انسان اور انسان کے سوا جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے، اس نے پوری کائنات کو نہایت حکمت کے ساتھ قائم کیا ہے۔ وہ ہر آن ان کی پرورش کر رہا ہے۔
اس لیے انسان کے لیے صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کو بغیر کسی شرکت کے خالق، مالک اور رازق تسلیم کرے، وہ اس کو اپنا سب کچھ بنا لے مگر خدا چونکہ نظر نہیں آتا اس لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی نظر آنے والی چیز کو اہم سمجھ کر اس کو خدائی کے مقام پر بٹھا لیتا ہے۔ وہ ایک مخلوق کو، جزئی یا کلی طور پر، خالق کے برابر ٹھہرالیتا ہے، کبھی اس کو خدا کا نام دے کر اور کبھی خدا کا نام دئیے بغیر۔ یہی انسان کی اصل گم راہی ہے۔
پیغمبر کی دعوت یہ ہوتی ہے کہ آدمی صرف ایک خدا کو بڑائی کا مقام دے۔ اس کے علاوہ جس جس کو اس نے خدائی عظمت کے مقام پر بٹھا رکھا ہے اس کو عظمت کے مقام سے اتار دے۔ جب خالص خدا پرستی کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ جن کا دل خدا کے سوا کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔ جنہوں نے خدا کے سوا کسی اور کے لیے بھی عظمت کو خاص کر رکھاہو۔ ایسے لوگوں کو اپنے فرضی معبودوں سے جو شدید تعلق ہوچکا ہوتا ہے اس کی وجہ سے ان کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ بے حقیقت ہیں اور حقیقت صرف اس پیغام کی ہے جو آدمیوں میں سے ایک آدمی کی زبان سے سنایا جا رہا ہے۔
جو دعوت خدا کی طرف سے اٹھے اس کے اندر لازمی طور پر خدائی شان شامل ہوجاتی ہے۔ اس کا ناقابل تقلید اسلوب اور اس کا غیر مفتوح استدلال اس بات کی کھلی علامت ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ اس کے باوجود جولوگ انکار کریں ان کو خدا کی دنیا میں جہنم کے سوا کہیں اور پناہ نہیں مل سکتی۔ البتہ جو لوگ خدا کے کلام میں خدا کو پالیں انہوں نے گویا آج کی دنیا میں کل کی دنیا کو دیکھ لیا۔ یہی لوگ ہیں جو آخرت کے باغوں میں داخل کیے جائیں گے ۔
(تذکیر القرآن، تفسیر سورۃ البقرۃ آیات 21 تا 25، مولانا وحید الدین خاں)