مولانا حمیدالدین فراہی کے شاگر مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اپنے استاد کے حق میں تفصیل سے ان دلائل کو بیان کیا ہے، ان کے نزیک بھی ترمیھم کا فاعل قریش ہے ، ان کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے :
وہ لکھتے ہیں اگرچہ اس قو ل پر تمام مفسرین متفق ہیں لیکن گوناگوں وجوہ سے یہ بالکل غلط ہے :
١۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس موقع پر قریش پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ مدافعت سے کلیۃً دست بردار ہو کر پہاڑوں میں جا چھپے تھے، بلکہ ابرہہ کی عظیم فوج کے مقابل میں مدافعت کی واحد ممکن شکل جو وہ اختیار کرسکتے تھے یہی تھی اس وجہ سے انہوں نے یہی اختیار کی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق کہ بندہ جب اپنے امکان کے حد تک اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کی مدد فرماتا ہے، اس نے قریش کی مدد فرمائی ۔
٢۔ جن لوگوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قریش نے کوئی مزاحمت نہیں کی ان کا دعویٰ واقعات کے بھی خلاف ہے اور قریش کی حمیت و غیرت کے بھی۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ ابرہہ کی فوجیں جن راستوں سے گزریں ان کے عرب قبائل نے ان کو مزاحت کے بغیر گزرنے نہیں دیا بلکہ یہ جانتے ہوئے کہ اس دل بادل فوج سے ان کے لئے عہدہ برآ ہونا ممکن نہیں ہے انہوں نے مزاحمت کر کے شکست کھانا تو گوارا کیا لیکن یہ تک گوارا نہیں کیا کہ دشمن خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کے لئے ان کے حدود کے اندر سے آسانی سے گزر جائے۔ صرف ایک قبیلہ، بنو ثقیف نے اہل عرب کی اس عام حمیت کے خلاف روشن اختیار کی۔ اس کے بعد ایک فرد، ابورنحال نے ابرہہ کی فوج کو مکہ کا راستہ بتایا لیکن اس قبیلہ کو اس بے حمیتی کی سزا یہ ملی کہ پورے عرب میں اس کی ابرومٹ گئی اور ابودغال کا حشر یہ ہوا کہ اس کی قبر پر اہل عرب ایک مدت تک لعنت کے طور پر سنگ باری کرتے رہے۔
غور کیجئے کہ جب چھوٹے چھوٹے قبائل نے اس بے جگری سے دشمن کا مقابلہ کیا تو قریش اس کے آگے اس بے حمیتی کا اظہار کس طرح کرتے کہ اس کو بے روک ٹوک اللہ کے گھر پر قابض ہوجانے دیتے۔
غور کیجئے کہ جب چھوٹے چھوٹے قبائل نے اس بے جگری سے دشمن کا مقابلہ کیا تو قریش اس کے آگے اس بے حمیتی کا اظہار کس طرح کرتے کہ اس کو بے روک ٹوک اللہ کے گھر پر قابض ہوجانے دیتے۔
٣۔ یہ درس اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ نہیں ہے کہ بندے اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے بنی اسرائیل کی طرح یہ کہیں کہ فاذھب انت و ربک فقاتلا انا ھھنا قعدون (المآئدۃ۔ ٥ : ٢٤ ) (تم اور تمہارا خداوند جائو لڑو، ہم یہاں بیٹھتے ہیں) اور خدا ان کے ہے میدان جیت کر ان کے لئے تخت بچھا دے اور یہ اس پر براجمان ہوجائیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والا ہوتا تو بنی اسرائیل کے ساتھ اس نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟ ان کو تو اس نے اس کی سزا یہ دی کہ چالیس سال کے لئے ان کو صحراہی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت جو قرآن سے واضح ہوتی ہے وہ تو یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی مدد فرماتا ہے جو اپنا فرض ادا کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد کتنی ہی کم اور ان کے وسائل کتنے یہ محدود ہوں۔
