دیا”یہاں زکریا نبی کو ہم نے قتل کیا تھا۔ وہ ہماری برائیوں پر ہمیں ملامت کرتا تھا۔ آخر جب ہم اس کی ملامتوں سے تنگ آگئے تو ہم نے اسے مار ڈالا“۔ بائیبل میں یرمیاہ نبی کے متعلق لکھا ہے کہ جب بنی اسرائیل کی بد اخلاقیاں حد سے گزر گئیں اور حضرت یرمیاہ نے ان کو متنبہ کیا کہ ان اعمال کی پاداش میں خدا تم کو دوسری قوموں سے پامال کرادے گا تو ان پر الزام لگایا گیا کہ یہ شخص کسدیوں (کلدانیوں) سے ملا ہوا ہے اور قوم کا غدار ہے۔ اس الزام میں ان کو جیل بھیج دیا گیا۔ خود حضرت مسیح (علیہ السلام) کے واقعہ صلیب سے دو ڈھائی سال پہلے ہی حضرت یحییٰ کا معاملہ پیش آچکا تھا۔ یہودی بالعموم ان کو نبی جانتے تھے اور کم از کم یہ تو مانتے ہی تھے کہ وہ ان کی قوم کے صالح ترین لوگوں میں سے ہیں۔ مگر جب انہوں نے ہیرو دیس (والی ریاست یہودیہ) کے دربار کی برائیوں پر تنقید کی تو اسے برداشت نہ کیا گیا۔ پہلے جیل بھیجے گئے، اور پھر والی ریاست کی معشوقہ کے مطالبے پر ان کا سر قلم کردیا گیا۔ یہودیوں کے اس ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے زعم میں مسیح کو سولی پر چڑھانے کے بعد سینے پر ہاتھ مار کر کہا ہو“ ہم نے اللہ کے رسول کو قتل کیا ہے”۔
یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) صلیب پر چڑھائے جانے سے پہلے اٹھا لیے گئے تھے اور یہ کہ مسیحیوں اور یہودیوں، دونوں کا یہ خیال کہ مسیح نے صلیب پر جان دی، محض غلط فہمی پر مبنی ہے۔ قرآن اور بائیبل کے بیانات کا متقابل مطالعہ کرنے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ غالباً پیلاطس کی عدالت میں تو پیشی آپ ہی کی ہوئی تھی، مگر جب وہ سزائے موت کا فیصلہ سنا چکا، اور جب یہودیوں نے مسیح جیسے پاک نفس انسان کے مقابلہ میں ایک ڈاکو کی جان کو زیادہ قیمتی ٹھیرا کر اپنی حق دشمنی و باطل پسندی پر آخری مہر بھی لگا دی، تب اللہ تعالیٰ نے کسی وقت آنجناب کو اٹھالیا۔ بعد میں یہودیوں نے جس شخص کو صلیب پر چڑھایا وہ آپ کی ذات مقدس نہ تھی بلکہ کوئی اور شخص تھا جس کو نہ معلوم کس وجہ سے ان لوگوں نے عیسیٰ ابن مریم سمجھ لیا۔ تاہم ان کا جرم اس سے کم نہیں ہوتا۔ کیونکہ جس کو انہوں نے کانٹوں کا تاج پہنایا، جس کے منہ پر تھوکا اور جسے ذلت کے ساتھ صلیب چڑھایا اس کو وہ عیسیٰ بن مریم ہی سمجھ رہے تھے۔ اب یہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ معاملہ کس طرح ان کے لیے مشتبہ ہوگیا۔ چونکہ اس باب میں کوئی یقینی ذریعہ معلومات نہیں ہے اس لیے مجرد قیاس و گمان اور افواہوں کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس شبہ کی نوعیت کیا تھی جس کی بنا پر یہودی یہ سمجھے کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم کو صلیب دی ہے درآں حالے کہ عیسیٰ ابن مریم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔
اختلاف کرنے والوں سے مراد عیسائی ہیں۔ ان میں مسیح (علیہ السلام) کے مصلوب ہونے پر کوئی ایک متفق علیہ قول نہیں ہے بلکہ بیسیوں اقوال ہیں جن کی کثرت خود اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل حقیقت ان کے لیے بھی مشتبہ ہی رہی۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر جو شخص چڑھایا گیا وہ مسیح نہ تھا بلکہ مسیح کی شکل میں کوئی اور تھا جسے یہودی اور رومی سپاہی ذلت کے ساتھ صلیب دے رہے تھے اور مسیح وہیں کسی جگہ کھڑا ان کی حماقت پر ہنس رہا تھا۔ کوئی کہتا ہے کہ صلیب پر چڑھایا تو مسیح ہی کو گیا تھا مگر ان کی وفات صلیب پر نہیں ہوئی بلکہ اتارے جانے کے بعد ان میں جان تھی۔ کوئی کہتا ہے کہ انہوں نے صلیب پر وفات پائی اور پھر وہ جی اٹھے اور کم و بیش دس مرتبہ اپنے مختلف حواریوں سے ملے اور باتیں کیں۔ کوئی کہتا ہے کہ صلیب کی موت مسیح کے جسم انسانی پر واقع ہوئی اور وہ دفن ہوا مگر الوہیت کی روح جو اس میں تھی وہ اٹھالی گئی۔ اور کوئی کہتا ہے کہ مرنے کے بعد مسیح (علیہ السلام) جسم سمیت زندہ ہوئے اور جسم سمیت اٹھائے گئے۔ ظاہر ہے کہ اگر ان لوگوں کے پاس حقیقت کا علم ہوتا تو اتنی مختلف باتیں ان میں مشہور نہ ہوتیں ۔ (1)
مولانا صلاح الدین یوسف اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں " یہ نص صریح ہے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور متواتر صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ یہ حدیث کی تمام کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بھی وارد ہیں۔ ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول کا اور دیگر بہت سی باتوں کا تذکرہ ہے۔ امام ابن کثیر یہ تمام روایات کا ذکر کر کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں پس یہ احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر ہیں۔ ان کے راویوں میں حضرت ابوہریرہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابو امامہ، نواس بن سمعان، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، مجمع بن جاریہ، ابی سریحہ اور حذیفہ بن اسیر (رض) ہیں۔ ان احادیث میں آپ کے نزول کی صفت اور جگہ کا بیان ہے، آپ (علیہ السلام) دمشق میں منارہ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہوگی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ معاف کر دیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہوجائیں، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہوگا اور یاجوج و ماجوج کا ظہور و فساد بھی آپ کی موجودگی میں ہوگا، بالآخر آپ ہی کی بددعا سے ان کی ہلاکت واقع ہوگی۔ (2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) (تفہیم القرآن سورۃ النساء آیات : 157-159، مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ )
(2) ( سورۃ النساء آیات : 157-159ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی ، تفسیری حواشی مولانا یوسف صلاح الدین ، مطبع شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس )