مُصلِحین اور مُفسِدین میں فرق


جو لوگ فائدوں اور مصلحتوں کو اولین اہمیت دیے ہوئے ہوتے ہیں ان کے نزدیک یہ نادانی کی بات ہوتی ہے کہ کوئی شخص تحفظات کے بغیر اپنے آپ کو ہمہ تن حق کے حوالے کردے۔ ایسے لوگوں کی حقیقی وفاداریاں اپنے دنیوی مفادات کے ساتھ ہوتی ہیں۔ البتہ اسی کے ساتھ وہ حق سے بھی اپنا ایک ظاہری رشتہ قائم کرلیتے ہیں۔ اس کو وہ عقل مندی سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کی دنیا بھی محفوظ ہے اور اسی کے ساتھ ان کو حق پرستی کا تمغہ بھی حاصل ہے۔

 مگر یہ ایک ایسی خوش فہمی ہے جو صرف آدمی کے اپنے دماغ میں ہوتی ہے۔ اس کے دماغ کے باہر کہیں اس کا وجود نہیں ہوتا۔ آزمائش کا ہر موقع ان کو سچے دین سے کچھ اور دور اور اپنے مفاد پرستانہ دین سے کچھ اور قریب کردیتا ہے۔ اس طرح گویا ان کے نفاق کا مرض بڑھتا رہتا ہے۔

 ایسے لوگ جب سچے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو ان کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ سچائی کی خاطر اپنے کو برباد کررہے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اپنے طریقے کو وہ اصلاح کا طریقہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ اس طرح کسی سے جھگڑا مول لیے بغیر اپنے سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کی جا سکتا ہے۔ مگر یہ صرف بے شعوری کی بات ہے۔

 اگر وہ گہرائی کے ساتھ سوچیں تو ان پر کھلے گا کہ اصلاح یہ ہے کہ بندے صرف اپنے رب کے ہوجائیں۔ اس کے برعکس فساد یہ ہے کہ خدا اور بندے کے تعلق کو درست کرنے کے لیے جو تحریک چلے اس میں روڑے اٹکائے جائیں۔ ان کا یہ بظاہر نفع کا سودا حقیقۃً گھاٹے کا سودا ہے۔ کیونکہ وہ بے آمیز حق کو چھوڑ کر ملاوٹی حق کو اپنے لیے پسند کر رہے ہیں جو کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ 

اپنے دنیوی معاملات میں ہوشیار ہونا اور آخرت کے معاملہ میں سرسری توقعات کو کافی سمجھنا گویا خدا کے سامنے جھوٹ بولنا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں ان کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس قسم کی جھوٹی زندگی آدمی کو اللہ کے یہاں عذاب کے سوا کسی اور چیز کا مستحق نہیں بناتی ۔


(تذکیر القرآن ، سورۃ البقرۃ  آیت 8 تا 16: مولانا وحید الدین خان )