قرآن ایک دعوتی کتاب ہے

قرآن عام طرز کی علمی تصنیف نہیں ، وہ ایک دعوتی کتاب ہے .

 اللہ تعالی نے اپنے ایک بندے کو ساتویں صدی عیسوی کے ثلث اول میں ایک خاص قوم کے اندر اپنا نمائندہ بنا کر کھڑا کیا اور اس کو اپنے پیغام کی پیغامبری پر مامور فرمایا ۔ اس پیغمبر نے اپنے ماحول میں یہ کام شروع کیا اور اسی کے ساتھ قرآن کا تھوڑا تھوڑا حصہ حسب ضرورت اس کے اوپر اترتا رہا ، یہاں تک کہ 23 سال میں پیغمبر کے دعوتی کام کی تکمیل کے ساتھ قرآن بھی تکمیل ہوگئی ۔

 قرآن اگرچہ خدا کی ابدی رہنمائی ہے مگر مذکورہ ترتیب نے اسی کے ساتھ اس کو تاریخی کتاب بھی بنا دیا ہے ۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنی ابدی رہنمائی کو تاریخ کے سانچہ میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔

 ایسی حالت میں بعد کے زمانے میں قرآن کی تفسیر کرنا آدمی کو ایک نئے مسئلہ سے دوچار کر دیتا ہے ۔ قرآن کی تفسیر اگر اس ابتدائی پس منظر کی روشنی میں کی جائے جس میں قرآن کے احکام اترے تھے تو قرآن قدیم زمانہ کی ایک تاریخی کتاب معلوم ہوگی ۔ اس کے بر عکس قرآن کی تفسیر اگر اس کی ابدی اہمیت کی بنیاد پر کی جائے تو اس کا تاریخی پہلو مجروح ہو تا دکھائی دیتا ہے ۔

اس مسئلہ کی وجہ سے بعد کے زمانے میں قرآن کی تفسیر کرنا ایک ایسا کام بن گیا ہے ۔ جس میں دوگونہ پہلوؤں کو نبھانا ضروری  ہو۔

تذکیر القرآن ( مولانا وحید الدین خان کی  تفسیر ) میں  یہی دوگونہ انداز اختیار کیا گیا ہے ۔ اس میں تاریخی پس منظر بھی مختصر طور پر دکھایا گیا ہے مگر اس طرح نہیں کہ قرآن ایک تاریخی کتاب معلوم ہونے لگے ، اسی طرح اس میں قرآنی تعلیمات کو آج کے حالات کے مطابق کرتے ہوئے بیان کیاگیا ہے ، مگر ایسا نہیں کہ قرآن اپنی تاریخی بنیاد سے بالکل علیحدہ ہوجائے ۔

( دیباچہ تذکیر القرآن ، مولانا وحیدالدین خاں )