چنانچہ قرآن نے بیت اللہ سے متعلق سورۂ بقرہ، سورۂ توبہ، سورۂ حج وغیرہ میں ہماری جو ذمہ داریاں بتائی ہیں وہ یہی ہیں کہ ہم اس کی آزادی و حفاظت کے لئے جو کچھ ہمارے بس میں ہے وہ کریں، اللہ ہماری مدد کرے گا۔ یہ کہیں نہیں کہا ہے کہ تم کچھ کرو یا نہ کرو ہماری ابابیلیں اس کی حفاظت کرلیں گی۔ بہرحال قریش نے جو کچھ ان کے امکان میں تھا، وہ کیا۔ اگرچہ ان کی مدافعت، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، کمزور تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حاصب کے ذریعہ سے ان کی اس کمزور مدافعت کے اندر اتنی قوت پیدا کر دی کہ دشمن کھانے کے بھس کی طرح پامال ہوگئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدرکے موقع پر صرف مٹھی بھر خاک قریش کے لشکر کی طرف پھینکی تھی لیکن وہی مٹی بھرخاک ان کے لئے طوفان بن گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اہمیت یوں واضح فرمائی کہ ’ وما رمیت اذرمیت ولکن اللہ رمی (الانفال۔ ٨ : ١٧) (اور وہ کنکریاں دشمنوں پر تم نے نہیں پھینکیں تھیں بلکہ اللہ نے پھینکیں) ۔
چنانچہ قرآن نے بیت اللہ سے متعلق سورۂ بقرہ، سورۂ توبہ، سورۂ حج وغیرہ میں ہماری جو ذمہ داریاں بتائی ہیں وہ یہی ہیں کہ ہم اس کی آزادی و حفاظت کے لئے جو کچھ ہمارے بس میں ہے وہ کریں، اللہ ہماری مدد کرے گا۔ یہ کہیں نہیں کہا ہے کہ تم کچھ کرو یا نہ کرو ہماری ابابیلیں اس کی حفاظت کرلیں گی۔ بہرحال قریش نے جو کچھ ان کے امکان میں تھا، وہ کیا۔ اگرچہ ان کی مدافعت، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، کمزور تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حاصب کے ذریعہ سے ان کی اس کمزور مدافعت کے اندر اتنی قوت پیدا کر دی کہ دشمن کھانے کے بھس کی طرح پامال ہوگئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدرکے موقع پر صرف مٹھی بھر خاک قریش کے لشکر کی طرف پھینکی تھی لیکن وہی مٹی بھرخاک ان کے لئے طوفان بن گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اہمیت یوں واضح فرمائی کہ ’ وما رمیت اذرمیت ولکن اللہ رمی (الانفال۔ ٨ : ١٧) (اور وہ کنکریاں دشمنوں پر تم نے نہیں پھینکیں تھیں بلکہ اللہ نے پھینکیں) ۔
بہرحال یہ رائے ہمارے نزدیک بالکل بے بنیاد ہے کہ قریش میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ چڑیوں نے سنگ باری کر کے ابرہہ کی فوجوں کو پامال کیا۔ ’ ترمی‘ کے فعل، ہمارے نزدیک قریش ہیں جو ’ الم تر‘ کے مخاطب ہیں اورفعل ’ ترمی‘ چڑیوں کے لئے کسی طرح موزوں ہے بھی نہیں۔ چڑیاں اپنی چونچوں اور چنگلوں سے سنگ ریزے گرا تو سکتی ہیں لیکن اس کو ’ رمی‘ نہیں کہہ سکتے۔ ’ رمی‘ صرف اسی صورت میں ہوگی جب پھینکنے میں بازو یا فلاخن کا زور استعمال ہو یا ہوا کے تند و تیز تھپیڑے اس کے ساتھ ہوں۔ ( تدبر قرآن )
مولانا مودودیؒ نے مذکورہ تاویل کی غلطی واضح کی ، مولانا لکھتے ہیں :
" مولانا حمید الدین فراھی مرحوم، جنہوں نے عہد حاضر میں قرآن مجید کے معانی و مطالب کی تحقیق پر بڑا قیمتی کام کیا ہے، اس آیت میں" ترمیھم" کا فاعل اہل مکہ اور دوسرے اہل عرب کو قرار دیتے ہیں جو الم تر کے مخاطب ہیں، اور پرندوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ سنگریز نہیں پھینک رہے تھے، بلکہ اس لیے آئے تھے کہ اصحاب الفیل کی لاشوں کو کھائیں۔
