ھجرت سے قبل مدینہ کے یھودی قبائل کی ظالمانہ سیاست - مولانا وحید الدین خاں

قدیم مدینہ کے اطراف میں یہود کے تین قبیلے آباد تھے۔ بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع۔ یہ سب موسوی شریعت کو مانتے تھے۔ مگر ان کے جاہل تعصبات نے ان کو الگ الگ گروہوں میں بانٹ رکھا تھا۔ اپنی دنیوی سیاست کے تحت وہ مدینہ کے مشرک قبائل۔ اوس اور خزرج کے ساتھ مل گئے تھے۔ بنونضیر اور بنوقریظہ نے قبیلہ اوس کا ساتھ پکڑ لیا تھا۔ بنوقینقاع قبیلہ خزرج کے حلیف بنے ہوئے تھے۔

 اس طرح دو گروہ بن کر وہ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ جنگ بعاث اسی قسم کی ایک جنگ تھی جو ہجرت نبوی سے پانچ سال پہلے واقع ہوئی۔ ان لڑائیوں میں یہود مشرک قبائل کے ساتھ مل کر دو محاذ بنا لیتے۔ ایک محاذ میں شامل ہونے والے یہودی دوسرے محاذ میں شامل ہونے والے یہودیوں کو قتل کرتے اور ان کو ان کے گھروں سے بے گھر کرتے۔ پھر جب جنگ ختم ہوجاتی تو وہ تورات کا حوالہ دے کر اپنے ہم مذہبوں سے چندہ کی اپیلیں کرتے تاکہ اپنے گرفتار بھائیوں کو فدیہ دے کر مشرک قبائل کے ہاتھ سے چھڑایا جا سکے۔ انسان کے جان و مال کے احترام کے بارے میں وہ خدا کے حکم کو توڑتے اور پھر اپنی ظالمانہ سیاست کا شکار ہونے والوں کے ساتھ نمائشی ہمدردی کرکے ظاہر کرتے کہ وہ بہت دیندار ہیں۔ 

یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کو ناحق قتل کردیا جائے اور اس کے بعد شرعی طریقہ پر اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے۔ شریعت کے اصلی اور اساسی احکام آدمی سے جاہلی زندگی چھوڑنے کے لیے کہتے ہیں۔ وہ اس کو نظر انداز کرتا ہے۔ وہ حقیقی دین داری کے جوئے میں اپنے کو ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ البتہ کچھ معمولی اور نمائشی چیزوں کی دھوم مچاکر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خدا کے دین پر پوری طرح قائم ہے۔ مگر یہ خد اکے دین کا خود ساختہ ایڈیشین تیار کرنا ہے۔ یہ دین کے اخروی پہلو کو نظر انداز کرنا ہے اور دین کے بعض وہ پہلو جو اپنے اندر دنیوی رونق اور شہرت رکھتے ہیں ان میں دین داری کا کمال دکھانا ہے۔ دین میں اس قسم کی جسارت آدمی کو اللہ کے غضب کا مستحق بناتی ہے نہ کہ اللہ کے انعام کا ۔


(تذکیر القرآن ، سورۃ البقرۃ ، تفسیر آیات 84 تا 86: مولانا وحید الدین خاں)