مفسر: مولانا امین احسن اصلاحی ؒ
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ . خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ (سورۃ البقرۃ آیات 7-6)
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ . خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ (سورۃ البقرۃ آیات 7-6)
"جن لوگوں نے کفر کیا، ان کے لیے یکساں ہے ڈراؤ یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ان الذین کفروا سواء علیہم ءانذرتہم ام لم تنذرہم لا یؤمنون"
"ان الذین کفروا"۔ کفر کے معنی اصل لغت میں ڈھانکنے اور چھپانے کے ہیں۔ قرآن میں یہ لفظ شکر کے ضد کی حیثیت سے بھی استعمال ہوا ہے اور ایمان کے ضد کی حیثیت سے بھی۔ پہلی صورت میں اس کے معنی نا شکری اور کفران نعمت کے ہوتے ہیں۔ دوسری صورت میں انکار کے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگ کہ لفظ کی اصل روح ان دونوں معنوں کے اندر موجود ہے۔
قرآن مجید میں یہ لفط مطلق بھی استعمال ہوا ہے اور اپنے مفعول کے ساتھ بھی۔ جہاں مفعول کے ساتھ استعمال ہوا ہے وہاں تو متعین طور پر اس مفعول ہی کا کفر و انکار مراد ہے۔ لیکن جہاں کسی مفعول کے بغیر مطلق صورت میں استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم تو ان تمام چیزوں کے انکار کے معنی میں استعمال ہوا ہے جن پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن کہیں کہیں ناشکری اور کفرانِ نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جس کا پتہ قرینہ اور موقع و محل سے چلتا ہے۔
"الذین کفرو" سے کون مراد ہیں ؟:۔
موقع کلام کا تقاضا یہ ہے کہ "الذین کفروا" سے یہاں انکار کرنے والوں کا کوئی مخصوص گروہ مراد ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ان لوگوں کی چند خاص صفات بھی بیان ہوئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ان کے لیے ڈرانا اور نہ ڈرانا دونوں برابر ہے، یہ کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں، یہ کہ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کردی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردے پڑ چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ حال تمام کفار کا نہیں تھا، ان میں بہتیرے ایسے بھی تھے جو ابتدا میں منکر و مخالف رہے لیکن بعد میں اسلام لائے۔ اس وجہ سے یہ امر تو بدیہی ہے کہ یہاں کوئی مخصوص گروہ مراد ہے۔ البتہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ گروہ کن لوگوں کا ہے ؟ ہمارے نزدیک اس سے مراد قریش، اہل کتاب اور منافقین کے وہ لیڈر اور سردار ہیں جن پر قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقانیت پوری طرح واضح ہوچکی تھی لیکن اس وضاحت کے باوجود وہ محض ضد، ہٹ دھرمی، انانیت اور حسد و تکبر کے سبب سے مخالفت کر رہے تھے۔ اس تخصیص کے بعض وجوہ یہ ہیں۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس سے اوپر والے ٹکڑے میں اس گروہ کا بیان ہوا ہے جو قرآن پر ایمان لانے والا تھا۔ وہاں ہم نے "ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب" کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ اس سے اہل کتاب اور بنی اسماعیل کے وہ تمام سلیم الفطرت اور خدا ترس لوگ مراد ہیں جن کے ضمیر زندہ، جن کی صلاحیتیں محفوظ اور جن کے دل بیدار تھے۔ انہی کے مقابل میں مذکورہ آیات میں اس گروہ کا بیان ہورہا ہے جو ایمان لانے والا نہیں ہے۔ یہ تقابل خود دلیل ہے کہ اس سے مراد قریش اور اہل کتاب میں سے وہ لوگ ہوں جن کو دنیا پرستی اور حسد و انانیت نے بالکل اندھا بہرا کردیا تھا، جن کی فطرت مسخ ہوچکی تھی اور جو قبول حق کی تمام صلاحیتوں سے یک قلم محروم ہوچکے تھے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں قرآن نے اس گروہ کی جو خصوصیات، اس کا نام لیے بغیر، بیان کی ہیں بعینہ وہی خصوصیات دوسرے مقامات میں یا تو نام کی صراحت کے ساتھ بیان کی ہیں یا ایسے واضح قرائن کے ساتھ بیان کی ہیں جن سے گروہ کا تعین آپ سے آپ ہوجاتا ہے۔ ان مقامات کو سامنے رکھ کر اگر اس آیت کے اجمال کو واضھ کرنے کی کوشش کی جائے تو آدمی اسی نتیجہ تک پہنچتا ہے جس نتیجہ تک ہم پہنچے ہیں۔ یعنی اس سے مشرکین، یہود اور منافقین کے وہ سردار اور لیڈر مراد لیے جائیں جن پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوچکی تھی کہ قرآن کی دعوت حق ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے تھے۔ یہاں ہم چند آیتیں نقل کرتے ہیں جن سے ہماری رائے کی تائید ہوتی ہے۔
