قرآن : کائنات اور انسان ۔ احمد طیب

 کائنات کے بارے میں قرآن کا تصور : 

قرآن : کائنات اور انسان 

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کائنات  ایک بامقصد تخلیقی سکیم پر قائم ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ۔

إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ ( القمر : 49 -50 ) (ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے۔ )

وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان : 2) (جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔)

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو وجود بخشا ہے ، بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لیے صورت، جسامت ، قوت و استعداد، اوصاف و خصائص ، کام اور کام کا طریق ، بقاء کی مدت، عروج و ارتقاء کی حد، اور دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں ، اور پھر اسی نے عالم وجود میں وہ اسباب و وسائل اور مواقع پیدا کیے ہیں جن کی بدولت ہر چیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہے ۔ اور پوری کائنات اس کے ارادے اور مشیت پر حرکت کررہی ہے۔

 وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (التكوير: 29)

(اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ ربّ العالمین نہ چاہے۔)

 دنیا کی کوئی چیز بھی اَلَل ٹپ نہیں پیدا کر دی گئی ہے ، بلکہ ہر چیز کی ایک تقدیر ہے جس کے مطابق وہ ایک مقرر وقت پر بنتی ہے ، ایک خاص شکل اختیار کرتی ہے ، ایک خاص حد تک نشو نما پاتی ہے ، ایک خاص مدت تک باقی رہتی ہے ، اور ایک خاص وقت پر ختم ہو جاتی ہے ۔ اسی عالمگیر ضابطہ کے مطابق خود اس دنیا کی بھی ایک تقدیر ہے جس کے مطابق ایک وقت خاص تک یہ چل رہی ہے اور ایک وقت خاص ہی پر اسے ختم ہونا ہے ۔  ( تفہیم القرآن ، سُوْرَةُ الْقَمَر حاشیہ نمبر :25)


اس کی مزید صراحت یوں ملتی ہے کہ فرعون نے موسیؑ اور ہارون ؑ سے سوال کرنے پر کہ تم دونوں کا رب کون ہے ؟ جواب میں ارشاد ہوا :

" قَالَ رَبُّنَا الَّـذِىٓ اَعْطٰى كُلَّ شَىْءٍ خَلْقَهٝ ثُـمَّ هَدٰى (سورہ طہ : 40- 50)

(موسیٰؑ نے جواب دیا” ہمارا ربّ وہ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا۔“ )

 قرآن کے مطابق کائنات کا ذرہ ذرہ سربسجود ہے ،  ارشاد باری تعالی  ہے ۔

 وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ  ( الرعد : 15)

(وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعًا و کرہًا سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اُس کے آگے جُھکتے ہیں۔)

سجدے سے مراد اطاعت میں جھکنا ، حکم بجا لانا اور سرِ تسلیم خم کرنا ہے۔ زمین و آسمان کی تمام مخلوق اِس معنی میں اللہ کو سجدہ کر رہے ہیں کہ وہ اس کے قانون کی مطیع ہیں ۔  اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی  اس کے آگے برضا و رغبت جھکتا ہے تو کسی کو  مجبورًا جھکنا پڑتا ہے۔

انسان کے بارے میں قرآن کا تصور : 


 انسان کے بارے میں قرآن کا تصور انتہائی اعلی ہے جس کے اندر اللہ تعالی نے اپنی روح پھونکی، فرمایا :

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ ( الحجر: 29)

(جب میں اُسے پُورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اُس کے آگے سجدے میں گِر جانا۔“)

 اس سے معلو م ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفاتِ الہٰی کا ایک عکس یا پر تَو ہے ۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں ، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتَو ہے جو اس کا لبدِ خاکی پر ڈالا گیا ہے ، اور اسی پر تَو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کی خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ِ ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔  ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے، اس کا منبع اللہ تعالیٰ ہی کی  کوئی نہ کوئی صفت ہے ۔

جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جَعَلَ اللہ ْ الرَّ حْمَۃَ مِأَ ۃَ جُزْءٍ فَاَمْسَکَ عِنْدَہٗ تِسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ وَاَنْزَلَ فِی الْاَرْضِ جُزْ ءً ا وَّ احِدًا فَمِنْ ذٰلِکَ الْجُزْ ءِ یَتَرَ ا حَمُ الْخَلَا ئِقُ حَتّٰی تَرْفَعُ الدَّآ بَّۃُ حَا فِرَ ھَا عَنْ وَّلَدِھَا خَشْیَۃِ اَنْ تُصِیْبَہٗ (بخاری و مسلم)۔

(” اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا ، پھر ان میں سے ۹۹ حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حِصّہ زمین میں اُتارا۔ یہ اُسی ایک حصے کی برکت ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر جانور اپنے بچے پر سے اپنا کُھرا اُٹھاتا ہے تاکہ اُسے ضرر نہ پہنچ جائے، تو یہ بھی دراصل اُسی حصہ رحمت کا اثر ہے“۔ ) (1)

کائنات میں انسان کی حیثیت : 


