قانونِ قصاص

ارشاد باری تعالی ہے :۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی ؕ اَلۡحُرُّ بِالۡحُرِّ وَ الۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَ الۡاُنۡثٰی بِالۡاُنۡثٰی ؕ فَمَنۡ عُفِیَ لَہٗ مِنۡ اَخِیۡہِ شَیۡءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیۡہِ بِاِحۡسَانٍ ؕ ذٰلِکَ تَخۡفِیۡفٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ،  وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ سورۃ البقرۃ 178-179 ﴾ 

ترجمہ :

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص (1) کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نےقتل کیا ہو تو آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے ، غلام قاتل ہو تو غلام ہی قتل کیا جائے،اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔(2) ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی(3) کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، تو معروف طریقے کے مطابق (4) خوں بہا کا تصفیہ ہو نا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔

یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے،اس کے لیےدرد ناک سزاہےـ عقل و خرد ر کھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے(5)۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔"

------------------------

حواشی : 

1- قِصَاص، یعنی خُون کا بدلہ ، یہ کہ آدمی کے ساتھ وہی کیا جائے، جو اُس نے دُوسرے آدمی کے ساتھ کیا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قاتل نے جس طریقے سے مقتول کو قتل کیا ہو، اُسی طریقے سے اس کو قتل کیا جائے، بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ جان لینے کا جو فعل اُس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے وہی اُس کے ساتھ کیا جائے۔

2- جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ ایک قوم یا قبیلے کے لوگ اپنے مقتول کے خون کو جتنا قیمتی سمجھتے تھے، اتنی ہی قیمت کا خُون اُس خاندان یا قبیلے یا قوم سے لینا چاہتے تھے جس کے آدمی نے اُسے مارا ہو۔ محض مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لے لینے سے ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے ایک آدمی کا بدلہ بیسیوں اور سینکڑوں سے لینا چاہتے تھے۔ ان کا کوئی معزّز آدمی اگر دُوسرے گروہ کے کسی چھوٹے آدمی کے ہاتھوں مارا گیا ہو، تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ قاتل کے قبیلے کا بھی کوئی ویسا ہی معزّز آدمی مارا جائے یا اُس کے کئی آدمی اُن کے مقتول پر سے صدقہ کیے جائیں۔ 

برعکس اس کے اگر مقتول اُن کی نگاہ میں کوئی ادنیٰ درجے کا شخص اور قاتل کوئی زیادہ قدر و عزّت رکھنے والا شخص ہوتا ، تو وہ اس بات کو گوارہ نہ کرتے تھے کہ مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لی جائے۔

 اور یہ حالت کچھ قدیم جاہلیّت ہی میں نہ تھی۔ موجودہ زمانے میں جن قوموں کو انتہائی مہذّب سمجھا جاتا ہے ، اُن کے باقاعدہ سرکاری اعلانات تک میں بسا اوقات یہ بات بغیر کسی شرم کے دُنیا کو سُنائی جاتی ہے کہ ہمارا ایک آدمی مارا جائے گا تو ہم قاتل کی قوم کے پچاس آدمیوں کی جان لیں گے۔ اکثر یہ خبریں ہمارے کان سُنتے ہیں کہ ایک شخص کے قتل پر مغلوب قوم کے اتنے یرغمالی گولی سے اُڑائے گئے۔ ایک”مہذّب“ قوم نے اِسی بیسویں صدی میں اپنے ایک فرد ”سرلی اسٹیک“ کے قتل کا بدلہ پوری مصری قوم سے لے کر چھوڑا ۔ دُوسری طرف اِن نام نہاد مہذب قوموں کی باضابطہ عدالتوں تک کا یہ طرزِ عمل رہا ہے کہ اگر قاتل حاکم قوم کا فرد ہو اور مقتول کا تعلق محکوم قوم سے ہو، تو ان کے جج قصاص کا فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

 یہی خرابیاں ہیں ، جن کے سدِ باب کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ مقتول کے بدلے میں صرف قاتل ہی کی جان لی جائے قطع نظر اس سے کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون۔


3- ”بھائی“ کا لفظ فرما کر نہایت لطیف طریقے سے نرمی کی سفارش بھی کر دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اور دُوسرے شخص کے درمیان باپ ماری کا بیر ہی سہی، مگر ہے تو وہ تمہارا انسانی بھائی۔ لہٰذا اگر اپنے ایک خطا کار بھائی کے مقابلے میں انتقام کے غصّے کو پی جا ؤ ، تو یہ تمہاری انسانیت کے زیادہ شایانِ شان ہے۔۔۔۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلامی قانونِ تعزیرات میں قتل تک کا معاملہ قابلِ راضی نامہ ہے۔ مقتول کے وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ قاتل کو معاف کر دیں اور اس صورت میں عدالت کے لیے جائز نہیں کہ قاتل کی جان ہی لینے پر اصرار کرے۔ البتہ جیسا کہ بعد کی آیت میں ارشاد ہوا ، معافی کی صُورت میں قاتل کو خوں بہا ادا کرنا ہوگا۔


4- ”مَعْرُوْف“ کا لفظ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ صحیح طریقِ کار ہے ، جس سے بالعمُوم انسان واقف ہوتے ہیں، جس کے متعلق ہر وہ شخص ، جس کا کوئی ذاتی مفاد کسی خاص پہلو سے وابستہ نہ ہو، یہ بول اُٹھے کہ بے شک حق اور انصاف یہی ہے اور یہی مناسب طریقِ عمل ہے۔ رواجِ عام( Common Law ) کو بھی اسلامی اصطلاح میں ”عرف“ اور ”معروف“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ ایسے تمام معاملات میں معتبر ہے ، جن کے بارے میں شریعت نے کوئی خاص قاعدہ مقرر نہ کیا ہو۔


(مثلاً) یہ کہ مقتول کا وارث خوں بہا وصُول کر لینے کے بعد پھر انتقام لینے کی کوشش کرے، یا قاتل خوں بہا ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے اور مقتول کے وارث نے جو احسان اس کے ساتھ کیا ہے، اس کا بدلہ احسان فراموشی سے دے۔


5- یہ ایک دُوسری جاہلیّت کی تردید ہے ، جو پہلے بھی بہت سے دماغوں میں موجود تھی اور آج بھی بکثرت پائی جاتی ہے۔ جس طرح اہلِ جاہلیّت کا ایک گروہ انتقام کے پہلو میں افراط کی طرف چلا گیا، اسی طرح ایک دُوسرا گروہ عفو کے پہلو میں تفریط کی طرف گیا ہے اور اس نے سزائے موت کے خلاف اتنی تبلیغ کی ہے کہ بہت سے لوگ اس کو ایک نفرت انگیز چیز سمجھنے لگے ہیں اور دُنیا کے متعدّد ملکوں نے اسے بالکل منسُوخ کر دیا ہے۔ قرآن اسی پر اہلِ عقل کو مخاطب کر کے تنبیہ کر تا ہے کہ قصاص میں سوسائیٹی کی زندگی ہے۔ جو سوسائیٹی انسانی جان کا احترام نہ کرنے والوں کی جان کو محترم ٹھیراتی ہے، وہ دراصل اپنی آستین میں سانپ پالتی ہے۔ تم ایک قاتل کی جان بچا کر بہت سے بے گناہ انسانوں کی جانیں خطرے میں ڈالتے ہو۔

--------------------------