ختم قلوب کی حقیقت اور اس کے بارے میں قانون الٰہی ـ مولانا امین احسن اصلاحی ؒ

یہاں (سورۃ البقرۃ کی آیت "ختم اللہ علی قلوبہم وعلی سمعہم وعلی ابصارہم غشاوۃ ولہم عذاب عظیم") جس ختم قلوب کا ذکر ہے اس کے بارے میں دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیں۔

 ایک یہ کہ اس ختم سے مراد ختم ظاہری نہیں ہے بلکہ ختم معنوی مراد ہے۔ جہاں تک ظاہری چیزوں کے دیکھنے، سننے اور سمجھنے کا تعلق ہے یہ لوگ ان کو دیکھتے، سنتے اور سمجھتے تھے لیکن اس مشرب کے لوگ اپنی سمجھ بوجھ کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں دنیا کے ظواہر و محسوسات ہی تک محدود رکھتے ہیں، ان ظواہر و محسوسات کے پس پردہ جو حقائق ہیں ان کی طرف نہ تو یہ خود متوجہ ہوتے ہیں اور نہ کسی دوسرے توجہ دلانے والے کی بات پر کان ہی دھرتے ہیں۔ دنیا اور زخارف دنیا میں ان کا انہماک اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ کسی اور چیز کی طرف توجہ کرنے کی ان کے اندر گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ اپنی ذہانت و فطانت اسی ایک مقصد پر صرف کرتے ہیں۔ 

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آسمان وزمین کا طول وعرض ناپنے میں تو ان کی عقل بڑی تیز ہوجاتی ہے لیکن روحانی اقدار و حقائق کے معاملہ میں وہ بالکل ہی کند ہوتی ہے۔ یہ صورت حال ان کے مذاق کو بھی اس قدر بگاڑ دیتی ہے کہ صرف وہی باتیں ان کو اچھی لگتی ہیں جن سے ان کے اس بگرے ہوئے مذاق کو غذا ملے۔ جن کو باتوں سے اس کی حوصلہ شکنی ہو، خواہ وہ کتنی ہی معقول ہوں، ان سے ان کی طبیعت کو وحشت ہوتی ہے۔  اسی صورت حال کو یہاں ختم قلوب کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔

 دوسری یہ کہ اس ختم قلوب سے یہ مراد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ان کی ماؤں کے یٹوں ہی سے ان کے دلوں پر ٹھپے لگا کر پیدا کیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بد اعمالیوں سے اپنے آپ کو اس قدر بگاڑ لیا ہے کہ ان کے دل پیغمبر کی بات سننے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے۔ 

جہاں تک اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے اس نے ہر انسان کو اچھی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، اس کو نیکی وبدی کا امتیاز بخشا ہے اور ساتھ ہی نیکی کو پسند کرنے اور بدی سے نفرت کرنے کا مذاق بھی اس کے اندر ودیعت کیا ہے۔ ان فطری صلاحیتوں سے آراستہ کرنے کے بعد اس نے انسان کو آزاد چھوڑا ہے کہ چاہے وہ نیکی کا راستہ اختیار کرے چاہے بدی کا۔ 

آگے چل کر یہی اختیاری نیکی یا بدی ہے جو اس کی فطری صلاحیتوں کے بنانے یا بگاڑنے میں اصلی دخل رکھتی ہے۔ اگر انسان نیکی اور بھلائی کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس سے اس کی فطری صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو نیکی کی راہ میں ترقی کی توفیق ملتی ہے۔ اور اگر وہ خواہشاتِ نفس کے پیچھے لگ کے بدی کے راستے پر چل پڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس کا دل برائی کا رنگ پکڑنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ یہ رنگ اس پر اس قدر غالب ہوجاتا ہے کہ پھر اس کے اندر نیکی کی کوئی رمق باقی ہی نہیں رہ جاتی۔ یہی مقام ہے جہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کے قانون کے تحت آدمی کے دل پر مہر لگ جاتی ہے اور اس کا مذاق طبیعت اس قدر بگڑ جاتا ہے کہ اس کی ساری دلچسپی صرف بدی ہی کے کاموں سے باقی رہ جاتی ہے، نیکی کے کام کرنا تو الگ رہا نیکی کی باتیں سننے سے بھی اس کو وحشت ہوتی ہے۔

 چناچہ قرآن مجید میں یہ بات بار بار بیان ہوئی ہے کہ آدمی کے دل پر یہ مہر اس کے گناہوں کی پاداش میں لگتی ہے۔ 

