امامُ النّاس

امام الناس - ابوالبشر احمد طیب 
نوح ؑ کے بیٹے سام کی اولاد سب سے پہلے عرب میں پھیلی ، سامی قبائل میں سب سے پہلا نامور اور ممتاز قبیلہ بنو ارم پیدا ہوئے ، انہیں سے ہود ؑ کی قوم عاد اور صالح ؑ کی قوم ثمود ؑ بنی، حسب تورات ان دو قوموں کی حکومت بابل (عراق )، شام (فلسطین) عرب ، مصر تک پھیلی ہے ، قرآن میں "ارم ذات العماد " ( عظیم الشان عمارتوں والے ) سے انہی اقوام کی طرف اشارہ ہے ۔۔ ابراہیم ؑ سے پہلے ہود ؑ جنوبی عرب قبائل عاد میں توحید کی دعوت لیکر اٹھے، پھر ان کے بعد صالح ؑ شمالی عرب قبائل ثمود میں اٹھے ۔ ابراہیم ؑ جس زمانہ میں پیدا ہوئے بنو ارم یعنی عاد اور ثمود بابل ، شام اور مصر میں حکمران تھے ۔ 

تورات کے مطابق نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کے درمیان دس پشتوں کا فرق ہے ۔ ابراہیم ؑان کی گیارہویں پشت پر ہے۔ قرآن میں ابراہیم ؑ کے والد کا نام آزر آیا ہے ۔ اپنے وقت کے بڑ ے بت تراش ،آرٹسٹ اور حکومت کے سب سے بڑے عہدے دار تھے ۔ 

جدید تحقیق کے مطابق ابراہیم ؑ کا سال پیدائش 2160 قبل مسیح ہے ۔ آپ کا آبائی وطن بابل (یا کلدانیہ ) ہے جسے آج کل عراق کہتے ہیں۔ جس شہر میں آپ کی ولادت ہوئی اس کا نام تورات میں" اُر (UR) " ہے ۔ یہ شہر خلیج فارس کے دہانہ فرات اور عراق کا جدید شہر بغداد کے تقریبا درمیانی راستہ پر ہے ۔ یہ نہایت مقدس ، بڑا صنعتی اور تجارتی مرکز تھا ۔ شہر کا ریاستی مذہب ،قوم کے رسوم و آداب مشرکانہ تھے، ہر جگہ صنم خانوں کی رونق ، دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کی ریل پیل تھی ۔چنانچہ جس گھرانہ میں ابراہیم ؑ پیدا ہوئے وہ بھی شرک، بت پرستی اور کواکب پرستی کا گہوارہ تھا ۔ 

ار شہر کے کتبات میں تقریبا پانچ ہزار خداؤں کے نام ملتے ہیں ۔ آسمانی اور زمینیں دیوی اور دیوتا الگ الگ تھے ۔ مندروں میں بکثرت عورتیں دیوتا کے نام پر وقف تھیں ، وہ عورت بڑی معزز خیال کی جاتی تھی جو خدا کے نام پر اپنی بکارت قربان کردے ۔ کم از کم ایک مرتبہ اپنے آپ کو راہ خدا میں کسی اجنبی کے حوالہ کرنا عورت کے لیے ذریعہ نجات خیال کیا جاتا تھا ۔ مندر کے نام بکثرت باغ ، مکانات، اور زمینیں وقف تھیں ۔ اس جائداد کے علاوہ لوگ غلے ، دودھ ، سونا ، کپڑا ، دیگر قیمتی اشیاء مندر لا کر نذر کرتے ۔ پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت مندر ہی میں تھی ۔ پوجاری اس کے جج ہوتے ۔ ان کے فیصلے خدا کے فیصلے سمجھے جاتے ۔ 

جدید تحقیقات اور آثار قدیمہ کے مطابق شہریوں کا نقطہ نظر مادہ پرستانہ تھا ، دولت کمانا ، زیادہ سے زیادہ آسائش فراہم کرنا ہر شہری کا مقصد زندگی تھا ، سخت کارباری قسم کے لوگ تھے، سود خوری عام تھی ، لوگوں کے آپس میں مقدمہ بازیاں ہوتی تھیں ، اپنے خداؤں سے ان کی دعائیں زیادہ تر دراز عمر ، خوش حالی ، اور کاربار کی ترقی سے متعلق ہوا کر تی تھیں ۔ آبادی تین طبقوں میں تقسیم تھی ، عمیلو: اونچے طبقہ کے لوگ جن میں پجاری ، حکومت کے عہددار اور فوجی افسران شامل تھے ۔ مشکینو : تاجران، اہل صنعت ، اور زراعت پیشہ لوگ ۔ اَردو: غلام اور خدام ۔ تلمود کے مطابق ابراہیم کا تعلق عمیلو یعنی شہر کے اونچے طبقہ سے تھا ۔ 

ابراہیم ؑ نے جب ہو ش سنبھالا تو ان کے ارد گرد ہر طرف چاند ، سورج ، اور ستاروں کی خدائی کے ڈنکے بج رہے تھے ۔ ابراہیم ؑ کی جستجوئے حقیقت انہیں اجرام فلکی کے مشاہدہ سے ہوتی ہے ۔ ابراہیم ؑ نے ان میں سے ہر ایک کی حالت پر غور کیا ان میں سے کوئی بھی خدائی کا مستحق نظر نہ آیا اور آخر میں قوم کے دیوتاؤ ں اور پجاریوں کے خلاف برملا اعلان بغاوت کیا۔ 

مشرکانہ نظام حیات کے خلاف جوں ہی ابراہیم کی دعوت بلند ہوئی تو عوام ، خواص، پجاری اور حاکم وقت نمرود سب آپ کی دعوت کو دبانے کے لیے کھڑے ہوگئے ۔ کیونکہ ابراہیم ؑ کی دعوت سے شاہی خاندان کی حاکمیت ، پوجاریوں کی معبودیت ، تاجروں کی معاشی حیثیت سب اس کی زد میں آتی تھی ۔ بالآخر ابراہیم ؑ نے بابل کی ستارہ پرستی کا طلسم توڑڈالا ، پھر نمرود کی آتشی سزا سے بچ کر اس کفرستان سے ہجرت کرکے شام ،فلسطین پھر مصر گئے ، تورات کے مطابق اس وقت وہاں عاد کی حکومت تھی ، پھر عرب کا غیر ذی زرع علاقہ بکہ (مکہ ) کی سرزمین کو منتخب کیا ۔ ان کی اولادیں انہیں علاقوں میں پھیلی ، اور بڑھی ، اور بڑی بڑی قوم بن گئی ۔ 

نوح ؑ کے بعد ابراہیم ؑ پہلے نبی ہیں جن کو اللہ تعالی نے بین الاقوام اور بین الممالک اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے مقرر کیا ، انہوں نے عراق سے شام ، فلسطین ، مصر اور عرب کے مختلف گوشوں تک مختلف قوموں کو اسلام کی دعوت دی ، اس زمانے میں ان تمام علاقوں اور قوموں میں شرک ، بت پرستی ، ستارہ پرستی عام تھی ۔ ابراہیم ؑ نے اپنی دعوت کو عام کرنے کیے لیے مختلف خطوں میں اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ لوط ؑ کو قدیم شہر سدوم میں ، حضرت اسحاق ؑکو شام اور فلسطین میں ، حضرت اسماعیلؑ کو عرب میں ۔ 

 اللہ تعالی نےابراہیمؑ کو ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء کے پیروں کا مرجع بنایا ۔ چنانچہ ابراہیمؑ بعد کے یہود ، نصاری اور مشرکین عرب تینوں گروہوں کے لیے بیک وقت امام اور رسول تھے۔ اس اعتبار سے ابراہیم ؑ تنہا اپنی ذات میں ایک امت کی حیثیت رکھتے تھے ۔

ابراہیم ؑ کی نسل بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل اور بنی مدین تین شاخیں ہیں، اللہ تعالی نے ان کی نسل سے عظیم قومیں پید اکیں ۔ جن سے نبوت کا سلسلہ آگے چلا ، آپ کے فرزند اسحاق ؑکے بیٹے یعقوبؑ کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے ، جوشام اور مصر میں آبادہوئے۔ ان میں جلیل القدر انبیاءاور بادشاہ پیدا ہوئے ۔ ابراہیم ؑ کا بیٹا مدین سے بنی مدین وجود میں آئے ، انہیں میں حضرت شعیب ؑ نبی بنے۔ ابراہیم ؑ نے اسماعیل ؑکو وادی غیر ذی زرع بکہ ( مکہ) میں آباد کیا ، جن سےبنی اسماعیل کی نسل چلی ، اسماعیلؑ کے بعد بنی اسماعیل میں کوئی نبی نہیں آیا، اس دوران نبوت کا سلسلہ بنی اسرائیل میں جاری رہا ۔ اس سلسلہ نبوت کے آخری نبی محمد ﷺ ہیں ۔ جن کی رسالت کوتمام دنیا کے لیے تاقیامت رحمۃ للعالمین اور کافۃ للناس بنادیا ۔

جب اس وقت کی دنیا ئےمعمور میں کوئی مسلمان نہ تھا تو ایک طرف ابراہیم ؑ اکیلے اسلام اور دین توحید کے علمبردار تھے ۔ دوسری طرف ساری دنیا کفر و شرک کی علمبردار تھی ۔ ابراہیم ؑ نے تنے تنہا وہ کام کیا جو ایک امت کا تھا ۔ بیشک ابراہیم ؑایک فرد نہیں بلکہ ایک امت ہیں ۔ پھر ان کی دعوت سے شام، مصر، عرب کے علاقوں میں توحید کی صدا گونج رہی تھی ، سب سے پہلے انہوں نےاپنی قوم کے بتکدے میں اذان دی تھی اور جو بت صدیوں سے معبود بن کر انسانوں کو گمراہ کررہے تھے ان کو پاش پاش کرکے رکھ دیا ، ان کو دین آبائی کی توہین میں آگ میں ڈالا گیا ، وہ بے خطر اس آگ میں کود پڑے ، ایک جبار نمرود بادشاہ نے ان کو دین حق سے پھیرنا چاہا ، انہوں نے حجت ابراہیمی سے اس کو لاجواب کیا ، پھر ان کو خاندان ، جائداد اور قوم و طن سب کو چھوڑ کر ہجرت کا حکم ہوا ، وہ سب کو چھوڑ کر ہجرت کر گئے ، ان کو دشت غربت میں اکلوتے اورمحبوب فرزند کی گردن پر چھری چلا دینے کا حکم ہوا ، تو بے دریغ اس بازی کے لیے بھی تیار ہوگئے ، او ر چودہ سالہ نوخیز فرزند کو ماتھے کے بل پچھاڑ دیا ۔ چنانچہ حکم الہی کی تعمیل میں جان بازی اور جان نثاری کے اس قسم کے عظیم کارناموں سے ان کی زندگی کا ہر ورق شادمان ہے۔ اب اللہ تعالی نے آپ کو ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء اور رسولوں کے پیروں کا امام اور مرجع بنانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ جب ابرہیم ؑ کورب تعالی نے چند باتوں میں آزمالیا اور وہ اُن سب میں پورے اترے ، تو اللہ نے ابراہیمؑ سے فرمایا : 

" اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ" (سورۃ البقرۃ : 124)

" میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔" 

ابرہیم ؑنے عرض کیا : 

"اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ " 

اللہ نے جواب دیا: 

" میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے" 

-----------------