قرآن کی تفسیر کے لیے کیا انداز اختیا ر کیاجائے؟ مولانا وحید الدین خان

قرآن اگرچہ ایک اعلی ترین علمی کتاب ہے، اس میں فطری حدود کے اندر علم وعقل کی پوری رعایت رکھی گئی ہے۔ مگر قرآن میں کسی بات کو ثابت کرنے کے لئے معروف علمی اور فنی انداز اختیا ر نہیں کیا گیا ہے۔ قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ فنی آداب اور علمی اصطلاحات کو چھوڑ کر اصل بات کو موثر دعوتی اسلوب میں بیان کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کا مقصد علمی مطالعہ بیش کرنا نہیں ہے اس کا مقصد تذکیر و نصیحت ہے اور تذکیر و نصیحت کے لیے ہمیشہ سادہ اسلوب کارآمد ہوتا ہے نہ کہ فنی اسلوب ۔ 
قرآن کی تفسیر اور اس کا انداز کیا ہو؟



تاہم ایک طالب علمانہ ضرورت ہے کہ قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک آدمی قرآن کے بیانات کی علمی تفصیلات اور اس کے فنی پہلوؤں کو جانناچاہے ۔ ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ قرآن کی تفسیر کے لیے کیا انداز اختیا ر کیاجائے۔ قرآن کی تفسیر اگر اس کے اپنے سادہ دعوتی اسلوب میں کی جائے تو اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ تفسیر میں نصیحت اور تذکیر کی فضا باقی رہے گی جو قرآن کا اصل مقصود ہے مگر ایسی صورت میں خالص علمی تقاضوں کی رعایت نہ ہو سکے گی ۔ دوسری طرف اگر علمی و فنی پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مفصل تفسیر لکھی جائے تو بعض خاص طبیعتوں کو وہ پسند آسکتی ہے ۔ مگر عام لوگوں کے لیے وہ ایک خشک دستاویز بن کر رہ جائے گی ۔ مزید یہ کہ وہ قرآن کے اصل مقصد ــــــــــــــــ تذکیر و نصحیت کو مجروح کرنے کی قیمت پر ہوگا ۔ 

اس مسئلہ کا ایک سادہ حل یہ ہے کہ تفسیر اور معلومات کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے ۔ قرآن کے ساتھ جو تفسیر شائع کی جائے وہ خود تو نصیحت اور تذکیر کے انداز میں ہو ۔ اس کے بعد اس سے الگ ایک مستقل کتاب قاموس القرآن یا قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے طور مرتب کرکے شائع کی جائے ۔ اس دوسری کتاب میں وہ تمام فنی بحثیں اور علمی اور تاریخی معلومات ہوں جو قرآنی حوالوں کو تفصیلی انداز میں سمجھنے کے لیے ضروری ہیں ۔ مثلا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق آیات کے ذیل میں جو تفسیر لکھی جائے اس میں تو آنجناب کی زندگی کے صرف قابل عبرت پہلوؤں کی وضاحت ہو جن کی طرف قرآن میں اشارے کئے گئے ہیں ۔ ان کے علاوہ آپ کے بارے میں جو تاریخی اور اثریاتی معلومات ہیں ان کا قاموس القرآن میں جمع کر دیا جائے جن کو آدمی لفظ " ابراھیم " کے تحت دیکھ سکے ۔ اسی طرح نحوی ، فقہی ، کلامی اور طبیعتی مسائل کی تفصیلات بھی قرآن کی انسائیکلوپیڈیا میں درج ہوں نہ کہ قرآن کی تفسیر میں ۔ 

تذکیر القرآن (مولانا وحید الدین خاں کی تفسیر )  اسی نہج پر قرآن کی ایک خدمت ہے ۔ تذکیر القرآن کو ہم نے اصل مطالب قرآن کی یاد دہانی تک محدود رکھا ہے ۔ اور جہاں تک دیگر علمی و فنی معلومات کا تعلق ہے وہ انشاء اللہ علیحدہ کتاب کی صورت مٰیں مرتب کرکے شائع کی جائیں گی ۔ 


یہ انداز عین وہی ہے جو خود قرآن نے اختیا ر کیا ہے ۔ قرآن میں طبیعات اور فلکیات کے حوالے ہیں مگر ان کی تفصیلات کو خدا نے چھوڑ دیا کہ بعد کے زمانے کے اہل علم انہیں دریافت کر کے ان کو مدون کریں ۔ قرآن میں قدیم شخصیتوں کا ذکر ہے۔ مگر خدا نے یہ کام آئندہ آنے والے ماہرین اثریات کے لیے باقی رکھا کہ وہ ان کی تحقیق کریں ۔ اور ان کی تاریخی تفصیلات سے دنیا کو آگاہ کریں ۔ خدا قرآن میں خود ان تمام واقعات کو شامل کر سکتا تھا ۔ مگر وہ صرف اس قیمت پر ہوتا کہ قرآن میں عبرت اور نصیحت کی فضا ختم ہوجائے ۔ چنانچہ خدانے ہر چیز سے باخبر ہونے کے باوجود ، سارا زور صرف نصیحت کی باتوں پر دیا اور بقیہ تفصیلات کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیا ۔ 

قرآن مین ایک طرف معلومات کی نوعیت کی بے شمار تفصیلی باتوں کو چھوڑدیا گیا ہے ۔ دوسری طرف بنیادی نصیحت والی باتوں کو بار بار دہرایا گیا ہے ۔ حتی کہ بہت سے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ قرآن میں مضامین کی تکرار ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کا یہ مقصد نہیں کہ لوگ اس کو معلومات کی ایک کتاب سمجھ کر پڑھ لیں ۔

قرآن خدا اور آخرت کی باتوں کو لوگوں کی روح کی غذا بناناچاہتا ہے ۔ کسی چیز کو آدمی معلوماتی طور پر پڑھے تو اس کی تکرار اس کو ناگوار ہوگی ۔ مگر جو چیز آدمی کی زندگی میں روح کی غذا بن کر داخل ہو جائے اس کی ہر تکرار آدمی کو نئی لذت دیتی ہے ۔ جہاں لذت ہو وہاں تکرار کا تصور ختم ہو جاتا ہے ۔ قرآن میں یہ انداز اس لئے اختیار کیا گیا تاکہ وہ لوگ چھٹ کر الگ ہو جائیں جو معلومات اور تکرار کی اصطلاحوں میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ انسان چن لئے جائیں جن کے لیے قرآنی حقیقتیں لذت روح کا درجہ حاصل کر چکی ہوں ۔

-----------------

(بحوالہ - دیباچہ تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خاں )