سامری اور بچھڑے کی حقیقت

ارشاد باری تعالی : 

قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يٰسَامِرِيُّ 95؀  قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِيْ نَفْسِيْ 96؀ (سورۃ طہ )

ترجمہ : " موسیٰ نے کہا کہ اے سامری، تمھارا کیا معاملہ ہے۔  اس نے کہا کہ مجھ کو وہ چیز نظر آئی جو دوسروں کو نظر نہیں آئی تو میں نے رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی اٹھائی اور وہ اس میں ڈال دی۔ میرے نفس نے مجھ کو ایسا ہی سمجھایا۔" 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید ابوالاعلی مودودیؒ نے کی تفسیر میں لکھا ہے کہ " اس آیت کی تفسیر میں دو گروہوں کی طرف سے عجیب کھینچ تان کی گئی ہے۔ 

ایک گروہ جس میں قدیم طرز کے مفسرین کی بڑی اکثریت شامل ہے، اس کا یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ " سامری نے رسول یعنی حضرت جبریل کو گزرتے ہوئے دیکھ لیا تھا، اور ان کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر مٹی اٹھا لی تھی، اور یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب اسے بچھڑے کے بت پر ڈالا گیا تو اس میں زندگی پیدا ہوگئی اور جیتے جاگتے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی۔ " حالانکہ قرآن یہ نہیں کہہ رہا ہے فی الواقع ایسا ہوا تھا۔ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ حضرت موسیٰ کی باز پرس کے جواب میں سامری نے یہ بات بنائی۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مفسرین اس کو ایک امر واقعی، اور قرآن کی بیان کردہ حقیقت کیسے سمجھ بیٹھے۔ 

دوسرا گروہ سامری کے قول کو ایک اور ہی معنی پہناتا ہے۔ اس کی تاویل کے مطابق سامری نے دراصل یہ کہا تھا کہ " مجھے رسول، یعنی حضرت موسیٰ میں، یا ان کے دین میں وہ کمزوری نظر آئی جو دوسروں کو نظر نہ آئی۔ اس لیے میں نے ایک حد تک تو اس کے نقش قدم کی پیروی کی، مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا "۔ یہ تاویل غالباً سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی کو سوجھی تھی، پھر امام رازی نے اس کو اپنی تفسیر میں نقل کر کے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، اور اب طرز جدید کے مفسرین بالعموم اسی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ لیکن یہ حضرات اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ قرآن معموں اور پہیلیوں کی زبان میں نازل نہیں ہوا ہے بلکہ صاف اور عام فہم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کو ایک عام عرب اپنی زبان کے معروف محاورے کے مطابق سمجھ سکے۔ کوئی شخص جو عربی زبان کے معروف محاورے اور روز مرہ سے واقف ہو، کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ سامری کے اس مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے عربی مبین میں وہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے جو آیت زیر تفسیر میں پائے جاتے ہیں۔ نہ ایک عام عرب ان الفاظ کو سن کر کبھی وہ مطلب لے سکتا ہے جو یہ حضرات بیان کر رہے ہیں۔ لغت کی کتابوں میں سے کسی لفظ کے وہ مختلف مفہومات تلاش کرلینا جو مختلف محاوروں میں اس سے مراد لیے جاتے ہوں۔ اور ان میں سے کسی مفہوم کو لا کر ایک ایسی عبارت میں چسپاں کر دینا جہاں ایک عام عرب اس لفظ کو ہرگز اس مفہوم میں استعمال نہ کرے گا۔ زباں دانی تو نہیں ہو سکتا، البتہ سخن سازی کا کرتب ضرور مانا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے کرتب فرہنگ آصفیہ ہاتھ میں لے کر اگر کوئی شخص خود ان حضرات کی اردو تحریروں میں، یا آکسفورڈ ڈکشنری لے کر ان کی انگریزی تحریروں میں دکھانے شروع کر دے، تو شاید اپنے کلام کی دو چار ہی تاویلیں سن کر یہ حضرات چیخ اٹھیں۔ بالعموم قرآن میں ایسی تاویلیں اس وقت کی جاتی ہیں جبکہ ایک شخص کسی آیت کے صاف اور سیدھے مطلب کو دیکھ کر اپنی دانست میں یہ سمجھتا ہے کہ یہاں تو اللہ میاں سے بڑی بےاحتیاطی ہوگئی، لاؤ میں ان کی بات اس طرح بنا دوں کہ ان کی غلطی کا پردہ ڈھک جائے اور لوگوں کو ان پر ہنسنے کا موقع نہ ملے۔ 