چند آیات ملاحظہ ہوں :"اولم یھد للذین یرثون الارض من بعد اھلہا ان لو نشاء اصبناہم بذنوبہم ونطبع علی قلوبہم فہم لا یسمعون" (اعراف :100) (کیا ان لوگوں کو جو اگلوں کے بعد اس زمین کے وارث ہوئے اس بات سے کوئی سبق حاصل نہیں ہوتا کہ اگر ہم چاہتے تو ان کے گناہوں کی پاداش میں ان پر بھی آفت لاتے اور ان کے دلوں پر مہر کر دیتے پس وہ سننے سمجھنے سے رہ جاتے)۔ اس آیت میں اس بات کی صاف تصریح ہے کہ دلوں پر مہر گناہوں کی سزا کے طور پر لگتی ہے۔ 

دوسری جگہ فرمایا ہے : " ولقد جاء تہم رسلہم بالبینات فما کانوا لیومنوا بما کذبوا من قبل، کذلک یطبع اللہ علی قلوب الکافرین، وما وجدنا لاکثرہم من عہد وان وجدنا اکثرہم لفاسقین" (اعراف : 101-102) (اور ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے لیکن یہ لوگ ایمان لانے والے نہ بنے کیوں کہ یہ پہلے سے جھٹلاتے رہے تھے۔

 اسی طرح اللہ کافروں کے دلوں پر مہر کردیا کرتا ہے۔ ہم نے ان میں سے اکثر کے اندر عہد کی پابندی نہیں پائی (بلکہ ) ہم نے ان میں سے اکثر کو بد عہد اور نافرمان پایا)۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے عہد اور اس کے احکام کی خلاف ورزی میں یہ پہلے مشاق تھے۔ اس وجہ سے جب ان کے رسول بھی ان کے پاس اللہ کی آیات اور اس کی نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے ان کی بھی کوئی پروا نہ کی۔ جو لوگ حق کی تکذیب میں اس طرح دیدہ دلیر اور ڈھیٹ ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے دلوں پر مہر کردیا کرتا ہے جس سے ان کی عقل بالکل ہی ماری جاتی ہے۔

 اس سے زیادہ وضاحت و تصریح کے ساتھ یہود کے بارے میں فرمایا ہے : "فبما نقضہم میثاقہم و کفرہم بایت اللہ وقتلہم الانبیاء بغیر حق و قولہم قلوبنا غلف۔ بل طبع اللہ علیہا بکفرہم فلا یومنون الا قلیلا" (نساء : 155) (پس بوجہ اس کے کہ انہوں نے عہد کو توڑا، اللہ کی ایات کا انکار کیا، انبیاء کو ناحق قتل کیا اور کہا کہ ہمارے دل تو بند ہیں بلکہ اللہ نے ان کے دلوں پر ان کے کفر کے سبب سے مہر کردی ہے تو وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت کم)۔ 

مذکورہ بالا آیات سے ایک تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی ماں کے پیٹ سے اس کے دل پر مہر کر کے نہیں بھیجتا بلکہ یہ مہر جس کے دل پر بھی لگتی ہے اس کے گناہوں کے قدرتی نتیجہ کے طور پر لگتی ہے۔

 دوسری حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ ہر درجہ کا گناہ وہ چیز نہیں ہے جس کے نتیجہ میں کسی کے دل پر مہر لگ جایا کرے، بلکہ کوئی فرد یا کوئی گروہ جب حق کو حق سمجھتے ہوئے، اپنے دل کی گواہی کے بالکل خلاف محض ضد، نفسانیت اور ہٹ دھرمی کے سبب سے اس کی مخالفت کرتا ہے اور اس مخالفت پر جم جاتا ہے تب اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے اور وہ صحیح طور پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجایا کرتا ہے۔ 

تیسری حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ دل کا اس طرح مہر بند ہوجانا اور سمع و بصر کی صلاحیتوں سے اس طرح محروم ہوجانا اللہ تعالیٰ کا ایک عذاب ہے جو اس کی نعمتوں کی ناشکری کی پاداش میں کسی فرد یا گروہ پر اس دنیا میں نازل ہوتا ہے اور اسی عذاب کا فطری نتیجہ وہ عذاب عظیم ہے جس میں اس طرح کے لوگ اس زندگی کے بعد والی زندگی میں مبتلا ہوں گے۔ چنانچہ زیر بحث آیت کے آخر میں یہ جو فرمایا ہے کہ "ولہم عذاب عظیم" (اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے) وہ درحقیقت اسی ختم قلوب کے اس قدرتی نتیجہ کا بیان ہے جو آخرت میں ظاہر ہوگا ۔

ختم قلوب کی جو حقیقت ہم نے بیان کی ہے اس کی وہی حقیقت احادیث سے بھی واضھ ہوتی ہے۔ ہم طوالت سے بچنے کے لیے صرف ایک حدیث پر یہاں اکتفا کرتے ہیں۔

 " ان المومن اذا اذنب کا نت نکتۃ سوداء فی قلبہ فان تاب و نزع واستعتب صقل قلبہ وان زادت حتی تعلو قلبہ فذلک الوان الذی قال اللہ تعالیٰ کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون" (ابن کثیر بحوالہ ترمذی) 

(مومن جب کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے سبب سے اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے، اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتا ہے تو اس کے دل کا وہ دھبہ صاف ہوجاتا ہے۔ اور اگر اس کے گناہوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ ان کی سیاہی اس کے پورے دل پر چھا جاتی ہے تو یہی وہ رین ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ کلا بل ران علی قلوبہم ماکانوا یکسبون۔ (ہر گز نہیں ! بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی سیاہی چھا گئی ہے )۔ 

سلف صالحین کے نزدیک بھی ختم قلوب کی یہی حقیقت ہے۔ ابن کثیر نے اعمش کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اعمش کہتے ہیں کہ مجاہد نے ایک مرتبہ ہمیں سمجھایا کہ سلف (صحابہ) دل کو اس ہتھیلی کے مانند سمجھتے تھے۔ جب آدمی کسی گناہ میں آلودہ ہوتا ہے تو (انہوں نے اپنی انگلی سکیڑتے ہوئے سمجھایا) دل اس طرح سکڑ جاتا ہے۔ پھر جب مزید گناہ کرتا ہے تو (دوسری انگلی کو سکیڑتے ہوئے بتایا) دل اس طرح بھنچ جاتا ہے اسی طرح تیسری انگلی کو سکیڑا۔ یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے تمام انگلیوں کو سکیڑ لیا۔ پھر فرمایا کہ جب دل گناہوں کے غلبہ سے اس طرح بھنچ جاتا ہے تو اس پر مہر کردی جاتی ہے۔ جاہد نے بتایا کہ سلف (صحابہ) اسی چیز کو وہ رین قرار دیتے تھے جس کا ذکر "کلا بل ران علی قلوبہم الایۃ" میں آیا ہے ۔

ختم قلوب کی اصل حقیقت واضح ہوجانے کے بعد ہمیں جبر و اختیار کی اس بحث میں پڑنے کی ضرورت باقی نہیں رہی جو اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان برپا ہے اور جس میں یہ حضرات بے ضرورت اس آیت کو بھی گھسیٹ لے گئے ہیں۔ 

قرآن مجید نہ تو اس جبر ہی کے حق میں ہے جس کے مدعی اشاعرہ ہیں اور نہ اس اختیار ہی کے حق میں ہے جس کے علم بردار معتزلہ ہیں بلکہ حق ان دونوں کے درمیان ہے۔ لیکن یہ مقام اس مسئلہ کی تفصیلات کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ہم صرف چند اصولی باتیں یہاں بیان کیے دیتے ہیں جو ان لوگوں کے لیے ان شاء اللہ کفایت کریں گی جو اس مسئلہ پر ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر صرف علمی ذہن کے ساتھ غور کریں گے۔ یہ اصولی باتیں مندرجہ ذیل ہیں :۔ 

1۔ مبداء فطرت سے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اچھی فطرت پر پیدا کیا ہے، اس کو نیکی وبدی کا امتیاز بخشا ہے اور ان میں سے جس کو بھی وہ اختیار کرنا چاہے اس کو اختیار کرنے کی اس کو آزادی دی ہے۔ اس کے بعد اس کا نیک یا بد بننا اس کے اپنے رویہ اور توفیق الٰہی پر منحصر ہے۔ اگر وہ نیکی کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نیکی کی توفیق بخشتا ہے اور اگر وہ بدی کی راہ پر جانا چاہتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ، اگر چاہتا ہے، بدی کی راہ پر جانے کے لیے بھی چھوڑ دیتا ہے۔ 

2۔ اللہ تعالیٰ جن چیزوں پر انسان کا مواخذہ کرے گا یا جن پر اس کو اجر دے گا ان کے لیے اس نے انسان کو اختیار وارادہ کی آزادی بھی بخشی ہے۔ جو لوگ اس اختیار وارادہ کے حامل نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو مواخذہ سے بھی بری رکھا ہے۔ یہ اختیار و ارادہ انسان کا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا عطا کردہ ہے اور اس کا استعمال بھی انسان اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی کے تحت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور حکمت کے تحت انسان کے جس ارادہ کو چاہے پورا نہ ہونے دے البتہ اگر وہ اپنی کسی حکمت کے تحت اس کے کسی نیکی کے ارادہ کو پورا نہیں ہونے دیتا تو اس نیکی کے کاجر سے اس کو محروم نہیں کرتا۔ اسی طرح اگر اس کی کسی بدی کی اسکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچنے نہیں دیتا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس کے اخروی خمیازہ سے بھی لازما اس کو بری قرار دے دے۔ 

3۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کی مطلق مشیت کا بیان ہوا ہے اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اس کی مشیت کو اس کے سوا کوئی دوسرا روک یا بدل نہیں سکتا۔ یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی مشیت سرے سے کسی عدل و حکمت کی پابند ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ عادل اور حکیم ہے، اس کا کوئی کام بھی عدل اور حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس وجہ سے جہاں کہیں بھی اس نے اپنی مشیت کو بیان فرمایا ہے اس کو اس قانون عدل و حکمت ہی کے تحت سمجھنا چاہیے جس کے تحت اس نے اس دنیا کے نظم کو چلانا پسند فرمایا ہے۔ یہ خیال کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ اپنی جو سنت اس نے خود جاری کی ہے اور جس قانونِ عدل کو اس نے خود پسند فرمایا ہے اپنی مشیت کے زور سے خود ہی اس کو توڑے گا۔ مثلا اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس پر ہدایت و ضلالت کے لیے اس نے عدل و حکمت کا کوئی ضابطہ سرے سے مقرر ہی نہیں کیا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ہدایت و ضلالت اس سنت کے مطابق واقع ہوتی ہے جو اس نے ہدایت و ضلالت کے لیے مقرر کر رکھی ہے اور کوئی دوسرا اس سنت کے توڑنے یا بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ 

4۔ قرآن مجید میں بعض افعال اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمائے ہیں لیکن ان سے اصل مقصود، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، ان افعال کی نسبت نہیں ہے بلکہ ان ضابطوں اور ان قوانین کی نسبت ہے جن کے تحت وہ افعال واقع ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ ضابطے اور قاعدے خود اللہ تعالیٰ ہی کے ٹھہرائے ہوئے ہیں اس وجہ سے کہیں کہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے تحت واقع ہونے والے افعال کو بھی اپنی طرف منسوب کردیا ہے۔ مثلاً فرمایا ہے" فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبہم" (جب وہ کج ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل کج کردئیے)۔ یا فرمایا ہے " ونقلب افئدتہم وابصارہم" (اور ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں الٹ دیتے ہیں)۔ اس طرح کے مواقع پر عموماً قرآن مجید میں وہ اصول بھی بیان کردیا جاتا ہے جس کے تحت وہ فعل واقع ہوتا ہے۔ مثلاً اس طرح کی کوئی بات کہہ دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نہیں گمراہ کرتا مگر فاسقوں کو۔ ان اشارات کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ قاری اصل حقیقت کی طرف متوجہ ہوجائے اور ظاہر الفاظ سے کسی مغالطہ میں نہ پڑجائے۔ 

5۔ اللہ تعالیٰ کا ازلی و ابدی اور محیط کل علم، اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی سنتوں میں سے کسی سنت کی نفی نہیں کرتا، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ ہر شخص کے متعلق ازل سے یہ جانتا ہے کہ وہ ہدایت کی راہ اختیار کرے گا یا ضلالت کی لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ ہدایت یا ضلالت کو اسی سنت اللہ کے مطابق اختیار کرے گا جو ہدایت و ضلالت کے لیے اس نے مقرر کر رکھی ہے۔ ان اصولی باتوں کو جو شخص پیش نظر رکھے گا وہ انشاء اللہ ان بہت سی الجھنوں سے آپ سے آپ نکل جائے گا جو جبر و اختیار کے معاملہ میں قرآن مجید کی پیدا کردہ نہیں بلکہ متکلمین کی موشگافیوں کی پیدا کردہ ہیں ۔

-----------------------------------

تدبر قرآن جلد اول ص 110-115،  مولانا امین احسن اصلاحی ؒ