حضرت ابراھیم ؑ اور بعثت محمد ﷺ- مولانا وحید الدین خاں

خانہ کعبہ 

ارشاد باری تعالی ہے : 

" اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے اکھٹا ہونے کی جگہ اور امن کا مقام ٹھیرایا۔ اور حکم دیا کہ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنالو۔ اور ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکھو۔ اور جب ابراہیم نے کہا کہ اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنادے اور اس کے باشندوں کو، جو ان میں سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھیں، پھلوں کی روزی عطا فرما۔ اللہ نے کہا جو انکار کرے گا، میں اس کو بھی تھوڑے دنوں فائدہ دوں گا۔ پھر اس کو آگ کے عذاب کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔" سورۃ البقرۃ ؛ تفسیر آیات 125 تا 126:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ساری دنیا کے اہل ایمان ہر سال اپنے وطن کو چھوڑ کر بیت اللہ آتے ہیں۔ یہاں کسی کے لیے کسی ذی حیات پر زیادتی کرنا جائز نہیں۔ حرم کعبہ کو دائمی طور پر عبادت کی جگہ بنا دیا گیا ہے۔ اس مقام کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا جاتا ہے۔ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے۔ دنیا سے الگ ہو کر اللہ کی یاد کی جاتی ہے۔ اور اللہ کے لیے رکوع و سجود کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ دنیا کا سب سے زیادہ خشک علاقہ تھا جہاں ریتلی زمینوں اور پتھریلی چٹانوں کی وجہ سے کوئی فصل پیدا نہیں ہوتی تھی۔ مزید یہ کہ وہ انتاہائی طور پر غیر محفوظ تھا۔ چار ہزار برس پہلے حضرت ابراہیم کو حکم ہوا کہ اپنے خاندان کو اس علاقہ میں لے جاؤ اور اس کو وہاں بسا دو۔ حضرت ابراہیم نے ادنی تامل کے بغیر اس کی تعمیل کی۔ اور جب خاندان کو اس بے آب و گیاہ مقام پر پہنچا چکے تو دعا کی کہ خدا یا میں نے تیرے حکم کی تعمیل کردی۔ اب تو اپنے بندے کی پکار کو سن لے اور اس بستی کو امن و امان کی بستی بنا دے۔ اور اس خشک زمین پر ان کے لیے خصوصی رزق کا انتظام فرما۔ دعا قبول ہوئی اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ یہ علاقہ آج تک امن اور رزق کی کثرت کا نمونہ بنا ہوا ہے ۔

مومن کو دنیا میں اس طرح رہنا ہے کہ وہ بار بار یاد کرتا رہے کہ خواہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہو اس کو بہرحال ایک روز لوٹ کر خدا کے یہاں جانا ہے۔ وہ جن انسانوں کے درمیان رہے، بے ضرر بن کر رہے۔ وہ زمین کو خدا کی عبادت کی جگہ سمجھے اور اس کو اپنی کثافتوں سے پاک رکھے۔ اس کی پوری زندگی خدا کے گرد گھومتی ہو۔ وہ بظاہر دنیا میں رہے مگر اس کا دل اپنے رب میں اٹکا ہوا ہو۔ وہ ہمہ تن اللہ کے آگے جھک جائے۔ پھر یہ کہ دین جس چیز کا تقاضا کرے، خواہ وہ ایک "چٹیل میدان" میں بیوی بچوں کو لے جا کر ڈال دینا ہو، بندہ پوری وفاداری کے ساتھ اس کے لیے راضی ہوجائے۔ اور جب تعمیل حکم کرچکے تو خدا سے مدد کی درخواست کرے۔ عجب نہیں کہ خدا اپنے بندے کی خاطر چٹیل بیابان میں رزق کے چشمے جاری کردے ۔

دنیا کی رونق، خواہ کسی کو دین کے نام پر ملے، اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اللہ نے اس کو امامت و پیشوائی کے منصب کے لیے قبول کرلیا ہے۔ دنیا کی چیزیں صرف آزمائش کے لیے ہیں جو سب کو ملتی ہیں۔ جبکہ امامت یہ ہے کہ کسی بندے کو قوموں کے درمیان خدا کی نمائندگی کے لیے منتخب کرلیا جائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دعائے ابراھیمی اور بعثت محمد ﷺ



ارشاد باری تعالی ہے : 

" اور جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے اے ہمارے رب، قبول کر ہم سے، یقیناً تو ہی سننے والا، جاننے والا ہے۔اے ہمارے رب، ہم کو اپنا فرماں بردار بنا اور ہماری نسل میں سے اپنی ایک فرماں بردار امت اٹھا اور ہم کو ہماری عبادت کے طریقے بتا اور ہم کو معاف فرما، تو معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
 اے ہمارے رب، اور ان میں ان ہی میں کا ایک رسول اٹھا جو ان کو تیری آیتیں سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔ بےشک تو زبردست ہے، حکمت والا ہے۔"  سورۃ البقرۃ : تفسیر آایت 127 تا 129:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اللہ کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ حجاز کو اسلام کی دعوت کا عالمی مرکز بنائے۔ اس مرکز کے قیام اور انتظام کے لیے حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کا انتخاب ہوا۔ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی زبان سے جو کلمات نکل رہے تھے وہ ایک اعتبار سے دعا تھے اور دوسرے اعتبار سے وہ دو روحوں کا اپنے آپ کو اللہ کے منصوبے میں دے دینے کا اعلان تھا۔ ایسی دعا خود مطلوب الٰہی ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ پوری طرح قبول ہوئی۔ عرب کے خشک بیبان سے اسلام کا ابدی چشمہ پھوٹ نکلا۔ بنی اسماعیل کے دل اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر اپنے دین کی خدمت کے لیے نرم کردیے۔ ان کے اندر سے ایک طاقت ور اسلامی دعوت برپا ہوئی۔ ان کے ذریعہ سے اللہ نے اپنے بندوں کو وہ طریقے بتائے جن سے وہ خوش ہوتا ہے اور اپنی رحمت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ پھر انہیں کے اندر سے اس آخری رسول کی بعثت ہوئی جس نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ کار نبوت کو ایک مکمل تاریخی نمونہ کی صورت میں قائم کردیا۔ 

نبی کا پہلا کام تلاوت آیات ہے۔ آیت کے معنی نشانی کے ہیں یعنی وہ چیز جو کسی چیز کے اوپر دلیل بنے۔ انسان کی فطرت میں اور باہر کی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کی بے شمار نشانیاں رکھ دی ہیں۔ یہ اشارات کی صورت میں ہیں۔ پیغمبر ان اشارات کو کھولتا ہے۔ وہ آدمی کو وہ نگاہ دیتا ہے جس سے وہ ہرچیز میں اپنے رب کا جلوہ دیکھنے لگے۔ کتاب سے مراد قرآن ہے۔ نبی کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کی وحٰی کا مہبط بنتا ہے اور اس کو خدا سے لے کر انسان تک پہنچاتا ہے۔ حکمت کا مطلب ہے بصیرت۔ جب آدمی خدا کی نشانیوں کو دیکھنے کی نظر پیدا کرلیتا ہے، جب وہ اپنے ذہن کو قرآن کی تعلیمات میں ڈھال لیتا ہے تو اس کے اندر ایک فکری روشنی جل اٹھتی ہے، وہ اپنے آپ کو حقیقت اعلی کے ہم شعور بنا لیتا ہے۔ وہ ہر معاملہ میں اس صحیح فیصلہ تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ تزکیہ کا مطلب ہے کسی چیز کو غیر موافق عناصر سے پاک کردینا تاکہ وہ موافق فضا میں اپنے فطری کمال کو پہنچ سکے۔ نبی کی آخری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسے انسان تیار ہوں جن کے سینے اللہ کی عقیدت کے سوا ہر عقیدت سے خالی ہوں ایسی روحیں وجود میں آئیں جو نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہوں، ایسے افراد پیدا ہوں جو کائنات سے وہ ربانی رزق پا سکیں جو اللہ نے اپنے مومن بندوں کے لیے رکھ دیا ہے ۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1- تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خاں