قرآن فہمی کے شرائط

قرآن ایک فکری کتاب ہے اور فکری کتاب میں ہمیشہ ایک سے زیادہ تعبیر کی گنجائش رہتی ہے ۔ اس لئے قرآن کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پڑھنے والا خالی الذھن ہو ۔ اگر پڑھنے والے کا ذہن خالی نہ ہو تو وہ قرآن میں خود اپنی بات پڑھے گا ۔ اس کو سمجھنے کے لئے قرآن کی ایک آیت کی مثال لیجئے ۔ 

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ۭ وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ ۙ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعَذَابِ  : سورۃ البقرۃ : 165) 

"کچھ لو گ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا مد مقابل بناتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کر تے ہیں جیسی محبت اللہ کے ساتھ ہونا چاہئے ۔ حالاں کہ ایمان رکھنے والے سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں ۔ "

ایک شخص جو سیاسی ذوق رکھتا ہو اور سیاسی اکھیڑ پچھاڑکو کام سمجھتا ہو وہ جب اس آیت کو پڑھے گا تو اس کا ذہن پوری آیت میں بس انداد (مدمقابل ) پر رک جائے گا ۔ وہ قرآن سے " مد مقابل " کا لفظ لے لے گا اور بقیہ مفہوم کو اپنے ذہن سے جوڑ کر کہے گا کہ اس سے مراد سیاسی مقابل ٹھہرانا ہے ۔ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کو خدا کا سیاسی مد مقابل بنائے ۔ اس تشریح کے مطابق یہ آیت اس کے لیے اس بات کا اجازت نامہ بن جائے گا کہ جس کو وہ خدا کا " سیاسی مد مقابل " بنا ہوا دیکھے اس سے ٹکراؤ شروع کر دے ۔

 اس کے بر عکس جو آدمی سادہ مفہوم متعین کر ے گا ۔ ایسے شخص کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہاں مد مقابل ٹھہرا نے کی جس صورت کا ذکر ہے وہ باعتبار محبت ہے نہ کہ باعتبار سیاست ۔ یعنی آیت یہ کہہ رہی ہے کہ آدمی کو سب سے زیادہ محبت صرف خدا سے کرنا چاہئے ۔ " حب شدید " کے معاملے میں کسی دوسرے کو خدا کا ہمسر نہیں بنانا چاہئے۔ 

قرآن کا ایک عمومی مفہوم ہے اور اس کو سمجھنے کی شرط یہ ہے کہ آدمی خالی الذہن ہو کر قرآن پڑھے ۔ مگر جو شخص قرآن کے گہرے معانی تک پہنچنا چاہے اس کو ایک اور شرط پوری کر نی پڑتی ہے ۔ اور وہ یہ کہ وہ اس راہ کا مسافر بنے جس کا مسافر اس کو قرآن بنانا چاہتا ہے ۔ قرآن آدمی کی عملی زندگی کی رہنما کتاب ہے اور کسی عملی کتاب کو اس کی گہرائیوں کے ساتھ سمجھنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی عملا ان تجربات سے گزرے جن کی طرف اس کتاب میں رہنمائی کی گئی ہے ۔ 

یہ عمل کوئی سیاسی یا سماجی عمل نہیں بلکہ مکمل طور پر ایک نفسیاتی عمل ہے ۔ اس عمل میں آدمی کو خود اپنے نفس کے مقابلہ میں کھڑا ہونا پڑتا ہے نہ کہ حقیتا کسی خارج کے مقابلہ میں ۔ قرآن چاہتا ہے کہ آدمی ظاہری دنیا کی سطح پر نہ جئے بلکہ غیب کی دنیا کی سطح پر جئے ۔ اس سلسلے میں جن مراحل کی نشان دہی قرآن میں کی گئی ہے ان کو وہ شخص کیسے سمجھ سکتاہے جو ان مراحل سے آشنا نہ ہوا ہو ۔ 

قرآن چاہتا ہے کہ آدمی صرف اللہ سے ڈرے اور صرف اللہ سے محبت کرے ۔ اب جس کا دل اللہ کی محبت میں نہ تڑپا ہو ، جس کے بدن کے رونگٹے اللہ کے خوف سے نہ کھڑے ہوئے ہوں وہ کیسے جان سکتا ہے کہ اللہ سے ڈرنا کیا ہے اور اللہ سے محبت کرنا کیا ۔

 قرآن چاہتا ہے کہ آدمی خدائی مشن میں اپنے آپ کو اس طرح شامل کرے کہ وہ اس کو اپنا ذاتی مسئلہ بنالے ۔ اب جس شخص نے خدا کے کام کو اپنا ذاتی کام نہ بنایا ہو وہ کیوں کر جانے گا کہ خدا کے ساتھ اپنے کو شامل کرنے کا مطلب کیا ہے ۔

 قرآن یہ چاہتا ہے کہ آدمی انسانوں کے چھیڑے ہوئے مسائل میں گم نہ ہو بلکہ خدا کی طرف سے برسنے والے فیضان میں اپنے کو گم کرے ۔ اب جس شخص پر ایسے صبح وشام ہی نہ گزرے ہوں جب کہ خدا کے فیضان میں وہ نہا اٹھے وہ کیسے سمجھ سکتا ہے کہ خدائی فیضان میں نہانے کا مطلب کیا ہے ۔

 قرآن چاہتا ہے کہ آدمی جہنم سے بھاگے اور جنت کی طرف دوڑے ۔ اب جو شخص اس طرح زندگی گزارے کہ جہنم کو اس نے اپنا مسئلہ نہ بنایا ہو اور جنت اس کی ضرورت نہ بنی ہو اس کو کیا معلوم کہ جہنم سے بھاگنا کیا ہو تا ہے اور جنت کی طرف دوڑنا کیا معنی رکھتا ہے ۔

 قرآن چاہتا ہے کہ آدمی اللہ کی عظمت و کبریائی کے احساس سے سر شار وہ ۔ اب جو شخص اپنی عظمت و کبریائی کے مینار میں لذت لے رہا ہو اس کو اس کیفیت کا ادراک کہاں ہو سکتا ہے جب کہ آدمی خدا کی کبریائی کو اس طرح پاتا ہے کہ اپنی طرف اس کو عجز کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ 


قرآنی عمل اصلا نفس یا انسان کے اندرونی وجود کی سطح پر ہو تا ہے ۔ مگر انسان کسی خلا میں زندگی نہیں گزارتا بلکہ دوسرے بہت سے انسانوں کے درمیان رہتا ہے ۔ اس لئے قرآنی عمل باعتبار حقیقت ذاتی عمل ہونے کے باوجود دو پہلوؤں سے دوسرے انسانوں سے بھی متعلق ہوجاتا ہے ۔ ایک اس اعتبار سے کہ آدمی جس قرآنی راستہ کو خود اپنا تا ہے اسی راستہ کو اختیار کرنے کی وہ دوسروں کو بھی دعوت دیتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں ایک آدمی راستہ کو خود اپناتا ہے اسی راستہ کو اختیار کر نے کی وہ دوسروں کو بھی دعوت دیتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ قائم ہو تا ہے ۔ یہ رشتہ آدمی کو بے شمار تجربات سے گزارتا ہے جو مختلف صورتوں میں آخر وقت تک جاری رہتا ہے ۔

 دوسرے یہ کہ مختلف قسم کے انسانوں کے درمیان زندگی گزار تے ہوئے طرح طرح کے تعلقات و معاملات پیش آتے ہیں ۔ کسی سے لینا ہو تا ہے اور کسی کو دینا ، کسی سے اتفاق ہو تا ہے اور کسی سے اختلاف ، کسی سے دوری ہوتی ہے اور کسی سے قربت ۔ ان مواقع پر آدمی کیا رویہ اختیار کرے اور کس قسم کا رد عمل پیش کرے ، قرآن ان امور میں اس کی مکمل رہنمائی کر تا ہے ۔

 اگر آدمی اپنی خواہش پر چلنا چاہے تو قرآن کا یہ باب اس پر بند رہے گا اور اگر وہ اپنے کو قرآن کی ماتحتی میں دیدے تو اس پر قرآنی تعلیمات کے ایسے بھید کھلیں گے جو کسی اور طرح اس پر کھل نہیں سکتے ۔ 


قرآن آدمی کو جو مشن دیتا ہے وہ حقیتا کوئی " نظام " قائم کرنے کا مشن نہیں ۔ بلکہ اپنے آپ کو قرآنی کردار کی صورت میں ڈھالنے کا مشن ہے ۔ قرآن کا اصل مخاطب فرد ہے نہ کہ سماج ۔ اس لئے قرآن کا مشن فرد پر جاری ہوتا ہے نہ کہ سماج پر ۔  تاہم افراد کی قابل لحاظ تعداد اپنے آپ کو قرآن کے مطابق ڈھالتی ہے تو اس کے سماجی نتائج بھی لازما نکلنا شروع ہو تے ہیں ۔ یہ نتائج ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے بلکہ حالات کے اعتبار سے ان کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ 

قرآن میں مختلف انبیاء کے واقعات انھیں سماجی نتائج اور سماجی رد عمل کے مختلف نمونے ہیں اور اگر آدمی اپنی آنکھیں کھول رکھی ہوں تو وہ ہر صورت حال کی بابت قرآن میں رہنمائی پا تا چلاجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ قرآن فطرت انسانی کی کتاب ہے ۔ قرآن کو وہی شخص بخوبی طورپر سمجھ سکتا ہے جس کے لیے قرآن اس کی فطرت کا مثنی بن جائے ۔

( دیباچہ تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خاں )