اسی طرح قرآن میں انسان کی حقیقت اور کائنات میں اس کی حیثیت  بیان کی گئی ہے اور انسانی تاریخ کا وہ باب پیش کیا گیا ہے جس کے معلوم ہونے کا کوئی دُوسرا ذریعہ انسان کو میسر نہیں ہے۔ اس باب سے جو اہم نتائج حاصل ہوتے ہیں، وہ اُن نتائج سے بہت زیادہ قیمتی ہیں جو زمین کی تہوں سے متفرق ہڈیاں نکال کر اور انہیں قیاس و تخمین سے ربط دے کر آدمی اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔(2) ارشاد باری تعالی ہے : 

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ( البقرة : 30)

( پھر ذرا اس وقت کا تصوّر کرو جب تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہا تھاکہ”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں“ انہوں نے عرض کیا ” کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرےگا؟ آپ کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کےلیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں فرمایا میں جانتا ہوں،جو کچھ تم نہیں جانتے )


انسان اس رشتہ خلافت پر کائنات کی دیگر مخلوقات کے ساتھ باہم مربوط ہوجاتاہے ، قرآن انسان کی ایک تاریخ بھی  بیان کرتا ہے،  آدم،  نوح،  ابراھیم ، اسماعیل،  اسحاق ، یعقوب ، یوسف،  موسی،  عیسی ، اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ

دنیا میں جتنے نبی بھی آۓ وہ سب ایک ہی دین لے کر آۓ ، اس  دین کا پیغام یہ تھا کہ صرف ایک اللہ ہی انسان کا رب ہے اور صرف اسی کی بندگی و پرستش کی جانی چاہیے ۔ بعد میں جتنے مذاہب پیدا ہوۓ اسی پیغام  سے انحراف کی وجہ سے ہوئے ۔  پھر انسانوں نے اپنی اپنی تشریح اور تعبیر سے اس میں  بہت سی چیزیں اپنی طرف سے شامل کردی  ۔ اس طرح یہ بے شمار مذاہب وجود میں آگئے ۔ قرآن صراحت سے بیان کرتا ہے کہ یہ انسان ایک ہی ملت پر قائم تھا ۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ ( الانبياء : 92)

(یہ تمہاری اُمّت حقیقت میں ایک ہی اُمّت ہے اور میں تمہارا ربّ ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔ )

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی نے گمراہ کن نظریات کی تردید کی گمراہ انسان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی انہوں نے اللہ کا پیغام ان تک پہنچایا، اللہ تعالی نے انبیاء اور ان کے پیروکاروں کی مدد کی اور نافرمانوں اور سرکشوں کو نست و نابود کردیا یہ سلسلہ آخری نبی تک جاری رہا۔  قرآن میں ایک جگہ انبیاء کے اس سلسلے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے : ارشاد باری تعالی : 

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ (13) وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ (ابراهيم : 14)

(اور کافروں  نے اپنے رسُولوں سے کہہ دیا کہ ”یا تو تمہیں ہماری ملّت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے۔“ تب اُن کے ربّ نے اُن پر وحی بھیجی کہ ”ہم اِن ظالموں کو ہلاک کر دیں گے اور ان کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے۔ یہ انعام ہے اس کا جو میرے حضُور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو۔)

 یہاں بظاہر پچھلے انبیاء اور ان کی قوموں کے واقعات کا ذکر ہے مگر اس مقام پر کفار مکہ کو ، بلکہ مشرکین ِ عرب کو صاف صاف متنبہ کیا ہے  کہ تمہارا مستقبل اب تمہارے فیصلے پر۔ اگر اسے قبول کر لو گے تو عرب کی سرزمین میں رہ سکو گے ، اور اگر اسے رد کر دو گے تو یہاں سے تمہارا نام و نشان تک مِٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ اس بات کو تاریخی واقعات نے ایک ثابت شدہ حقیقت بنا دیا۔ اس پیشین گوئی پر پورے پندرہ برس بھی نہ گزرے تھے کہ سر زمین عرب میں ایک مشرک بھی باقی نہ رہا۔ (3)

قرآن اور انسان : 

اللہ کے آخری پیغام قرآن کے بارے واضح کردیا  کہ

" هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوْا بِهٖ وَلِيَعْلَمُوْٓا اَنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّلِيَذَّكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ( ابراھیم ؑ : 52)

(یہ (قرآن ) ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے، اور یہ اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ لوگوں کو اس کے ذریعہ سے خبردار کیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا ایک ہی ہے اور دانش مند لوگ نصیحت حاصل کریں۔)


انسان کی آزادی اور اللہ کی مشیت کا باہمی تعلق کیا ہے؟  اس تعلق کی نوعیت  کو نہ سمجھنے کی وجہ سے  کئی الجھنیں پید ا ہوجاتی ہیں ، آئیے اس مسئلہ کا قرآن سے جائزہ لیتے ہیں ۔

