جواب کا خاص قرآنی اسلوب

ارشاد باری تعالی ہے : 

اَنّٰى لَهُمُ الذِّكْرٰى وَقَدْ جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ   (سورۃ الدخان: 13) 

"اب ان کے لیے نصیحت پکڑنے کا کہاں موقع باقی رہا! ان کے پاس تو ایک واضح کر دینے والا رسول آ چکا تھا "

یہ وہ جواب ہے جو ان لوگوں کو اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جائے گا۔ فرمایا کہ عذاب آ جانے کے بعد قبول نصیحت کا کہاں موقع باقی رہے گا! بالخصوص جبکہ ان کے پاس اتمام حجت کے لیے اللہ نے اپنا ایک رسول بھی بھیج دیا تھا جس نے ہر بات کی اچھی طرح وضاحت کر دی تھی لیکن انھوں نے نہایت تکبر کے ساتھ اس سے منہ موڑا اور اس پر یہ الزام لگایا کہ یہ دوسروں کو سکھایا پڑھایا ہوا ہے جس کو عذاب و قیامت کا مالیخولیا ہو گیا ہے۔ اب توبہ کا وقت گزر چکا۔ توبہ کا وقت وہ تھا جب رسول توبہ کی منادی کر رہا تھا۔ وہ وقت انھوں نے کھو دیا تو اب وہ ان کے لیے واپس آنے والا نہیں ہے۔



اس قسم کا جواب عذاب کی گرفت میں آ جانے والے مستکبرین کے لیے جگہ جگہ نقل ہوا ہے۔ بعض مستکبرین کو یہ جواب مخاطب کر کے دیا گیا ہے۔ مثلاً فرعون کو خطاب کر کے فرمایا:


’آلۡئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ‘ (یونس: ۹۱)
(اب ایمان لائے! اس سے پہلے تو تم نے نافرمانی کی)۔

دوسرے مقام میں ہے:


’فَیَقُوۡلُ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَی أَجَلٍ قَرِیْبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَکَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ أَوَلَمْ تَکُونُواْ أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَکُم مِّن زَوَالٍ‘ (ابراہیم: ۴۴)
(تو عذاب کی گرفت میں آ جانے کے بعد، وہ لوگ جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے، پکاریں گے کہ اے ہمارے رب، ہمیں تھوڑی سی مہلت اور دے، ہم تیری دعوت قبول اور رسولوں کی پیروی کریں گے۔ اس وقت ان کو جواب ملے گا کہ کیا تم لوگ اس سے پہلے قسمیں نہیں کھاتے تھے کہ تم کبھی اپنے موقف سے ہٹنے والے نہیں ہو!)



آیت زیربحث میں یہی بات ان سے منہ پھیر کر غائبانہ اسلوب میں فرمائی گئی ہے۔ اسلوب کی یہ تبدیلیاں بلاغت کے تقاضوں کے تحت ہوتی ہیں اور اہل ذوق کے لیے یہ چیزیں محتاج وضاحت نہیں ہیں۔ خطاب کے اسلوب میں شدت اور غائب کے اسلوب میں اعراض کا مضمون نمایاں ہوتا ہے۔

(تدبر قرآن ، سورۃ الدخان ، مولانا امین احسن اصلاحی )