شرعی حدود ـ سید ابوالاعلی مودودیؒ

قرآن مین ایک جگہ روزے کے احکام بیان کرنے کے بعد ارشاد باری تعالی ہے ۔ 

---------تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ---------- ( سورۃ البقرۃ - ١٨٧)

 یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ 

----------------------------
اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے سید ابوالاعلی مودودیؒ لکھتے ہیں ۔ 

"یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا، بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہوتی ہے، عین اسی مقام کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لیے خطرناک ہے۔ سلامتی اس میں ہے کہ آدمی سرحد سے دور ہی رہے تاکہ بھولے سے بھی قدم اس کے پار نہ چلا جائے۔ یہی مضمون اس حدیث میں بیان ہوا ہے، جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لکل ملکٍ حمیٰ و ان حمی اللہ محار مہ، فمن رتع حول الحمی، یوشک ان یقع فیہ۔ عربی زبان میں حمیٰ اس چراگاہ کو کہتے ہیں، جسے کوئی رئیس یا بادشاہ پبلک کے لیے ممنوع کر دیتا ہے۔ اس استعارے کو استعمال کرتے ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ”ہر بادشاہ کی ایک حمیٰ ہوتی ہے اور اللہ کی حمیٰ اس کی وہ حدیں ہیں، جن سے اس نے حرام و حلال اور طاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے۔ جو جانور حمیٰ کے گرد ہی چرتا رہے گا، ہوسکتا ہے کہ ایک روز وہ حمیٰ کے اندر داخل ہوجائے۔“ افسوس ہے کہ بہت سے لوگ جو شریعت کی روح سے ناواقف ہیں، ہمیشہ اجازت کی آخری حدوں تک ہی جانے پر اصرار کرتے ہیں اور بہت سے علما و مشائخ بھی اسی غرض کے لیے سندیں ڈھونڈ کر جواز کی آخری حدیں انہیں بتایا کرتے ہیں، تاکہ وہ اس باریک خط امتیاز ہی پر گھومتے رہیں، جہاں اطاعت اور معصیت کے درمیان محض بال برابر فاصلہ رہ جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بکثرت لوگ معصیت اور معصیت سے بھی بڑھ کر ضلالت میں مبتلا ہو رہے ہیں، کیونکہ ان باریک سرحدی خطوط کی تمیز اور ان کے کنارے پہنچ کر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے۔"

-------------------------

تفہیم القرآن ، سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :196 ، سید ابوالاعلی مودودیؒ