" مولانا حمید الدین فراھی مرحوم، جنہوں نے عہد حاضر میں قرآن مجید کے معانی و مطالب کی تحقیق پر بڑا قیمتی کام کیا ہے، اس آیت میں" ترمیھم" کا فاعل اہل مکہ اور دوسرے اہل عرب کو قرار دیتے ہیں جو الم تر کے مخاطب ہیں، اور پرندوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ سنگریز نہیں پھینک رہے تھے، بلکہ اس لیے آئے تھے کہ اصحاب الفیل کی لاشوں کو کھائیں۔
اس تاویل کے لیے جو دلائل انہوں نے دیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ عبد المطلب کا ابرھہ کے پاس جاکر کعبہ کے بجائے اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنا کسی طرح باور کرنے کے قابل بات نہیں ہے، اور یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ قریش کے لوگوں اور دوسرے عربوں نے جو حج کے لیے آئے ہوئے تھے، حملہ آور فوج کا کوئی مقابلہ نہ کیا ہو اور کعبے کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وہ پہاڑوں میں جا چھپے ہوں۔ اس لیے صورت واقعہ دراصل یہ ہے کہ عربوں نے ابرھہ کے لشکر کو پتھر مارے، اور اللہ تعالیٰ نے پتھراؤ کرنے والی طوفانی ہوا بھیج کر اس لشکر کا بھرکس نکال دیا، پھر پرندے ان لوگوں کی لاشیں کھانے کے لیے بھیجے گئے۔
لیکن جیسا کہ ہم دیباچے(سورہ الفیل ) میں بیان کرچکے ہیں، روایت صرف یہی نہیں ہے کہ عبدالمطلب اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنے گئے تھے، بلکہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اونٹوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اور ابرھہ کو خانہ کعبہ پر حملہ کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ ہم یہ بھی بتا چکے ہیں کہ تمام معتبر روایات کی رو سے ابرھہ کا لشکر محرم میں آیا تھا جبکہ حجاج واپس جا چکے تھے۔ اور یہ بھی ہم نے بتا دیا ہے کہ 60 ہزار کے لشکر کا مقابلہ کرنا قریش اور آس پاس کے عرب قبائل کے بس کا کام نہ تھا، وہ تو غزوہ احزاب کے موقع پر بڑی تیاریوں کے بعد مشرکین عرب اور یہودی قبائل کی جو فوج لائے تھے وہ دس بارہ ہزار سے زیادہ نہ تھی، پھر بھلا وہ 60 ہزار فوج کا مقابلہ کرنے کی کیسے ہمت کرسکتے تھے۔
تاہم ان ساری دلیلوں کو نظر انداز بھی کردیا جائے اور صرف سورۃ فیل کی ترتیب کلام کو دیکھا جائے تو یہ تاویل اس کے خلاف پڑتی ہے۔ اگر بات یہی ہوتی کہ پتھر عربوں نے مارے، اور اصحاب فیل بھس بن کر رہ گئے اور اس کے بعد پرندے ان کی لاشیں کھانے کو آئے، تو کلام کی ترتیب یوں ہوتی کہ تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ فَجَــعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ (تم ان کو پکی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے، پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھس جیسا کردیا، اور اللہ نے ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیج دیے) لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھنڈ بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے، پھر اس کے متصلا بعد تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ (جو ان کو پکی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے) فرمایا ہے اور آخر میں کہا کہ پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھس جیسا کردیا۔" ( تفہیم القرآن )