اس طرز فکر کو چھوڑ کر جو شخص بھی اس سلسلہ کلام میں اس آیت کو پڑھے گا وہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھ لے گا کہ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا جس نے خوب سوچ سمجھ کر ایک زبردست مکر و فریب کی اسکیم تیار کی تھی۔ اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ سونے کا بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کر دی اور ساری قوم کے جاہل و نادان لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔ بلکہ اس پر مزید یہ جسارت بھی کی کہ خود حضرت موسیٰ کے سامنے ایک پر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آتا تھا، اور ساتھ ساتھ یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقش قدم کی ایک مٹھی بھر مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی ہے۔ رسول سے مراد ممکن ہے کہ جبریل ہی ہوں، جیسا کہ قدیم مفسرین نے سمجھا ہے۔ لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ اس نے رسول کا لفظ خود حضرت موسیٰ کے لیے استعمال کیا تھا، تو یہ اس کی ایک اور مکاری تھی۔ وہ اس طرح حضرت موسیٰ کو ذہنی رشوت دینا چاہتا تھا، تاکہ وہ اسے اپنے نقش قدم کی مٹی کا کرشمہ سمجھ کر پھول جائیں اور اپنی مزید کرامتوں کا اشتہار دینے کے لیے سامری کی خدمات مستقل طور پر حاصل کرلیں۔ قرآن اس سارے معاملے کو سامری کے فریب ہی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے، اپنی طرف سے بطور واقعہ بیان نہیں کر رہا ہے کہ اس سے کوئی قباحت لازم آتی ہو اور لغت کی کتابوں سے مدد لے کر خواہ مخواہ کی سخن سازی کرنی پڑے۔ بلکہ بعد کے فقرے میں حضرت موسیٰ نے جس طرح اس کو پھٹکارا ہے اور اس کے لیے سزا تجویز کی ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کے گھڑے ہوئے اس پر فریب افسانے کو سنتے ہی انہوں نے اس کے منہ پر مار دیا۔" (تفہیم القرآن جلد سوم ، سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :73، مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ )

===============

سامری:

"یہ اس شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ یائے نسبتی کی صریح علامت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہرحال کوئی نہ کوئی نسبت ہی ہے، خواہ قبیلے کی طرف ہو یا نسل کی طرف یا مقام کی طرف۔ پھر قرآن جس طرح " السامری " کہہ کر اس کا ذکر کر رہا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں سامری قبیلے یا نسل یا مقام کے بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے ایک خاص سامری وہ شخص تھا جس نے بنی اسرائیل میں سنہری بچھڑے کی پرستش پھیلائی۔ اس سے زیادہ کوئی تشریح قرآن کے اس مقام کی تفسیر کے لیے فی الحقیقت درکار نہیں ہے۔ لیکن یہ مقام ان اہم مقامات میں سے ہے جہاں عیسائی مشنریوں، اور خصوصاً مغربی مستشرقین نے قرآن پر حرف گیر کی حد کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ، معاذ اللہ، قرآن کے مصنف کی جہالت کا صریح ثبوت ہے، اس لیے کہ دولت اسرائیل کا دارالسلطنت " سامریہ " اس واقعہ کے کئی صدی بعد 965 ق م کے قریب زمانے میں تعمیر ہوا، پھر اس کے بھی کئی صدی بعد اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کی وہ مخلوط نسل پیدا ہوئی جس نے " سامریوں " کے نام سے شہرت پائی۔  ان کا خیال یہ ہے کہ ان سامریوں میں چونکہ دوسری مشرکانہ بدعات کے ساتھ ساتھ سنہری بچھڑے کی پرستش کا رواج بھی تھا، اور یہودیوں کے ذریعہ سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کی سن گن پالی ہوگی، اس لئے انہوں نے لے جا کر اس کا تعلق حضرت موسیٰ کے عہد سے جوڑ دیا اور یہ قصہ تصنیف کر ڈالا کہ وہاں سنہری بچھڑے کی پرستش رائج کرنے والا ایک سامری شخص تھا۔

اسی طرح کی باتیں ان لوگوں نے ہامان کے معاملہ میں بنائی ہیں جسے قرآن فرعون کے وزیر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے، اور عیسائی مشنری اور مستشرقین اسے اخسویرس (شاہ ایران) کے درباری امیر " ہامان " سے لے جا کر ملا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے مصنف کی جہالت کا ایک اور ثبوت ہے۔ شاید ان مدعیان علم و تحقیق کا گمان یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایک نام کا ایک ہی شخص یا قبیلہ یا مقام ہوا کرتا تھا اور ایک نام کے دو یا زائد اشخاص یا قبیلہ و مقام ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہ تھا۔ حالانکہ سمیری قدیم تاریخ کی ایک نہایت مشہور قوم تھی جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دور میں عراق اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر چھائی ہوئی تھی، اور اس بات کا بہت امکان ہے کہ حضرت موسیٰ کے عہد میں اس قوم کے، یا اس کی کسی شاخ کے لوگ مصر میں سامری کہلاتے ہوں۔

پھر خود اس سامریہ کی اصل کو بھی دیکھ لیجیے جس کی نسبت سے شمالی فلسطین کے لوگ بعد میں سامری کہلانے لگے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ دولت اسرائیل کے فرمانروا عمری نے ایک شخص " سمر " نامی سے وہ پہاڑ خریدا تھا جس پر اس نے بعد میں اپنا دار السلطنت تعمیر کیا۔ اور چونکہ پہاڑ کے سابق مالک کا نام سمر تھا اس لیے اس شہر کا نام سامریہ رکھا گیا (سلاطین 1، بابا 16۔ آیت 24 )۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سامریہ کے وجود میں آنے سے پہلے " سمر " نام کے اشخاص پائے جاتے تھے اور ان سے نسبت پا کر ان کی نسل یا قبیلے کا نام سامری، اور مقامات کا نام سامریہ ہونا کم از کم ممکن ضرور تھا۔"  (تفہیم القرآن ،  سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :63، سید ابوالاعلی مودودیؒ )