قرآن کے مطالعہ سے اللہ کے ارادے اور مشیت کے متعلق تین باتین معلوم ہوتی ہیں ایک  یہ کہ جب تک اللہ نہ چاہیے انسان کچھ نہیں کرسکتا اور دوسری بات یہ ہے کہ انسان اپنے فیصلے میں آزاد ہے  ۔

اِنَّ ہٰذِہٖ تَذۡکِرَۃٌ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا ﴿الدھر: ۲۹﴾

(یہ ایک نصیحت ہے ، اب جس کا جی چاہے اپنے ربّ کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے۔ )

اس کے بعد فرمایا :

وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۳۰﴾ یُّدۡخِلُ مَنۡ یَّشَآءُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ وَ الظّٰلِمِیۡنَ اَعَدَّ لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿الدھر: ۳۱﴾

(اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ نہ چاہے۔ یقیناً اللہ بڑا علیم و حکیم ہے، اپنی رحمت میں جس کو چاہتا ہے داخل کرتا ہے، اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ )

ایک جگہ یہ بھی فرمایا:

کَلَّاۤ اِنَّہٗ تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۵۴﴾ فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ؕ۵۵﴾ وَ مَا یَذۡکُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ (المدثر : 56)

(یہ تو ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اس سے سبق حاصل کرلے۔ اور یہ کوئی سبق حاصل نہ کریں گے اِلّا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔)

اس سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کا نصیحت حاصل کرنا سراسر اس کی اپنی مشیت ہی پر موقوف نہیں ہے، بلکہ اسے نصیحت اسی وقت نصیب ہوتی ہے جب کہ اللہ کی مشیت بھی یہ ہو کہ وہ اسے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ دوسرے الفاظ میں یہاں اس حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے کہ بندے کا کوئی فعل بھی تنہا بندے کی اپنی مشیت سے ظہور میں نہیں آتا، بلکہ ہر فعل اسی وقت پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے جب خدا کی مشیت بندے کی مشیت سے مل جائے۔

 یہ ایک نہایت نازک مسئلہ ہے جسے نہ سمجھنے سے انسانی فکر بکثرت ٹھوکریں کھاتی ہے۔

مختصر الفاظ میں اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر اس دنیا میں ہر انسان کو یہ قدرت حاصل ہوتی کہ جو کچھ وہ کرنا چاہے  کر گزرے تو ساری دنیا کا نظام درہم برہم ہوجاتا ۔ جو نظم اس جہاں میں قائم ہے وہ اسی وجہ سے کہ اللہ کی مشیت ساری مشیتوں پر غالب ہے۔

انسان جو کچھ بھی کرنا چاہے وہ اسی وقت کر سکتا ہے جبکہ اللہ بھی یہ چاہے کہ انسان کو وہ کام کرنے دیا جائے۔ یہی معاملہ ہدایت اور ضلالت کا بھی ہے۔ انسان کا محض خود ہدایت چاہنا اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ اسے ہدایت مل جائے، بلکہ اسے ہدایت اس وقت ملتی ہے جب اللہ اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔ اسی طرح ضلالت کی خواہش بھی محض بندے کی طرف سے ہونا کافی نہیں ہے۔ بلکہ جب اللہ اس کے اندر گمراہی کی طلب پا کر یہ فیصلہ کر د یتا ہے کہ اسے غلط راستوں میں بھٹکنے دیا جائے تب وہ ان راہوں میں بھٹک نکلتا ہے جن پر ا للہ اسے جانے کا موقع دے دیتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کوئی چور بننا چاہے تو محض اس کی یہ خواہش اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ جہاں جس کے گھر میں گھس کر وہ جو کچھ چاہے چرالے جائے، بلکہ اللہ اپنی عظیم حکمتوں اور مصلحتوں کے مطابق اس کی اس خواہش کو جب اور جس قدر اور جس شکل میں پورا کرنے کا موقع دیتا ہے اسی حد تک وہ اسے پورا کر سکتا ہے۔ (4)

انسان  کا اختیار :

انسان جن اسباب کو اپنے لیے اختیار کرتاہے وہ یکساں نتائج نہیں دیتے کبھی ان سے خلاف توقع نتائج بھی ظاہر ہوتے ہیں اس سے یقین ہوتا ہے کہ یہ اسباب انسان کےاختیار سے باہر ہے، ان کے خالق بھی اللہ ہے۔  جیسے ارشاد ہے

وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا (الطلاق  : 1)

یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا۔ تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی )کوئی صورت پیدا کر دے۔

اسی طرح یہ بھی  فرمایا :

کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ وَ ہُوَ کُرۡہٌ لَّکُمۡ ۚ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (البقرة : 216)

تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔

----------------

 مزید جاننے کیلے مطالعہ کریں!

1-  تفہیم القرآن جلد دوم ، سُوْرَةُ الْحِجْر حاشیہ نمبر :19
2-  تفہیم القرآن جلد اول ، سُوْرَةُ الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :36
3-  تفہیم القرآن جلد دوم ، سورۃ ابراھیم حاشیہ نمبر: 24 
4-  تفہیم القرآن جلد ششم ،  سُوْرَةُ الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :41