مطالعۂ قرآن ( آیت بسم اللہ )

آیت  بسم اللہ کی تاریخی حیثیت


 قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا مضمون بہت قدیم زمانہ سے اہل مذاہب میں نقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔  چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق خود قرآن مجید میں یہ نقل ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو جب کشتی میں سوار کرایا تو اس وقت اسی سے ملتے جلتے الفاظ کہے ’’ وَقَالَ ارْكَبُوْا فِيْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْــرٖىهَا وَمُرْسٰىهَا ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ‘‘ (ھود :41)، اور اس نے کہا کہ اس میں سوار ہوجاؤ، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا، بے شک میرا رب بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

 اسی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکۂ سبا کو جو خط لکھا، اس کا آغاز بھی انہی مبارک کلمات سے کیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے :’’ اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘ (نمل :30): یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور اس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوا ہے۔

 آیت بسم اللہ   نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن مجید سے متعلق پچھلے آسمانی صحیفوں میں موجود  ایک پیشین گوئی کی بھی تصدیق کر رہی ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پانچویں کتاب باب 18-19 میں یہ الفاظ وارد ہیں ’’ میں ان کے لیے انہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا‘‘۔ 


آیت بسم اللہ ایک دعا ہے 



 یہ آٰیت ایک دعا کی صورت میں ہے۔ ایک بندۂ مؤمن کے دل کی یہ ایک فطری صدا ہے جو ہر قابل ذکر کام کرتے وقت اس کی زبان سے نکلنی چاہئے۔ اللہ تعالی نے اس فطری صدا کو قرآن مجید میں  الفاظ کا جامہ پہنا دیا ہے ۔ 

 کوئی کام کرنے سے پہلے جب یہ دعا ارادہ اور شعور کے ساتھ ہماری زبان سے نکلتی ہے تو اس  کام  کو اللہ کی طرف سے خصوصی اہمیت ملتی ہے  اس میں خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے اور جو کام اس دعا کے بغیر کیا جاتا ہے وہ اللہ تعالی کی تمام برکتوں سے خالی ہوتا ہے اس وجہ سے حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو کام ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکت ہے ۔

بسم اللہ کی یہ برکتیں تو ہر کام کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں لیکن خاص قرآن کی تلاوت کا آغاز اس دعا سے کرنے میں بندہ اس حکم کی تعمیل کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بالکل ابتدائی وحی نازل کرتے وقت ہی دیا تھا ’’ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَق‘‘ (العلق :1) (اپنے رب کے نام سے پڑھ، جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا)۔ 

قرآن میں اس آیت کی جگہ 



 اس آیت سے متعلق ایک اہم سوال  بیدا ہوا کہ قرآن مجید میں اس کی اصل جگہ کہاں ہے ؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوا کیونکہ یہ ہر سورۃ کے شروع میں (سورۂ توبہ کے سوا) ایک مستقل آیت کی حیثیت سے لکھی ہوئی ہے لیکن کسی سورۃ میں بھی (سوائے سورۂ نمل)   اس کے ایک جزو کی حیثیت سے یہ شامل نہیں ہے۔ اس وجہ سے مفسرین کے ہاں  اختلاف ہوا ہے کہ یہ کسی خاص سورہ کا حصہ ہے یا  نہیں ۔ 

 مدینہ، بصرہ اور شام کے قراء اور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ یہ قرآن کی سورتوں میں سے کسی سورۃ کی بھی (بشمول سورۂ فاتحہ) آیت نہیں ہے بلکہ ہر سورہ کے شروع میں اس کو محض تبرک اور ایک علامتِ فصل کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ 
یہی مذہب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ 

اس کے برعکس مکہ اور کوفہ کے فقہاء کا خیال ہے کہ یہ سورۂ فاتحہ کی بھی ایک آیت ہے اور دوسری سورتوں کی بھی ایک آیت ہے۔ یہ مذہب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب کا ہے۔

لیکن قوئ بات یہ ہے کہ مصحف کی موجودہ ترتیب تمام تر وحی الٰہی کی رہنمائی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات کے تحت عمل میں آئی ہے اور بسم اللہ کی کتابت بھی اسی ترتیب کا ایک حصہ ہے۔ اس ترتیب میں جہاں تک بسم اللہ کے لکھے جانے کی نوعیت کا تعلق ہے سورۂ فاتحہ اور غیر سورۂ فاتحہ میں کسی قسم کا فرق نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہر سورۃ کے آغاز میں اس کو ایک ہی طرح درج کیا گیا ہے۔ اس کی حیثیت سورۃ سے الگ ایک مستقل آیت کی نظر آتی ہے ۔