آیت بسم اللہ اورسورة الْفَاتِحَة: زمانہ نزول، مضمون - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

بندے کے لیے کسی کام  کا سب سے بہتر آغاز یہ ہےکہ وہ اپنے کام کو اپنے رب کے نام سے شروع کرے۔ وہ ہستی جو تمام رحمتوں کا خزانہ ہے اور جس کی رحمتیں ہر وقت ابلتی رہتی ہیں، اس کے نام سے کسی کام کا آغاز کرنا گویا اس سے یہ دعا کرنا ہے کہ تو اپنی بے پایاں رحمتوں کے ساتھ میری مدد پر آجا اور میرے کام کو خیر و خوبی کے ساتھ مکمل کردے۔ یہ بندے کی طرف سے اپنی بندگی کا اعتراف ہے اور اسی کے ساتھ اس کی کامیابی کی الٰہی ضمانت بھی ۔


قرآن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مومن کے قلبی احساسات کے لیے صحیح ترین الفاظ مہیا کرتا ہے۔ بسم اللہ اور سورۃ فاتحہ اسی نوعیت کے دعائیہ کلام ہیں۔ سچائی کو پالینے کے بعد فطری طور پر آدمی کے اندر جو جذبہ ابھرتا ہے، اسی جذبہ کو ان الفاظ میں مجسم کردیا گیا ہے۔ 


آدمی کا وجود اس کے لیے اللہ کا ایک عظیم عطیہ ہے اس کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اگر کسی آدمی سے کہا جائے کہ تم اپنی دونوں آنکھوں کو نکلوادو یا دونوں پیروں کو کٹوا دو، اس کے بعد تم کو ملک کی بادشاہی دے دی جائے گی تو کوئی بھی شخص اس کے لیے تیار نہ ہوگا۔ گویا کہ یہ ابتدائی قدرتی عطیے بھی بادشاہ کی بادشاہی سے زیادہ قیمتی ہیں۔ اسی طرح آدمی جب اپنے گردو پیش کی دنیا کو دیکھتا ہے تو یہاں ہر طرف خدا کی مالکیت اور رحیمیت ابلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کو ہر طرف غیر معمولی اہتمام نظر آتا ہے۔ اس کو دکھائی دیتا ہے کہ دنیاکی تمام چیزیں حیرت انگیز طور پر انسانی زندگی کے موافق بنا دی گئی ہیں۔ یہ مشاہدہ اس کو بتاتا ہے کہ کائنات کا یہ عظیم کارخانہ بے مقصد نہیں ہوسکتا۔ لازمی طور پر ایسا دن آنا چاہیے جب ناشکروں سے ان کی ناشکر گزار زندگی کی باز پرس کی جائے اور شکر گزاروں کو ان کی شکر گزار زندگی کا انعام دیا جائے۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ خدایا ! تو فیصلہ کے دن کا مالک ہے۔ میں اپنے آپ کو تیرے آگے ڈالتا ہوں اور تجھ سے مدد چاہتا ہوں، تو مجھ کو اپنے سایہ میں لے لے۔ خدایا ! ہم کو وہ راستہ دکھا جو تیرے نزدیک سچا راستہ ہے یا ان لوگوں کا جو اپنی ڈھٹائی کی وجہ سے تیرے غضب کا شکار ہوجاتے ہیں ۔


اللہ کا مطلوب بندہ وہ ہے جو ان احساسات و کیفیات کے ساتھ دنیا میں جی رہا ہو۔ سورۃ فاتحہ اس بندہ مومن کی چھوٹی تصویر ہے اور بقیہ قرآن اس بندہ مومن کی بڑی تصویر ۔




سورۃ الفاتحۃ 

نام :


اس کا نام " الفاتحہ " اس کے مضمون کی مناسبت سے ہے۔ " فاتحہ " اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی مضمون یا کتاب یا کسی شے کا افتتاح ہو۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ یہ نام " دیباچہ " اور آغاز کلام کے ہم معنی ہے ۔


زمانہ نزول :


یہ نبوت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالکل ابتدائی زمانہ کی سورت ہے۔ بلکہ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی مکمل سورت جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی وہ یہی ہے۔ اس سے پہلے صرف متفرق آیات نازل ہوئی تھیں جو سورۃ علق، سورۃ مزمل، اور سورۃ مدثر وغیرہ میں شامل ہیں ۔


مضمون :


یہ سورہ ایک دعا کی صورت میں ہے۔ قرآن میں اس کی حیثیت مقدمہ یا دیباچہ کی طرح نہیں جیسے بعض اہل علم کا خیال ہے بلکہ جواب اور جواب دعا کی سی ہے ۔ سورہ فاتحہ اللہ تعالی کے حضور دعا ہے اور پور ا قرآن اس کا جواب ہے ۔


دراصل یہ سورۃ ایک دعا ہے جو خدا نے ہر اس انسان کو سکھائی ہے جو اس کتاب کا مطالعہ شروع کر رہا ہو۔ کتاب کی ابتدا میں اس کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اس ٢٢٢ کتاب سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو پہلے خداوند عالم سے یہ دعا کرو۔ انسان فطرةً دعا اسی چیز کی کیا کرتا ہے جس کی طلب اور خواہش اس کے دل میں ہوتی ہے، اور اسی صورت میں کرتا ہے جبکہ اسے یہ احساس ہو کہ اس کی مطلوب چیز اس ہستی کے اختیار میں ہے جس سے وہ دعا کر رہا ہے۔ پس قرآن کی ابتدا میں اس دعا کی تعلیم دے کر گویا انسان کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اس کتاب کو راہ راست کی جستجو کے لیے پڑھے، طالب حق کی سی ذہنیت لے کر پڑھے، اور یہ جان لے کہ علم کا سرچشمہ خداوند عالم ہے، اس لیے اسی سے راہنمائی کی درخواست کرکے پڑھنے کا آغاز کرے۔ اس مضمون کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن اور سورۃ فاتحہ کے درمیان حقیقی تعلق کتاب اور اس کے مقدمے کا سا نہیں بلکہ دعا اور جواب دعا کا سا ہے۔ سورۃ فاتحہ ایک دعا ہے بندے کی جانب سے، اور قرآن اس کا جواب ہے خدا کی جانب سے۔ بندہ دعا کرتا ہے کہ اے پروردگار ! میری رہنمائی کر۔ جواب میں پروردگار پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت و رہنمائی جس کی درخواست تو نے مجھ سے کی ہے۔