حضرت ابراھیم ؑ کا وصیت نامہ - مولانا وحید الدین خاں

سورۃ البقرۃ : تفسیر آیات 130 تا 134:

ارشاد باری تعالی ہے :

"اور کون ہے جو ابراہیم کے دین کو پسند نہ کرے، مگر وہ جس نے اپنے آپ کو احمق بنا لیا ہو۔ حالاں کہ ہم نے اس کو دنیا میں چن لیا تھا اور آخرت میں وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا۔ جب اس کے رب نے کہا کہ اپنے آپ کو حوالے کردو تو اس نے کہا میں نے اپنے آپ کو رب العالمین کے حوالے کیا۔ اور اسی کی نصیحت کی ابراہیم نے اپنی اولاد کو اور اسی کی نصیحت کی یعقوب نے اپنی اولاد کو۔ اے میرے بیٹو! اللہ نے تمھارے لئے اسی دین کو چن لیا ہے۔ پس ایمان کے سوا کسی اور حالت پر تم کو موت نہ آئے۔ کیا تم موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا۔ جب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے۔ انھوں نے کہا ہم اسی خدا کی عبادت کریں گے جس کی عبادت آپ اور آپ کے آباء- ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کرتے آئے ہیں، وہی ایک معبود ہے اور ہم اس کے فرماں بردار ہیں ۔ یہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی۔ اس کو ملے گا جو اس نے کمایا اور تم کو ملے گا جو تم نے کمایا۔ اور تم سے ان کے اعمال کی پوچھ نہ ہوگی۔"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت عین وہی تھی جو حضرت ابراہیم کی دعوت تھی۔ مگر یہود ، جو حضرت ابراہیم کا پیرو ہونے پر فخر کرتے تھے، آپ کی دعوت کے سب سے بڑے مخالف بن گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی  جس دین ابراہیمی کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے وہ "اسلام" تھا۔ یعنی اللہ کے لیے کامل حوالگی و سپردگی۔ قرآن کے مطابق یہی حضرت ابراہیم کا دین تھا اور اپنی اولاد کو انہوں نے اسی کی وصیت کی۔ اس کے برعکس یہود نے حضرت ابراہیم کی طرف جو دین منسوب کر رکھا تھا اس میں حوالگی و سپردگی کا کوئی سوال نہ تھا۔ اس میں آزادانہ زندگی گزارتے ہوئے محض سستے تخیلات کے تحت جنت کی ضمانت حاصل ہوجاتی تھی۔ پیغمبر عربی کے لائے ہوئے دین میں نجات کا دارومدار تمام تر عمل پر تھا، جب کہ یہود نے اللہ کے مقبول بندوں کی جماعت سے وابستگی اور عقیدت کو نجات کے لیے کافی سمجھ لیا تھا۔ اول الذکر کے نزدیک دین آسمانی ہدایات کا نام تھا اور ثانی الذکر کے نزدیک محض ایک گروہی مجموعہ کا جو نسلی روایات اور قومی تخیلات کے تحت ایک خاص صورت میں بن گیا تھا۔ 

ماضی یا حال کے بزرگوں سے اپنے کو منسوب کرکے یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ ہمارا انجام بھی انہیں کے ساتھ ہوگا۔ ہمارے عمل کیکمی ان کے عمل کی زیادتی سے پوری ہوجائے گی۔ یہود اس خوش فہمی کو یہاں تک لے گئے کہ انہوں نے نجات متوارث کا عقیدہ وضع کرلیا۔ انہوں نے اپنی تمام امیدیں اپنے بزرگوں کے تقدس پر قائم کرلیں۔ مگر یہ نفسیاتی فریب کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہر ایک کے آگے وہی آئے گا جو اس نے کیا۔ ایک سے نہ دوسرے کے جرائم کی پوچھ ہوگی اور نہ ایک کو دوسرے کی نیکیوں میں سے حصہ ملے گا۔ ہر ایک اپنے کیے کے مطابق اللہ کے یہاں بدلہ پائے گا۔ "تم نہ مرنا مگر اسلام پر" یعنی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنے میں رکاوٹیں آئیں گی، تمہاری تمناؤں کی عمارت گرے گی۔ پھر بھی تم آخر وقت تک اس پر قائم رہنا ۔ (1) 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1-  تذکیر القرآن ، مولانا وحید الدین خاں