دونوں تاویل کے جائزہ کے بعد ہمارے نزدیک مولانا مودودیؒ کی دلیل مضبوط ہے ان کی تاویل روایتا اور درایتا دونوں اعتبار سے قوی ہے ، بلکہ انہوں نےمکتبہ فراہی کے تفسیری اصولوں کے مطابق" ترمیھم" کی تاویل کی ہے۔ جیسے ہمیں معلوم ہے کہ مکتبہ فراہی کے مفسرین کے ہاں تفسیر اور تاویل میں نظم کلام ، ترتیب کلام کو سب پر فوقیت ہے وہ الفاظ قرآنی اور نظم کی حاکمیت کو تفسیر میں حَکم مانتے ہیں، اور کلام کے سیاق و سباق سے جو تاویل متعین ہو جائے اس کو تمام تاویلوں پر ترجیح دیتے ہیں اس اعتبار سےاگر دیکھا جائے تو مولانا مودودیؒ کی دلیل مکتبہ فراہی کے اصول تفسیر کے عین مطابق ہے ۔ سورۃ میں آیات کی ترتیب اور سیاق و سباق کے لحاظ سے ترمیھم کا فاعل ابابیل نظم کلام سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے ۔ جب کہ ترمیھم کا فاعل قریش ہونے کی صورت میں نظم کلام میں خلل واقع ہوتا ہے ۔
باقی یہ کہنا کہ طیرا ابابیل کا "رمی حجار" نامکن ہے محل نظر ہے۔ یہ خیال اعجاز قرآنی کی تخفیف ہے قرآن میں اس طرح کے کئ واقعات کا تذکرہ آتا ہے جن کے بارے میں ہمارے پاس کوئی عقلی توجیہ نہیں ہے ، الا یہ کہ کوئ سرے سے معجزات کا منکر ہوجائے تو اور بات ہے ، لیکن جو لوگ اصحاب کھف ، موسیؑ اور خضر کا واقعہ اور ابراھیم ؑ کے پرندوں کا دوبارہ زندہ ہونا، نمل (چیونٹی) کا سلیمان ؑ سے بات کرنا ، اسی طرح ھدھد کا واقعہ، ان تمام عجائب قرآنی کو اگر معجزات میں شمار کر تے ہیں ان کو طیرا ابابیل کے "رمی حجار" کو بھی اسی فہرست میں شامل کرنا چاہئے ۔
جب اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں" اول بیت وضع للناس ببکۃ مبارکا و ھدی للعالمین" تو اس موقع پر جب 60 ہزار دشمن اس پر حملہ آور ہور ہے ہوں تو کیا اپنے گھر کی جو جہاں والوں کی ھدایت کا ذریعہ ہے حفاظت نہیں کرے گا جس طرح اللہ تعالی نے قرآن کی حفاظت کا اس لے وعدہ کیا کہ وہ ھدی للعالمین ہے اسی طرح اس کعبہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ھدی للعالمین ہے پھر ہماری نظر میں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو کعبہ کی حفاظت طیرا ابابیل سے کرنا کوئی خلاف عقل نہیں ہے ، قرآن میں تو یہ بھی ہے " ان اللہ لا یستحی ان یضرب مثلا ما بعوضۃ فما فوقھا " ان اللہ علی کل شئی قدیر،" " وما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمی " اگر ان جیسی آیات پرہمارا ایمان ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ دراصل " طیرا ابابیل" سے" اصحاب فیل "کو ھلاک کرنا اللہ تعالی کی کرشمہ قدرت کا اظہار ہے۔ ایک طرف حزب الشیاطین اپنے سب سے قوی الجسہ جنور ہاتھیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور دوسری طرف حزب اللہ طرا ابابیل خفیف الجسہ جنور کے ساتھ ، اس سے ایک تو اللہ کی قدرت کا اظہار ہوتاہے۔ ساتھ ابرھہ اور اس کے لشکر پر اتمام حجت بھی ہے ۔ اس کی ایک مثال جنگ بدرہے اس میں اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا اظہار کیا ۔ ہمارے نزدیک واقعہ اصحاب فیل بھی اس سے ملتا جلتا واقعہ ہے ، اس طرح کے واقعات کا مقصد اللہ تعالی کی طرف سے اتمام حجت کے لیے ہوتا ہے ۔
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے فرعون اور اس کے لشکر پر معمولی جنوروں جوئیں، ٹڈیوں اور مینڈکوں سے اتمام حجت کیا تھا، اس سے فرعون کی تذلیل مقصود ہے اس میں لوگوں کے لے عبرت کا سامان بھی ہے ۔ ہمارے نزدیک اسی طرح ابرھہ کے ہاتھیوں کے خلاف طیرا ابابیل کو روانہ کرکے ابرھہ اور اس کے لشکر کی تذلیل مقصود تھا۔
واللہ اعلم بالصواب
نظم کلام کے بارے مزید پڑھیں
نظم کلام پر ایک نظر
نظم قرآن اور مدرسہ فراہی
قرآن مبین کے بعض اسالیب