بیہقی نے ابن عباس (رض) سے نقل کی ہے۔
ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) مجھے غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے بڑے بڑے شیوخ کے ساتھ اپنی مجلس میں بلاتے تھے۔
یہ بات بعض بزرگوں کو ناگوار گزری اور انہوں نے کہا ہمارے لڑکے بھی تو اسی لڑکے جیسے ہیں، اس کو خاص طور پر کیوں ہمارے ساتھ شریک مجلس کیا جاتا ہے؟ (امام بخاری اور ابن جریر نے تصریح کی ہے کہ یہ بات کہنے والے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف (رض) تھے)
حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ علم کے لحاظ سے اس کا جو مقام ہے وہ آپ لوگ جانتے ہیں۔
پھر ایک روز انہوں نے شیوخ بدر کو بلایا اور مجھے بھی ان کے ساتھ بلا لیا۔ میں سمجھ گیا کہ آج مجھے یہ دکھانے کے لیے بلایا گیا ہے کہ مجھ کو ان کی مجلس میں کیوں شریک کیا جاتا ہے۔
دوران گفتگو میں حضرت عمر (رض) نے شیوخ بدر (رض) سے پوچھا کہ آپ حضرات "اذا جآء نصر اللہ والفتح" کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
بعض نے کہا اس میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب اللہ کی نصرت آئے اور ہم کو فتح نصیب ہو تو ہم اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کریں۔ بعض نے کہا اس سے مراد شہروں اور قلعوں کی فتح ہے۔ بعض خاموش رہے۔
اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے کہا ابن عباس (رض)، کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟
میں نے کہا، نہیں۔
انہوں نے پوچھا پھر تم کیا کہتے ہو؟
میں نے عرض کیا اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجل (موت) ہے۔ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی گئی ہے جب اللہ کی نصرت آ جائے اور فتح نصیب ہوجائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وقت آن پورا ہوا، اس کے بعد آپ اللہ کی حمد اور استغفار کریں۔
اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا میں بھی اس کے سوا کچھ نہیں جانتا جو تم نے کہا ہے۔
ایک روایت میں اس پر یہ اضافہ ہے کہ حضرت عمر نے شیوخ بدر سے فرمایا آپ لوگ مجھے کیسے ملامت کرتے ہیں جبکہ اس لڑکے کو اس مجلس میں شریک کرنے کی وجہ آپ نے دیکھ لی ۔
(حوالہ : بخاری، مسند احمد، ترمذی، ابن جریر، ابن مردویہ، بغوی، بیہقی، ابن المنذر)