تورات اللہ کی کتاب تھی جو یہود پر اتری۔ مگر دھیرے دھیرے تورات کی حیثیت ان کے یہاں قومی تبرک کی ہوگئی۔ قومی عظمت اور نجات کی علامت کے طور پر یہود اب بھی اس کو سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ مگر رہنما کتاب کے مقام سے اس کو انہوں نے ہٹا دیا تھا۔ حضرت موسی ؑ کے بعد بار بار ان کے درمیان انبیاء اٹھے، مثلاً یوشع نبی، داود نبی، زکریا نبی، یحیی نبی، وغیرہ۔ ان کے آخری نبی حضرت عیسیٰ تھے۔ یہ تمام انبیاء یہود کو یہ نصیحت دینے کے لیے آئے کہ تورات کو اپنی عملی زندگیوں میں شامل کرو۔ مگر تورات کے تقدس پر ایمان رکھنے کے باوجود یہ آواز ان کے لیے تمام آوازوں سے زیادہ ناقابل برداشت ثابت ہوئی۔ وہ خدا کے نبیوں کو نبی ماننے سے انکار کرتے، حتی کہ ان کو قتل کرڈالتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تورات کے نام پر وہ جس زندگی کو اختیار کیے ہوئے تھے وہ حقیقۃً نفسانیت اور دنیا پرستی کی ایک زندگی تھی۔ جس کے اوپر انہوں نے خدا کی کتاب کا لیبل لگا لیا تھا۔ خدا کے نبی جب بے آمیز حق کی دعوت پیش کرتے تو ان کو نظر آتا کہ یہ دعوت ان کی مذہبی حیثیت کی نفی کر رہی ہے۔ اب ان کے اندر گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھتیں۔ وہ نبیوں کے اعتراف کے بجائے ان کو ختم کرنے کے درپے ہوجاتے ۔
یہی معاملہ عرب کے یہود نے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا۔ وہ اپنی کتابوں میں آخری رسول کی پیشین گوئی کو دیکھ کر کہتے کہ جب وہ نبی آئے گا تو ہم اس کے ساتھ مل کر کافروں اور مشرکوں کو زیر کریں گے۔ مگر ان کی یہ بات محض ایک جھوٹی تقریر تھی جو اپنے کو مذہب کا پاسبان ظاہر کرنے کے لیے وہ کرتے تھے۔ چنانچہ "وہ نبی" آیا تو ان کی حقیقت کھل گئی۔ ان کے جاہلی تعصبات اپنے گروہ سے باہر کے ایک نبی کا اعتراف کرنے میں رکاوٹ بن گئے۔ قرآن میں آپ کی صداقت کے بارے میں جو واضح دلائل دئیے جا رہے تھے، ان کے جواب سے وہ عاجز تھے۔ اس لیے وہ کہنے لگے کہ تمہاری ظاہر فریب باتوں سے متاثر ہو کر ہم اپنے اسلاف کا دین نہیں چھوڑ سکتے ۔ (1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1- ( تذکیر القرآن ، تفسیر آیت 87 تا 90: مولانا وحید الدین خاں )