قرآن کا مقصدِ نزول

قرآن کس لئے اتارا گیا ہے، ایک لفظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کے بارے میں خدا کی اسکیم کو بتانے کے لیے۔

 انسان کو خدا نے ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا۔ موجودہ محدود دنیا میں پچاس سال یا سوسال گزار کر اس کو آخرت کی دنیا میں داخل کردیا جاتا ہے ۔ جہاں اس کو مستقل طور پر رہنا ہے۔ موجودہ دنیا عمل کرنے کی جگہ ہے اور آخرت کی دنیا اس کا انجام پانے کی جگہ ہے ۔ آج کی زندگی میں آدمی جیسا عمل کرے گا اسی کے مطابق وہ اپنی اگلی زندگی میں اچھا یا برابدلہ پائے گا ۔ کوئی اپنی نیک کرداری کے نتیجہ میں ابدی طور پر جنت میں جائےگا اور کوئی اپنی بد کرداری کی وجہ سے ابدی طور پر جہنم میں۔ 

قرآن اس لئے اتارا گیا کہ اس سنگین مسئلہ سے آدمی کو باخبر کرے اور اس کو بتائے کہ اگلی زندگی میں برے انجام سے بچنے کے لیے اسے اپنی موجودہ زندگی میں کیا کرنا چاہئے۔ 

خدانے انسان کو فہم و شعور کے اعتبار سے اسی صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے جو اس کو انسانوں سے مطلوب ہے۔ پھر اس نے گرد وپیش کی پوری کائنات کو مطلوبہ درست کر دار کا عملی مظاہرہ بنادیا ہے ۔ تاہم یہ سب کچھ خاموش زبان میں ہے۔ انسانی فطرت احساسات کی صورت میں اپنا کام کرتی ہے اور فطرت کے مظاہر تمثیل کی صورت میں۔ 

قرآن اس لئے آیا کہ فطرت اور کائنات میں جوکچھ خاموش زبان میں موجود ہے وہ نطق کی زبان میں اس کا اعلان کردے تاکہ کسی کے لیے اس کا سمجھنا مشکل نہ رہے۔

 فطرت اور کائنات اگر آدمی کی خاموش رہنما ہیں تو قرآن ایک ناطق رہنما۔ 

مزید یہ کہ قرآن ایک ایسے پیغمبر پر اتارا گیا جو غلبہ کا پغمبر تھا ۔ پچھلے انبیاء صرف داعی کی حیثیت سے بھیجے گئے۔ ان کا کام اس وقت ختم ہو جاتاتھا جب کہ وہ اپنی مخاطب قوم کو خدا کی مرضی سے پوری طرح آگاہ کردیں۔ انھوں نے اپنی مخاطب قوموں کی زبان میں کلام کیا ۔ مگر انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کر تے  ہوئے ان کی بات نہیں مانی ۔ اس طرح پچھلے زمانوں میں خدا کی مرضی انسان میں عملی صورت اختیار نہ کرسکی ۔

 پیغمبر آخرالزماں کو خدا نے غلبہ کی نسبت دی۔ یعنی آپ ﷺ کے لیے فیصلہ کر دیا کہ آپ کا مشن صرف پیغام رسانی پر ختم نہ ہوگا بلکہ خدا کی خصوصی مدد سے اس کو عملی واقعہ بننے تک پہنچایا جائے گا ۔ اس خدائی فیصلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کے دین کے حق میں ہمیشہ کے لیے ایک مزید تائیدی بنیاد فراہم ہوگئی۔ یعنی مذکورہ بالا اہتمام کے علاوہ انسان کی حقیقی زندگی میں خدا کی مرضی کا ایک کامل عملی نمونہ۔

پچھلے زمانہ میں خدا کے جتنے پیغمبر آئے وہ سب اسی دعوت کو لے کر آئے جس کو لے کر پیغمبر آخرالزماں کو بھیجاگیا تھا۔ مگر پچھلے پیغمبروں کے ساتھ عام طور پر ایسا ہوا کہ لوگوں نے ان کے پیغام کو نہ مانا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس کو اپنی دنیوی مصلحتوں کے خلاف سمجھتے تھے ۔ ان کو غلط طور پر یہ اندیشہ تھا کہ اگر انھوں نے خدا کے سچے دین کو پکڑا تو ان کی بنی بنائی دنیا تباہ ہو جاے گی ۔ قرآن کی تاریخ اس اندیشہ کی عملی تردید ہے ۔

 قرآن کے ذریعہ جو تحریک چلائی گئی اس کو خدا نے اپنی خصوصی نصرت کے ذریعہ دعوت سے شروع کر کے واقعہ بننے کے مرحلہ تک پہنچایا اور اس کے عملی نتائج کو دیا ۔ اس طرح خدا کے دین کی ایک مستقل تاریخ وجود میں آگئی ۔ اب قیامت تک لوگ حقیقی تاریخ کی زبان میں دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کے سچے دین کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں کس طرح زمین و آسمان کی تمام برکتیں نازل ہوتی ہیں ۔ 

پھر اسی کے ذریعہ قرآن کی مستقل حفاظت کا انتظام بھی کردیا گیا۔ ایک بڑے جغرافیہ میں اہل اسلام کا اقتدار اور وہاں اسلامی تہذیب و تمدن کا غلبہ اس بات کی ضمانت بن گیا کہ قرآن کو ایسا حفاظتی ماحول مل جائے جہاں کوکئی اس میں کسی قسم کی تبدیلی پر قاادر نہ ہو سکے ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا غلبہ تقریبا ڈیڑھ ہزار سال سے قرآن کا چوکیدار بناہوا ہے ۔

( دیباچہ تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خاں )