استحکامِ نظم قرآن

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ 

 قرآن کی ہر بات اپنے اصول اور فروع میں اتنی مستحکم اور مربوط ہے کہ ریاضی اور اقلیدس کے فارمولے بھی اتنے مستحکم و مربوط نہیں ہوسکتے۔

 وہ جن عقائد کی تعلیم دیتا ہے وہ ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ و پیوستہ ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی الگ کردیجیے تو پورا سلسلہ ہی درہم برہم ہوجائے۔

 وہ جن عبادات و طاعات کا حکم دیتا ہے وہ عقائد سے اس طرح پیدا ہوتی ہیں جس طرح تنے سے شاخیں پھوٹتی ہیں، 

وہ جن اعمال و اخلاق کی تلقین کرتا ہے وہ اپنے اصول سے اس طرح ظہور میں آتے ہیں جس طرح ایک شے سے اس کے قدرتی اور فطری لوازم ظہور میں آتے ہیں۔


 اس کی مجموعی تعلیم سے زندگی کا جو نظام بنتا ہے وہ ایک بنیان مرصوص کی شکل میں نمایاں ہوتا ہے جس کی ہر اینٹ دوسری اینٹ سے اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی الگ کرنا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ پوری عمارت میں خلا پیدا ہوجائے۔ 

جس طرح اس کائنات کے اجزائے مختلفہ کا باہمی توافق اور ان کی سازگاری اس بات کی نہایت واضح شہادت ہے کہ اس کے اندر ایک ہی خدائے حی و قیوم کا ارادہ کار فرما ہے، کوئی اور اس میں شریک نہیں ہے اسی طرح اس کتابِ عزیز کے مختلف اجزا کی باہمی سازگاری و ہم آہنگی اس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ یہ ایک ہی خدائے علیم و حکیم کی وحی ہے، اس میں کسی اور جن یا بشر کی کوئی مداخلت نہیں ہے۔ 

اس کائنات میں اگر مختلف ارادے کار فرما ہوتے تو یہ درہم برہم ہو کر رہ جاتی۔ اسی طرح اس کتاب عزیز میں بھی اگر کسی اور فکر کی در اندازی ہوتی تو یہ تناقضات اور اختلافات کا ایک پراگندہ دفتر بن کے رہ جاتی۔  (1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1- ( تدبر قرآن ، جلد 2/ 347 سورہ النساء آیات 81 تا 82 )