اس کے لیے ہم نےسورۃ الرعد کا انتخاب کیا ہے اس سورۃ میں اللہ تعالی نے بتایا کہ جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں وہی حق ہے،اس سورہ کی ساری تقریر اسی مرکزی مضمون کے گرد گھومتی ہے۔ اس سلسلے میں بار بار مختلف کائناتی حقائق سے توحید ، معاد اور رسالت کی حقانیت پر استدلال کیا گیا ، ان پر ایمان لانے کے اخلاقی و روحانی قوائد سمجھائے گئے ہیں، ان کو نہ ماننے کے نقصانات بتائے گئے ہیں، اور یہ ذہن نشین کیا گیا ہے کہ کفر سراسر ایک حماقت اور جہالت ہے۔ پھر چونکہ اس سارے بیان کا مقصد محض دماغوں کو مطمئن کرنا ہی نہیں ، دلوں کو ایمان کی طرف کھینچنا بھی ہے، اس لیے نرے منطقی استدلال سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ ایک ایک دلیل اور ایک ایک شہادت کو پیش کرنے کے بعد ٹھیر کر طرح طرح سے تخویف، ترہیب، ترغیب ، اور مشفقانہ تلقین کی گئی ہے تاکہ نادان لوگ اپنی گمراہانہ ہٹ دھرمی سے باز آجائیں۔
دورانِ تقریر میں جگہ جگہ مخالفین کے اعتراضات کا ذکر کئے بغیر ان کے جوابات دیے گئے ہیں، اور ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے تھے یا مخالفین کی طرف سے ڈالے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ اہلِ ایمان کو بھی تسلی دی گئی ہے۔
مطالعہ اس طریقے سے کریں کہ سب پہلے ترجمہ پر غور فرمائیں شروع سے لیکر آخر تک پوری توجہ سے ایک مرتبہ مطالعہ کریں اس کےبعد مرکزی مضمون کو ذھن میں رکھتے ہوئے دوبارہ غور فرمائیں اس طرح سورت کے مجموعی مطالب واضح ہونے کے بعد حاشیہ پر نظر ڈالیں اس کے لیے ترجمہ پر درج نمبر پر کلک کریں ۔ یہ ترجمہ اور حاشیہ ہم نے مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کی آن لائن تفہیم القرآن سے انتخاب کیا ہے ۔
------------------------------------
ارشاد باری تعالی ہے :
ا۔ل۔م۔ر، یہ کتاب الہٰی کی آیات ہیں، اور جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے، مگر ﴿تمہاری قوم کے﴾ اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں۔1
وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں2، پھر وہ اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا3، اور اُس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کاپابند بنایا۔4 اِس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقتِ مقرر تک کے لیے چل رہی ہے5 اور اللہ ہی اِس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے6، شاید کہ تم اپنے ربّ کی ملاقات کا یقین کرو۔7
اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیے ہیں۔ اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں، اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے۔8 ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیےجو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔
اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خِطّے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔9 انگور کے باغ ہیں،کھیتیاں ہیں، کھجُور کے درخت ہیں جن میں کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دوہرے۔10 سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر۔ ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔11
اب اگر تمہیں تعجّب کرنا ہے تو تعجّب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ”جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سِروں سے پیدا کیے جائیں گے؟“ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ سے کُفر کیا ہے۔12 یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔13 یہ جہنّمی ہیں اورجہنّم میں ہمیشہ رہیں گے۔
یہ لوگ بھلائی سے پہلے بُرائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں14 حالانکہ ان سے پہلے ﴿ جو لوگ اس روش پر چلے ہیں ان پر خدا کے عذاب کی﴾ عبرت ناک مثالیں گزر چکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا ربّ لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا ربّ سخت سزا دینے والا ہے۔
یہ لوگ جنہوں نے تمہاری بات ماننے سے انکار کر دیا ہے، کہتے ہیں کہ” اِس شخص پر اِ س کے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتری؟“15۔۔۔۔ تم تو محض خبردار کر دینے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے۔16 ؏ ١
اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے۔ جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ با خبر رہتا ہے۔17 ہر چیز کے لیے اُس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔ وہ پوشیدہ اور ظاہر، ہر چیز کا عالِم ہے۔ وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے۔ تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھُپا ہُوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، اس کے لیے سب یکساں ہیں۔ ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگراں لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔18 حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہو سکتا ہے۔19
وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور اُمیدیں بھی بندھتی ہیں۔ وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اُٹھاتا ہے۔ بادلوں کی گرج اُس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے20 اور فرشتے اُس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اُس کی تسبیح کرتے ہیں۔21 وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور ﴿بسا اوقات﴾ اُنہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جب کہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ فی الواقع اس کی چال بڑی زبردست ہے۔22
اسی کو پکارنا برحق ہے۔23 رہیں وہ دُوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعاوٴں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ اُنہیں پُکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اُس سے درخواست کرے کہ تُو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اُس تک پہنچے والا نہیں۔ بس اِسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرِ بے ہدف!وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعًا و کرہًا سجدہ کر رہی ہے24 اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اُس کے آگے جُھکتے ہیں۔25 السجدة ۲
اِن سے پوچھو، آسمان و زمین کا ربّ کون ہے؟۔۔۔۔ کہو، اللہ۔26 پھر، اِن سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھہرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے؟27 کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟28 اور اگر ایسا نہیں تو کیا اِن کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیداکیا ہے کہ اُس کی وجہ سے اِن پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا؟۔۔۔۔29 کہو، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے ، سب پر غالب!30
اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا پھر جب سیلاب اُٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔31 اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اُٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔32 اِسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔
جن لوگوں نے اپنے ربّ کی دعوت قبول کر لی اُن کے لیے بھلائی ہے، اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اتنی ہی اور فراہم کر لیں تو وہ خُدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔33 یہ وہ لوگ ہیں جن سے بُری طرح حساب لیا جائے گا* 34* اور اُن کا ٹھکانا جہنّم ہے، بہت ہی بُرا ٹھکانہ۔ ؏ ۲
بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے ربّ کی اِس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں؟35 نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔36اور ان کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اسے مضبوط باندھے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔37 ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے38 انہیں برقرار رکھتے ہیں،اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بُری طرح حساب نہ لیا جائے۔ اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے ربّ کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں39 ، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔40 آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے ، یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباوٴ اجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے اور اُن سے کہیں گے کہ ”تم پر سلامتی ہے،41 تم نے دُنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِ س کے مستحق ہوئے ہو“۔۔۔۔پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں، جو اُن رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔
اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا رزق دیتا ہے۔42 یہ لوگ دُنیوی زندگی میں مگن ہیں ، حالانکہ دُنیا کی زندگی آخرت کے مقابلےمیں ایک متاعِ قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ؏ ۳
یہ لوگ جنہوں نے ﴿ رسالتِ محمدی ؐ کو ماننے سے﴾ انکار کر دیا ہے کہتے ہیں ” اِس شخص پر اِس کے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتری؟“43۔۔۔۔کہو، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رُجوع کرے۔44 ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے ﴿اِس نبی ؐ کی دعوت کو﴾ مان لیا ہے اور اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبر دار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے ۔ پھر جن لوگوں نے دعوتِ حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لیے اچھا انجام ہے۔
اے محمد ؐ ، اِسی شان سے ہم نے تم کو رسُول بنا کر بھیجا ہے45، ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں، تا کہ تم اِن لوگوں کو وہ پیغام سُناوٴ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے، اِس حال میں کہ یہ اپنے نہایت مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں۔46 اِن سےکہو کہ وہی میرا ربّ ہے ، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں،اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میں ملجا و ماویٰ ہے۔
اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اُتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل بولنے لگتے؟47 ﴿اِس طرح کی نشانیاں دِکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے﴾ بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔48 پھر کیا اہلِ ایمان ﴿ابھی تک کفّار کی طلب کے جواب میں کِسی نشانی کے ظہُور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر ﴾ مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا ؟49 جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کُفر کا رویّہ اختیار کر رکھا ہے اُن پر ان کے کر تُو توں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے، یا ان کےگھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پُورا ہو۔ یقیناً اللہ اپنے وعدوں کے خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ؏ ۴
تم سے پہلے بھی بہت سے رسُولوں کا مذاق اُڑایا جا چکا ہے، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخرِ کار ان کو پکڑ لیا ، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔
پھر کیا وہ جو ایک ایک متنفّس کی کمائی پر نظر رکھتا ہے50 ﴿اُس کے مقابلے میں یہ جسارتیں کی جارہی ہیں51 کہ﴾ لوگوں نے اُس کے کچھ شریک ٹھہرا رکھے ہیں؟ اے نبی ؐ ، اِن سےکہو، ﴿اگر واقعی وہ خدا کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں تو﴾ ذرا اُن کے نام لو کہ وہ کون ہیں؟ کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جسے وہ اپنی زمین میں نہیں جانتا؟ تا تم لوگ بس یونہی جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہو؟52 حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کیا ہے ان کے لیے اُن کی مکّاریاں53 خوشنما بنا دی گئی ہیں اور وہ راہِ راست سے روک دیے گئے ہیں54، پھر جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے اُس کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے دُنیا کی زندگی ہی میں عذاب ہے ، اور آخرت کا عذاب اُس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کوئی ایسا نہیں جو اُنہیں خدا سے بچانے والا ہو۔ خداترس انسانوں کے لیے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال ۔ یہ انجام ہے متقی لوگوں کا۔ اور منکرینِ حق کا انجام یہ ہےکہ ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔
اے نبی ؐ ، جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اِس کتاب سے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے ، خوش ہیں اور مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے۔ تم صاف کہہ دو کہ”مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھہراوٴ۔ لہٰذا میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجُوع ہے55۔“ اِسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمانِ عربی تم پر نازل کیا ہے۔ اب اگر تم نے اِس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آچکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے۔؏۵
تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسُول بھیج چکے ہیں اور اُن کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا۔56 اور کسی رسُول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لا دکھاتا۔57 ہر دَور کے لیے ایک کتاب ہے۔ اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، اُمُّ الکتاب اُسی کے پاس ہے۔58
اور اے نبی ؐ ، جس بُرے انجام کی دھمکی ہم اِن لوگوں کو دے رہے ہیں اُس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہُور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اُٹھا لیں، بہر حال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔59 کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اِس سرزمین پر چلے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آرہے ہیں؟60 اللہ حکومت کر رہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے والا نہیں ہے، اور حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ اِن سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں 61، مگر اصل فیصلہ کُن چال تو پُوری کی پُوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون کیا کچھ کمائی کر رہا ہے، اور عنقریب یہ منکرینِ حق دیکھ لیں گے کہ انجام کس کا بخیر ہوتا ہے۔
یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو۔ کہو، ” میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر ہر اُس شخص کی گواہی جو کتابِ آسمانی کا علم رکھتا ہے۔“62 ؏ ٦ (1)
--------------------------------------
1- تفہیم القرآن ، جلد دوم ص 440 ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