عبرت کی نشانیاں

سید ابوالاعلی مودودی ؒ 

طالب حق لوگوں کے لیے تو خدا کی زمین پر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں، جنھیں دیکھ کر وہ حقیقت کو پہچان سکتے ہیں۔ لیکن ہٹ دھرم لوگ کبھی کسی چیز کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے ہیں، نہ آفاق کی نشانیاں دیکھ کر اور نہ انبیا ؑ کے معجزات دیکھ کر۔ وہ تو ہمیشہ اُس وقت تک اپنی ضلالت پر جمے رہے ہیں، جب تک خدا کے عذاب نے آکر ان کو گرفت میں نہیں لے لیا ہے۔ اسی مناسبت سے ہٹ دھرمی [پر جمے] کفارِمکّہ [کو] چند باتیں ذہن نشین کرائی گئی ہیں: 

اوّل یہ کہ نشانیاں دو طرح کی ہیں: ایک قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو خدا کی زمین پر ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، جنھیں دیکھ کر ہر صاحب ِ عقل آدمی تحقیق کرسکتا ہے کہ نبی جس چیز کی طرف بلا رہا ہے وہ حق ہے یا نہیں۔ دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو فرعون اور اس کی قوم نے دیکھیں، قومِ نوح نے دیکھیں، عاد اور ثمود نے دیکھیں، قومِ لوط اور اصحاب الایکہ نے دیکھیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا خود کفّار کا اپنا کام ہے کہ وہ کس قسم کی نشانی دیکھنا چاہتے ہیں۔


 دوم یہ کہ ہر زمانے میں کفّار کی ذہنیت ایک سی رہی ہے۔ ان کی حجتیں ایک ہی طرح کی تھیں۔ ان کے اعتراضات یکساں تھے۔ ایمان نہ لانے کے لیے ان کے حیلے اور بہانے یکساں تھے اور آخرکار ان کا انجام بھی یکساں ہی رہا۔ اس کے برعکس ہر زمانے میں انبیا ؑ کی تعلیم ایک تھی۔ ان کی سیرت و اخلاق کا رنگ ایک تھا۔ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں ان کی دلیل و حجت کا انداز ایک تھا۔ اور ان سب کے ساتھ اللہ کی رحمت کا معاملہ بھی ایک تھا۔ یہ دونوں نمونے تاریخ میں موجودہیں اور کفّار خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی اپنی تصویر کس نمونے سے ملتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں کس نمونے کی علامات پائی جاتی ہیں۔ 

تیسری بات جو بار بار دُہرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا زبردست ، قادر و توانا بھی ہے اور رحیم بھی۔ تاریخ میں اس کے قہر کی مثالیں بھی موجود ہیں اور رحمت کی بھی۔ اب یہ بات لوگوں کو خود ہی طے کرنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے رحم کا مستحق بناتے ہیں یا قہر کا۔ [سورۂ شعراء کے] آخری رکوع میں کہا گیا ہے کہ تم لوگ اگر نشانیاں ہی دیکھنا چاہتے ہو تو آخر وہ خوفناک نشانیاں دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہو جو تباہ شدہ قوموں نے دیکھی ہیں۔ اس قرآن کو دیکھو جو تمھاری اپنی زبان میں ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو۔ ان کے ساتھیوں کو دیکھو۔ ضدّم ضدّا کی بات دوسری ہے ، مگر اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھو کہ وہ کیا شہادت دیتے ہیں۔ اگر دلوں میں تم خود جانتے ہو کہ کہانت اور شاعری سے اس کا کوئی دُور کا واسطہ بھی نہیں ہےتو پھر یہ بھی جان لو کہ تم ظلم کر رہے ہو اور ظالموں کا سا انجام دیکھ کررہو گے۔

 ([سیّدابوالاعلیٰ مودودی] ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۴، شوال ۱۳۷۷ھ/ جولائی ۱۹۵۸ء،ص ۱۶-۱۷)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اشاعت مکرر : ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، بانی سید ابوالاعلی مودودیؒ ، تاریخ  اشاعت  ، جولائی 2018 ء )