قدیم آسمانی صحیفے اور قرآن مجید

قرآن مجید میں جگہ جگہ قدیم آسمانی صحیفوں ، تورات ، زبور ، انجیل کے حوالے ہیں ۔ بہت سے مقامات پر انبیائے بنی اسرائیل کی سر گزشتیں ہیں ۔ 

بعض جگہ یہود اور نصاری کی تحریفات کی تردید اور ان کی پیش کردہ تاریخ پر تنقید ہے ۔ اس طرح کے مواقع میں میں نے ان روایات پر اعتماد نہیں کیا ہے جو ہماری تفسیر کی کتابوں میں منقول ہیں ۔ یہ روایات زیادہ تر سنی سنائی باتوں پر مبنی ہیں۔ اس وجہ سے نہ تو یہ اہل کتاب پر حجت ہو سکتی ہیں اور نہ ان سے خود اپنے ہی دل کے اندر اطمینان پیدا ہو تا ہے ۔

ایسے مواقع پر میں نے بحث و تنقید کی بنیاد اصل ماخذوں یعنی تورات و انجیل پر رکھی ہے۔ جس حد تک قرآن اور قدیم صحیفوں میں موافقت ہے وہ موافقت میں نے دکھادی ہے اور جہاں فرق ہے وہاں قرآن کے بیان کی حجت و قوت واضح کردی ہے ۔ 

تفسیر کی پہلی جلد میں ، بقرۃ اور آل عمران دونوں کی تفسیر میں ایسے بہت سے معرکے ملیں گے جن کر پڑھ کر قارئین یہ اندازہ کرسکیں گے کہ فی الواقع قرآن کا اصل زور اسی وقت واضح ہوتا ہے جب کسی معاملے میں اس کے بیان کو تورات و انجیل کے مقابل رکھ کے جانچاجائے ۔ 

ان مقابل بحثوں کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے اسی طرح تورات زبور و انجیل بھی اللہ ہی کے اتارے ہوئے صحیفے ہیں ۔ اگر ان کے بد قسمت حاملوں نے ان صحیفوں میں تحریفیں نہ کردی ہو تیں تو یہ بھی اسی طرح ہمارے لے رحمت و برکت تھے جس طرح قرآن ہے ۔ لیکن ان تحریفات کے باوجود آج بھی ان کے اندر حکمت کے خزانے ہیں ۔ اگر آدمی ان کو پڑھے تو یہ حقیقت آفتاب کی طرح سامنے آتی ہے کہ ان صحیفوں کا سر چشمہ بھی بلاشبہ وہی ہے جو قرآن کا ہے ۔ میں ان کو بار بار پڑھنے کے بعد اس رائے کا اظہار کر تاہوں کہ قرآن مجید کی حکمت کے سمجھنے میں جو مدد ان صحیفوں سے ملتی ہے وہ مدد مشکل ہی سے کسی دوسری چیز سے ملتی ہے ۔ خاص طور پر زبور، امثال اور انجیلوں کو پڑھئے تو ان کے اندر ایمان کو وہ غذاملتی ہے جو قرآن و حدیث کے سوا اور کہیں بھی نہیں ملتی ۔ حیرت ہوتی ہے کہ جن قوموں کے پاس یہ صحیفے موجود تھے وہ قرآن اور پیغمبر آخرالزمان ﷺ کی تعلیمات سے کیوں محروم رہیں ۔ 


(مقدمہ ، تدبر قرآن،  جلد اول  ، مولانا امین احسن اصلاحی ؒ )