’’ مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـن بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۔ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ‘‘ (نحل 106-108)
(جس نے کفر کیا اللہ کا ایمان کے بعد، یہ جز ان کے جو مجبور کیے گئے اور جن کے دل ایمان پر جمے رہے، پر جن کے سینے کفر کے لیے کھل گئے تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی اور اللہ کافر قوم کو راہ یاب نہیں کرتا۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر، کانوں پر اور جن کی آنکھوں پر اللہ نے مہر کردی ہے اور یہی لوگ ہیں جو بے خبر ہیں)۔
اس آیت میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو لوگ ایمان لا چکے یا حق کے واضح ہوجانے کے بعد محض دنیا پرستی کی وجہ سے کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان پر اللہ کا غضب ہوتا ہے، ان کے لیے عذاب عظیم ہے، ان کے لیے خدا ایمان کی راہ نہیں کھولا کرتا، ان کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے حقیقی مصداق اگر ہوسکتے تے تو سردارانِ قریش، علمائے یہود اور منافقین ہی ہوسکتے تھے یا پھر وہ لوگ جو انہی کی روش اختیار کریں۔
دوسری جگہ تمام انبیا کے مخالفین و معاندین کے بارہ میں فرمایا ہے :۔
"تلک القری نقص علیک من انبائہا و لقد جاءتہم رسلہم بالبینت فما کانوا لیومنوا بما کذبوا من قبل۔ کذلک یطبع اللہ علی قلوب الکافرین" (اعراف :101)
(یہ بستیاں ہیں جن کی سرگذشتیں ہم تم کو سناتے ہیں۔ ان کے پاس ان کے انبیا کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے لیکن وہ ایمان لانے والے نہ بنے، بوجہ اس کے کہ وہ جھٹلاتے رہے پہلے سے۔ اسی طرح اللہ مہر کردیا کرتا ہے کافروں کے دلوں پر)۔
خاص طور پر یہود کے بارہ میں فرمایا ہے :
فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ وَ کُفۡرِہِمۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ قَتۡلِہِمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ وَّ قَوۡلِہِمۡ قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿النساء : ۱۵۵﴾۪
"پس بوجہ اس کے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو توڑا، اللہ کی آیات کا انکار کیا۔ نبیوں کو ناحق قتل کیا اور کہا کہ ہمارے دل تو بند ہیں بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر مہر کردی ہے تو وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت کم)۔
اسی طرح منافقین کے بارہ میں یہ الفاظ وارد ہیں :
"ذلک بانہم امنوا ثم کفروا فطبع علی قلوبہم فھم لا یفقہون" (منافقون :3)
(یہ اس وجہ سے کہ وہ ایمان لائے، پھر انہوں نے کفر کیا پس ان کے دلوں پر مہر کردی گئی سو وہ نہیں سمجھتے)۔
قرآن کی ان تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ زیر بحث آیت میں "الذین کفروا" کا اشارہ ایک خاص گروہ کی طرف ہے۔ لیکن یہ گروہ نہ مخصوص طور پر مشرکین کا ہے نہ محدود و مفہوم میں اہل کتاب کا بلکہ یہ مشرکین اور اہل کتاب دونوں گروہوں کے ان افراد پر مشتمل ہے جو حق کو اچھی طرح پہچان چکنے کے بعد اس کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ سلف سے اس آیت کی تاویل میں جو اقوال منقول ہیں ان سے بھی ہمارے خیال کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس کے نزدیک اس سے اہل کتاب کے وہ ہٹ دھرم لوگ مراد ہیں جو ان تمام پیشین گوئیوں کو جھٹلا چکے تھے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارہ میں ان کے صحیفوں میں موجود تھیں اور اس طرح انہوں نے اس عہد کو توڑدیا تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان سے آخری نبی سے متعلق لیا تھا۔ ربیع بن ابس کے نزدیک اس سے ان مختلف پارٹیوں کے لیڈر مراد ہیں جو اسلام کی مخالفت میں پیش پیش تھیں۔ یہ دونوں قول ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں۔ بس فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ ربیع بن انس کی تاویل نسبۃ جامع اور وسیع ہے۔ قرآن کے نظائر سے اسی کی تائید ہوتی ہے اس وجہ سے ہم نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
"ء انذرتہم": انذار کے معنی ڈرانے، ہوشیار کرنے اور خبردار کرنے کے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت و تبلیغ ایک طرف تو نہایت ٹھوس انفسی و آفاقی دلائل پر مبنی ہوتی ہے۔ دوسری طرف اس میں انذار و تبشیر کا پہلو بھی ہوتا ہے۔ تبشیر کا مفہوم اس فوز و فلاح اور اس کامیابی و کامرانی کی بشارت دینا ہے جو نبی کی دعوت قبول کرلینے اور اس کی بتائی ہوئی صراط مستقیم اختیار کرلینے سے دنیا اور آخرت دونوں میں حاصل ہوتی ہے۔ انذار کا مفہوم ان خطرات و مہالک سے آگاہ کرنا ہے جن سے نبی کی تکذیب کرنے والوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں لازماً دو چار ہونا پڑتا ہے۔ انبیا علیہم السلام عام حالات میں یہ دونوں ہی فرض انجام دیتے ہیں۔ لیکن جہاں ضدی اور ہٹ دھرم لوگ مقابل میں آن کھڑے ہوتے ہیں جن کی مخالفت کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں بلکہ محض حسد اور عناد کی بنا پر ہوتی ہے، وہاں قدرتی طور پر نبی کی دعوت میں انذار کا پہلو غالب ہوجاتا ہے کیونکہ اس وقت حالات اسی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہاں آپ کے کام کو صرف انذار ہی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ آیت زیر بحث کا تعلق، جیسا کہ واضح ہوچکا ہے، ان مخالفین و معاندین سے ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں کر رہے تھے بلکہ یہ جانتے ہوئے کر رہے تھے کہ آپ نبی برحق ہیں اور قرآن اللہ کی کتاب ہے۔
انذار ہو یا تبشیر دونوں کی حقیقت ان قدرتی نتائج سے آگاہ کرنا ہے جو ایمان یا کفر کے اندر مضمر ہیں۔ جس طرح ایک طبیب اپنے زیرِ علاج مریض کو دوا اور پرہیز کے فوائد اور بد پرہیزی اور مرض سے غفلت کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے اسی طرح پیغمبر بھی اپنی قوم کو اپنی دعوت کے ماننے اور نہ ماننے کے فوائد اور نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔
بعض لوگ انذار کی اس حقیقت سے بے خبر ہونے کے سبب سے مذہب کے خلاف یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ یہ موہوم خطرات کے ڈراوے سنا سنا کر لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہے، انسان کی عقل سے اپیل نہیں کرتا۔ یہ معترض عموماً دو باتوں سے بے خبر ہیں، ایک تو یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ قرآن کی دعوت صرف انذار وتبشیر ہی پر مبنی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اندر نہایت مضبوط انفسی و عقلی دلائل بھی رکھتی ہے، انذار و تبشیر اس کی دعوت کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسری چیز جس سے یہ بے خبر ہیں وہ ایمانی واخلاقی اقدار کی قدر و قیمت ہے۔ یہ لوگ اس بات سے تو واقف ہیں کہ سنکھیاں کھا لینے سے آدمی مرجایا کرتا ہے لیکن یہ حقیقت ان کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ کفر، نفاق اور جھوٹ سے بھی انسان ہلاک ہوجایا کرتا ہے۔ پیغمبر کو چونکہ اخلاقی اقدار کے ثمرات و نتائج کا اچھی طرح علم ہوتا ہے اس وجہ سے وہ لوگوں کو ان سے آگاہ کرتا ہے اور اسی انداز بیان میں آگاہ کرتا ہے جو انداز بیان اس کے علم و یقین کے شایانِ شان ہوتا ہے۔ اسی چیز کو قرآن مجید انذار کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے ۔ (1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1- تدبر قرآن ، جلد اول ص 106-110 ، مولانا امین احسن اصلاحی ؒ