قرآن کے مطابق کائنات کی وسعت

" کائنات اتنی وسیع اور اتنی عظیم ہے کہ کوئی بھی شخص ہوش و حواس کے ساتھ یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ اس کو خدا کے سوا کسی اور نے بنایا ہے۔ مگر اس حقیقت کو ماننے کے باوجود انسان کا حال یہ ہے کہ وہ خدا کے سوا دوسری چیزوں کو عظمت کا مقام دیتا ہے۔ یہی وہ غیر معقول رویہ ہے جس کا دوسرا نام شرک ہے۔ خدا کی عظمت اس سے زیادہ ہے کہ وہ لفظوں میں بیان کی جا سکے۔



علوم طبیعی کی تاریخ ہزاروں برس کے دائرہ میں پھیلی ہوئی ہے۔ مگر بے شمار تحقیقات کے باوجود ابھی تک کسی ایک چیز کے بارے میں بھی پوری معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔ انسان کو آج بھی یہ نہیں معلوم کہ خلا میں کتنے ستارے ہیں۔ زمین میں نباتات اور حیوانات کی کتنی قسمیں ہیں۔ درخت کی ایک پتی اور ریت کے ایک ذرے کی اہمیت کیا ہے۔ سمندر کے اندر کتنے عجائبات چھپے ہوئے ہیں۔ غرض اس دنیا کی کوئی بھی چھوٹی یا بڑی چیز ایسی نہیں جس کے بارے میں انسان کو پوری معلومات حاصل ہوچکی ہوں۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ درختوں کے قلم اور سمندروں کی سیاہی بھی خدا کے ان گنت کرشموں کو تحریر کرنے کے لیے کافی نہیں "۔ (تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خاں ) 

ارشاد باری تعالی ہے : 


وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ( لقمان 27؀)

"اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں۔ بےشک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے۔"

اسی حقیقت کو دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرمایا : 

قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا (الکھف : ١٠٩)

"کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لئے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں ۔" 



’ کلمٰت‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ نشانیاں ہیں جو اس کی ذات و صفات اور اس کی قدرت و حکمت پر گواہی دیتی ہیں۔ چونکہ ہر نشانی اللہ کے کلمہ "کن" کا مظہر ہے اور ہر نشانی زبانِ حال سے ناطق بھی ہے اس وجہ سے یہاں نشانیوں کو کلمات سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ تعبیر نہایت ہی معنی خیز تعبیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کوئی ایسی مبہم و مجہول چیز نہیں ہے کہ اس کے باب میں لوگوں کو ایسا التباس پیش آئے کہ لوگ جس اینٹ پتھر کو چاہیں خدا سمجھ کر اس کو ڈنڈوت شروع کردیں۔ اس کائنات میں خدا کی اتنی نشانیاں ہیں کہ اگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام سمندر، مزید سات سمندروں کے اضافے کے ساتھ، روشنائی بن جائیں جب بھی ان کا قلم بند کیا جانا ممکن نہیں ہے۔ اور یہ تمام نشانیاں اس بات پر شاہد ہیں کہ اس کا خالق عزیز و حکیم ہے۔  (تدبر قرآن ) 

" بظاہر ایک شخص یہ گمان کرے گا شاید اس قول میں مبالغہ کیا۔ لیکن اگر آدمی تھوڑا سا غور کرے تو محسوس ہوگا کہ درحقیقت اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہے۔ جتنے قلم اس زمین کے درختوں سے بن سکتے ہیں اور جتنی روشنائی زمین کے موجودہ سمندر اور ویسے ہی سات مزید سمندر فراہم کرسکتے ہیں، ان سے اللہ کی قدرت و حکمت اور اس کی تخلیق کے سارے کرشمے تو درکنار، شائد موجودات عالم کی مکمل فہرست بھی نہیں لکھی جا سکتی۔ تنہا اس زمین پر جتنی موجودات پائی جاتی ہیں انہی کا شمار مشکل ہے، کجا کہ اس اتھاہ کائنات کی ساری موجودات ضبط تحریر میں لائی جا سکیں ۔

اس بیان سے دراصل یہ تصور دلانا مقصود ہے کہ جو خدا اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لایا ہے اور ازل سے ابد تک اس کا سارا نظم و نسق چلا رہا ہے اس کی خدائی میں ان چھوٹی چھوٹی ہستیوں کی حیثیت ہی کیا ہے جنہیں تم معبود بنائے بیٹھے ہو۔ اس عظیم الشان سلطنت کے چلانے میں دخیل ہونا تو درکنار، اس کے کسی اقل قلیل جز سے پوری واقفیت اور محض واقفیت تک کسی مخلوق کے بس کی چیز نہیں ہے۔ پھر بھلا یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ مخلوقات میں سے کسی کو یہاں خداوندانہ اختیارات کا کوئی ادنیٰ سا حصہ بھی مل سکے جس کی بنا پر وہ دعائیں سننے اور قسمتیں بنانے اور بگاڑنے پر قادر ہو ۔" (تفہیم القرآن )